0
Monday 23 Jul 2018 02:25

معلق پارلیمنٹ اور آئندہ سیٹ اپ کی مشکلات

معلق پارلیمنٹ اور آئندہ سیٹ اپ کی مشکلات
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

پی ٹی آئی کے چیئرمین پانامہ کیس کے انجام کی وجہ سے ذہنی طور پر خود کو مستقبل کا وزیراعظم سمجھ رہے ہیں۔ یہ ممکنات میں سے ہے۔ لیکن وہ اپنے آپ کو پاکستان کا نجات دہندہ بھی سمجھتے ہیں۔ اس میں انہیں ایک فیصد بھی شک نہیں۔ لیکن پاکستان ترقی پذیر ممالک میں سے ہے، معاشی، سماجی اور سیاسی ابتری ہمارا نوآبادیاتی ورثہ ہے، برطانوی سامراج کی تخلیق کردہ نوکرشاہی اس کی محافظ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں الیکشن ہوتے ہیں، لیکن مسائل ختم نہیں ہوتے۔ عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نکال سکتے ہیں۔ حالانکہ وہ ریحام خان سے شادی کی غلطی کے اعتراف سے پہلے یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اچھا ہوا انہیں وفاق میں حکومت نہیں ملی، ورنہ وہ پھنس جاتے۔ اب صورتحال کچھ خاص نہیں بدلی بلکہ گھمبیر ہوئی ہے۔ پاکستان میں بننے والی اگلی حکومت کو گوناگوں چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا، ان میں بڑھتی ہوئی آبادی اور دہشت گردی بھی شامل ہے ، یہ تمام مسائل کئی عشروں سے سول اور فوجی قیادت کے درمیان محاذ آرائی کی وجہ سے پیچیدہ ہو چکے ہیں۔ 25 جولائی کے بعد جس پارٹی کو بھی حکومت ملی، اسے فوری سخت فیصلے کرنا ہونگے، جن میں سرفہرست انتہاپسندی اور معیشت کا شعبہ ہے۔ ملک میں کچھ برسوں کے دوران فوجی کریک ڈاؤن کی وجہ سے امن و امان کی صورتحال میں اگرچہ ڈرامائی بہتری آئی ، تاہم مبصرین خبردار کرتے رہے ہیں کہ پاکستان نے انتہاپسندی کی بنیادی وجوہات پر ابھی تک توجہ نہیں دی، اب بھی دہشت گرد سنگین حملے کر سکتے ہیں، اپنی اس صلاحیت کا وہ مظاہرہ کر تے رہتے ہیں۔

اس میں انتخابی مہم کے دوران ہونیوالے دھماکے شامل ہیں جن میں 175افراد جاں بحق ہوئے، اس میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین دہشت گرد حملہ بھی شامل ہے، جو کہ 13جولائی کو بلوچستان میں کیا گیا، جس میں 149افراد جاں بحق ہوئے، حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی۔ مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ کئی سال کی پسپائی کے بعد دہشت گرد دوبارہ سے منظم ہو سکتے ہیں۔ معیشت کے حوالے سے اگلی حکومت کو ادائیگیوں کے توازن کا سنگین بحران درپیش ہو گا، قیاس آرائی ہو رہی ہے کہ نئی حکومت کو آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑیگا۔ مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں، روپیہ کی قدر مسلسل گر رہی ہے، جس میں حالیہ پانچ فیصد کمی شامل ہے، تاکہ تجارتی خسارہ کم کیا جا سکے۔ پاکستان جوکہ ایک عرصہ سے درآمدات پر انحصار کر رہا ہے، چین کے تعاون سے جاری اربوں ڈالر کے انفراسٹرکچر کے منصوبوں کی وجہ سے درآمدات میں مزید اضافہ ہوا۔ بیجنگ کیساتھ سرمایہ کاری کے پیکیج کی شرائط غیر شفاف ہیں، جس کے باعث خدشات پیدا ہو رہے ہیں کہ پاکستان چینی قرضہ کیسے ادا کرے گا۔ ملکی معیشت کیلئے ایک بڑا مسئلہ تیل کی بڑھتی قیمتیں ہیں۔ ٹیکسٹائل کی معمولی برآمدات کے مقابلے میں کثیر مقدار میں چینی مصنوعات مقامی مارکیٹوں میں دستیاب ہیں، ترسیلات زر کی شرح بھی کم ہو چکی ہے۔ فچ ریٹنگ ایجنسی نے رواں ماہ خبردار کیا کہ نئی حکومت کے پاس کچھ کرنے کیلئے بہت محدود وقت ہو گا۔

پاکستان کی معیشت کے زوال کی داستان کو ایک جملے میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ اسے معیشت کے نیم حکیم سابق وزیر خزانہ اسحق ڈار کی غیر منطقی پالیسیاں لے ڈوبیں۔ روپے کی قدر میں جاری گراوٹ کے سلسلے سے یہ حقیقت بتدریج واضح ہوتی چلی جائے گی کہ سابق حکومت کی مالیاتی منصوبہ بندی کے سب سے بڑے دماغ، جسے معیشت کے شعبے کا اتائی کہنا زیادہ درست ہو گا، کی پالیسیوں کے نتیجے میں معیشت کی جڑیں کھوکھلی ہو چکی ہیں۔ معیشت کی مضبوطی کا ایک مستند کلیہ ہے کہ اخراجات کے پاؤں آمدنی کی چادر سے باہر نہ نکلنے پائیں، اگر ایسا ہوا یعنی پائوں چادر سے باہر آئے تو آپ کے کنگلے پن کی حقیقت دیر تک چھپی نہیں رہے گی، مگر اپنے ملک کی معیشت کے باب میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ عملی طور پر اس مستند کلیے کے برعکس ہوا اور طویل عرصے تک پوری ڈھٹائی کے ساتھ ہوا، نتیجتاً آج ہم اس صورتحال میں پھنسے ہیں کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔ قرضوں پر قرضے لیے گئے، مگر ان قرضوں کو معیشت کی ڈرائیونگ فورس کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے غیر ضروری، غیر پیداواری، دکھاوے اور سیاسی عزائم کے منصوبوں پر بڑھ چڑھ کر خرچ کیا گیا۔ ان منصوبوں کا بنیادی مقصد معیشت کو متحرک کرنا نہیں بلکہ ووٹروں کو خوش کرنا اور سیاسی مفادات حاصل کرنا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے ایسے منصوبوں پر قرضوں کی صورت میں لی گئی خطیر رقوم خرچ کی گئیں، جن سے آمدن کا امکان صفر تھا۔

نواز شریف کے اقتدار میں آنے سے پہلے ڈالر 60 روپے کا تھا، جو اب 130 روپے تک پہنچا ہے، لیکن جنرل ضیاء الحق اور بے نظیر کے دور حکومت میں تو ڈالر 30 روپے سے بھی کم تھا۔ جب 1988ء میں بے نظیر پہلی بار وزیراعظم بنیں، تو اس وقت نواز شریف نے کہا تھا کہ بے نظیر ڈالر کو 50 روپے تک پہنچا کر رہیں گی، لیکن ہوا یہ کہ خود نواز شریف کے دور حکومت میں ڈالر 50 روپے تک پہنچا۔ الغرض نالائقی یا آئی ایم ایف کی غلامی کا یہ قصہ بہت پرانا ہے، تاہم موجودہ نگران حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی 10 دن کے اندر اندر روپے کی قیمت میں کمی کردی اور پاکستانی روپیہ، ڈالر کے مقابلے میں 120 روپے کا ہوگیا۔ گزشتہ دنوں اخبارات میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک ڈالر کو 130 روپے تک پہنچانے کا منصوبہ بنا چکے ہیں اور کئی ماہ سے روپے کی قدر میں کمی پر زور دے رہے ہیں، چنانچہ شاہد خاقان عباسی کے دور حکومت میں اچانک ایک دن میں روپیہ 110 روپے فی ڈالر سے گرا کر 115 روپے تک لے جایا گیا اور پھر ماہِ جون میں نگران حکومت نے ایک ڈالر 120 روپے تک پہنچا دیا۔ ڈالر کی یہ اڑان جاری ہے۔ روپے کی قیمت گرانے کے لیے حکمرانوں کے پاس صرف ایک جواز ہے کہ اس سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ ہوگا، لیکن کتنا اضافہ؟ اس وقت پاکستانی درآمدات اور برآمدات میں فرق 36 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔

موجودہ مالی سال میں صرف مئی تک 11 ماہ میں پاکستان نے 55 ارب 23 کروڑ ڈالر کی درآمدات کیں، جن کے مقابلے میں برآمدات 21 ارب 34 کروڑ ڈالر تھیں۔ پاکستان کے پاس برآمد کرنے کو زیادہ کچھ ہے‘ ہی کیا؟ سب کچھ تو درآمد کیا جارہا ہے۔ کبھی کبھی تو وزیراعظم بھی درآمد کرلیا جاتا ہے۔ دوسری طرف روپے کی قدر میں درآمدی بل اچانک 20 فیصد بڑھ گیا۔ قرض اور اس پر ادا کیا جانے والا سود بھی، اسی مناسبت سے راتوں رات بڑھ گیا اور اسی نسبت سے مہنگائی بڑھے گی۔ کیا یہ طے ہوچکا ہے کہ پاکستان کے عوام کو روٹی سے محروم رکھا جائے گا۔ انتخابات کے بعد جو بھی حکومت آئے گی، وہ معاشی بحران پر اپنے منشور کے زور پر قابو نہیں پاسکے گی۔ عام سیاسی جماعتوں کے پاس آئی ایم ایف اور امریکا کی غلامی سے نکلنے کا کوئی پروگرام ہی نہیں اور وہ جو امریکا کی غلامی سے نجات چاہتے ہیں، وہ بھی کھل کر اسے دشمن قرار دینے پر تیار نہیں، بلکہ اقتدار ملنے کی صورت میں اس سے دوستی اور اچھے تعلقات کی بات کرتے ہیں، جبکہ قرآن نے واضح کہا ہے کہ یہود و نصاریٰ، کبھی تمہارے دوست ہو ہی نہیں سکتے، لہٰذا ایسی دوستی نبھانے سے بہتر ہے کہ ملکی معیشت کو بہتر کیا جائے۔

پاکستان میں جہاں فیملی پلاننگ پر کم توجہ دی جاتی ہے، شرح پیدائش کے اعتبار سے ایشیا میں سرفہرست ہے، ورلڈ بینک اور حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں اوسطاً ایک خاتون کے تین بچے ہیں۔ 1960ء کے بعد پاکستان کی آبادی میں پانچ گنا اضافہ ہوا، جوکہ حالیہ مردم شماری کے مطابق 20کروڑ 70لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق آبادی کی شرح میں تیزی سے اضافہ معاشی اور سماجی ترقی کے عمل کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ دوسری جانب پاکستانی سماج میں مانع حمل پر بات کرنا غیر اخلاقی تصور کیا جاتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق آبادی کی شرح میں اضافہ روکنے کیلئے ٹھوس اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ملک کے قدرتی وسائل پر دباؤ بڑھ جائیگا، حتیٰ کہ بڑھتی آبادی کیلئے پینے کا صاف پانی فراہم کرنا بھی مشکل ہو جائیگا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان ماحولیاتی تباہی کے کنارے پر ہے، اگر نئی حکومت نے پانی کی کمی کا ہنگامی بنیاد وں پر تدارک نہ کیا تو صورتحال سنگین تر ہو سکتی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 2025ء میں پاکستان کو پانی کی سنگین کمی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس میں فی کس 500 کیوبک میٹر سے کم پانی دستیاب ہو گا، جوکہ خشک سالی کے شکار صومالیہ میں دستیاب پانی کا ایک تہائی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کے پاس گلیشیئرز ، دریاؤں، مون سون کی بارشوں اور سیلاب کی صورت میں پانی موجود ہے، مگر پانی ذخیرہ کرنے کیلئے صرف تین بڑے ڈیم ہیں، اس کے مقابلے میں جنوبی افریقہ یا کینیڈا میں ایک ہزار سے زائد ڈیم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فاضل پانی تیزی سے ضائع ہو جاتا ہے۔ پانی کے بحران سے بچنے کیلئے سیاسی عزم کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ پاکستان میں پانی محفوظ بنانے سے متعلق آگاہی پیدا کرنے کیلئے بھی خاص کوششیں ابھی تک شروع نہیں ہوئیں۔

نئی حکومت کیلئے سول ملٹری تعلقات بھی ایک چیلنج ہونگے۔ 71سالہ تاریخ میں پاکستان پر زیادہ وقت فوج کی حکمرانی رہی ہے، سول ملٹری تعلقات میں عدم توازن جمہوریت اور ترقی کے عمل میں ایک بڑی رکاوٹ بنا رہا ہے۔ موجودہ انتخابات میں عدلیہ اور ریاستی اداروں کے متعلق بہت ساری باتیں کی جا رہی ہیں، خود عدلیہ کے اندر سے اٹھنے والی آوازوں کے اثرات الیکشن کے بعد بھی محسوس ہونگے۔ ایک معلق پارلیمنٹ اور دوسری طرف اسکے نتیجے میں کمزور حکومت، ملک کیلئے بہتری اور خوشحالی کی نوید نہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر عمران خان حکومت بناتے ہیں تو پی ٹی آئی میں الیکٹیبلز کو خوش آمدید کہنے سے انہوں نے جس طرح اپنے بیان کردہ اصولوں سے انحراف کیا ہے وہ مفاہمت بھی کرینگے، حکومت میں رہنے کیلئے وہ امریکہ، آئی ایم ایف اور اشرافیہ کیساتھ چلیں گے، اسی طرح کالعدم تنظیموں کو ساتھ لیکر چلیں گے۔ سیدھی سی بات یہ ہے کہ آئندہ وزارت عظمیٰ کا منصب بھی پہلے کی طرح کسی کے ہاتھ لگے گا اور ملک پہلے کی طرح چلے گا۔ پی ٹی آئی نے پچاس لاکھ مکان بنانے کا اعلان کیا ہے، جس کے لیے ایک سو ارب ڈالرز درکار ہونگے، ہمارے خزانے میں کل 9 ارب ڈالر ہیں، یہ اعلانات خلاء میں بیٹھ کر کیے جا رہے یا آئندہ سیٹ اپ آتے ہی ایمرجنسی نافذ کریگا، یہ وقت بتائے گا۔ معیثت اس لیے اہم ہے کہ امن امان، خارجہ پالیسی اور ملکی استحکام اس سے جڑا ہوا ہے۔ کمزور حکومت کو وفاق میں کئی پریشر گروپوں سے وزارتیں دیکر انہیں ساتھ رکھنا پڑے گا، پھر بھی اپوزیشن اتنی مضبوط ہو گی کہ سیٹ اپ کا ٹک جانا مشکل ہو گا۔
خبر کا کوڈ : 739609
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش