0
Thursday 19 Jul 2018 22:50

سندھ پر پیپلز پارٹی کا 30 سالہ راج، کیا جی ڈی اے اس راج کو چھین سکے گی؟

سندھ پر پیپلز پارٹی کا 30 سالہ راج، کیا جی ڈی اے اس راج کو چھین سکے گی؟
رپورٹ: ایس ایم عابدی

عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ جوں جوں قریب آرہی ہے، سندھ میں ویسے ہی سیاسی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پورا صوبہ انتخابی بخار میں ہے، بعض جگہوں پر انتہائی دلچسپ مقابلوں کی توقع ہے، لیکن کراچی پر لوگوں کی سب سے زیادہ توجہ ہے۔ نگران صوبائی حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں و تقرریوں میں مصروف ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر تبادلوں اور تقرریوں کے احکامات جاری ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ محکمہ جیل خانہ جات میں ساری کایا پلٹ کر دی گئی ہے۔ 8 سال سے آئی جی جیل خانہ جات کے عہدے پر رہنے والے نصرت منگن کو بھی ہٹا دیا گیا ہے۔ اب شاید صوبے میں کوئی بھی افسر یا اہل کار اپنی پہلے والی جگہ پر موجود نہیں ہے اور جو ہیں، وہ بھی عام انتخابات تک نہیں رہیں گے۔ گذشتہ اتوار کو سندھ کی سطح پر قائم ہونے والے سیاسی اتحاد گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس (جی ڈی اے) نے نواب شاہ میں اور مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) نے کراچی میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ جی ڈی اے نے اگرچہ اپنی انتخابی مہم کا آغاز تاخیر سے کیا ہے لیکن یہ آغاز بھرپور ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے سندھ کے طوفانی دورے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جی ڈی اے کی انتخابی مہم اس دورے کے اثرات کو زائل کرسکے گی۔؟

بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سیاسی قلعہ سانگھڑ میں ایک بہت بڑے اور متاثر کن اجتماع سے خطاب کیا تھا۔ اس طرح شہداد پور اور ضلع سانگھڑ کے دیگر علاقوں میں بلاول بھٹو زرداری کا انتہائی پرتپاک استقبال ہوا تھا۔ رات کو تین بجے جب بلاول بھٹو زرداری حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا کے قصبہ پیر جو گوٹھ پہنچے تو حیرت انگیز طور پر وہاں ہزاروں لوگ ان کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ وہاں بلاول بھٹو زرداری نے نعرہ لگایا تھا کہ اب ’’پیر جو گوٹھ‘‘ ’’تیر جو گوٹھ‘‘ میں تبدیل ہوگیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اس دورے سے یہ تاثر پیدا ہوا تھا کہ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے علاقوں کو فتح کر لیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جی ڈی اے میں شامل فنکشنل لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کا پہلا جلسہ نواب شاہ میں کیا، جو آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کا گھر ہے، یہ ایک سیاسی جواب تھا۔ نواب شاہ میں جی ڈی اے کا جلسہ انتہائی متاثر کن تھا، جس میں لوگوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ جلسہ عام سے مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور حروں کے روحانی پیشوا پیر پگارا، قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو، نیشنل پیپلز پارٹی کے سربراہ غلام مرتضٰی خان جتوئی، پیپلز پارٹی ورکرز کے رہنما ڈاکٹر صفدر عباسی، ناہید خان اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔

انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی پر سخت تنقید کی اور اسے سندھ کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہوں نے سندھ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ پیپلز پارٹی سے نجات حاصل کریں۔ جلسہ عام میں ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ان کی اہلیہ ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور سابق وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام رحیم بوجوہ شریک نہ ہوسکے۔ اس بات کو لوگوں نے خاص طور پر محسوس کیا۔ جی ڈی اے کی انتخابی مہم جاری ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں سندھ کے عوام جی ڈی اے کا کس قدر ساتھ دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت پیپلز پارٹی کے لئے اگر سندھ میں کوئی سیاسی چیلنج ہے تو وہ جی ڈی اے ہے، جس کے بارے میں بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے خلاف کٹھ پتلی اتحاد بنایا گیا ہے۔ دوسری طرف سندھ کے دارالحکومت کراچی پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں کیونکہ ساڑھے تین عشروں کے بعد پہلی مرتبہ لوگوں کو کراچی میں سیاسی جماعتوں کو آزادانہ طور پر سیاسی اور انتخابی مہم چلانے کا موقع ملا ہے۔ خوف کی فضا بھی تقریباً ختم ہوگئی ہے۔ اس عرصے میں کراچی کی سیاست پر بلا شرکت غیرے مسلط رہنے والی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) تقسیم در تقسیم اور بحران کا شکار ہے۔ اس کے ساتھ نئی حلقہ بندیوں سے کراچی کے تمام حلقوں کی ہیئت تبدیل ہوگئی ہے، اس لئے کراچی اب دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کے لئے ’’اوپن‘‘ ہوگیا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کراچی سے زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کام کر رہی ہیں، لیکن مذہبی جماعتوں بشمول ایم ایم اے، تحریک لبیک پاکستان اور ملی مسلم لیگ بھی ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت کراچی سے زیادہ پرامید ہیں۔ ایم ایم اے نے گذشتہ اتوار کو کراچی کے باغ جناح میں اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور ایک بڑے جلسہ عام کا انعقاد کیا، جس سے سراج الحق، مولانا فضل الرحمن، شاہ انس نورانی اور دیگر رہنماؤں نے خطاب کیا۔ ایم ایم اے کے قائدین بار بار کراچی کے انفرادی دورے بھی کر رہے ہیں۔ ملی مسلم لیگ کے حافظ سعید اور تحریک لبیک پاکستان کے علامہ خادم حسین رضوی بھی کراچی کے طوفانی دورے کرچکے ہیں۔ سب لوگوں کو کراچی کے حیران کن نتائج کا انتظار ہے۔ سندھ کی نگران حکومت انتظامی اور پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں میں مصروف ہے۔ پورے سندھ میں کوئی بھی افسر اور اہل کار اپنی پہلے والی جگہ پر موجود نہیں ہے اور جو ہے وہ بھی عام انتخابات تک نہیں رہے گا۔ اس طرح سندھ انتظامی طور پر مفلوج ہوگیا ہے۔ پولیس اور محکمہ جیل میں بڑے پیمانے پر الٹ پلٹ نے سکیورٹی کے خدشات بھی پیدا کر دیئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 738950
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش