0
Tuesday 24 May 2011 07:25

کثرت معلومات نے بے خبر بنا دیا

کثرت معلومات نے بے خبر بنا دیا
تحریر:ثاقب اکبر
 اہل عرفان کہتے ہیں کہ ”کثرت ظہور نے اُسے چھپا رکھا ہے۔“ بڑی گہری اور خوبصورت بات ہے۔ وہ ایک حکایت بیان کرتے ہیں۔ ایک روز سمندر میں ایک مچھلی دوسری سے کہنے لگی: بہن! میں نے سنا ہے کہ پانی کوئی بہت اہم چیز ہے، اس کے بغیر زندگی نہیں ہوتی، تم نے اُسے کہیں دیکھا ہے؟ دوسری مچھلی نے پہلی سے کہا: دیکھا تو میں نے نہیں لیکن سُنا میں نے بھی یہی ہے۔ ایک روز پانی کی ایک بڑی سی لہر نے پہلی مچھلی کو اٹھا کر ساحل پر پھینک دیا، اُوپر سورج کی تمازت اور نیچے ساحل کی ریت، مچھلی تڑپنے لگی، کوئی پاس کھڑا تھا کہنے لگا: یہ واپس پانی میں نہ گئی تو مر جائے گی، کسی چیز کی بہتات اور کثرت عموماً اُس کی اہمیت سے غافل کر دیتی ہے۔ ہمارے لیے عام طور پر ہوا کا یہی حال ہے۔ امام حسین ع ایک عارفانہ دعا و مناجات میں اللہ سے ”حجاب نور“ ہٹانے کی بات کرتے ہیں۔ نور جو حقائق کو آشکار کرتا ہے، گاہے خود حجاب بن جاتا ہے۔
شاید آنے والی بات کا بیان شدہ مطلب سے کوئی زیادہ تعلق نہ ہو، لیکن اسے بھی پڑھ لینے میں کچھ مضائقہ نہیں۔ اگرچہ آپ اسے خود کلامی کہہ سکتے ہیں۔ آپ سے تو ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور نے انسان کو جتنا غافل و بے خبر کر دیا ہے اس کی مثال گذشتہ ادوار میں نہیں ملتی۔ کثرتِ آراء اور ہجومِ اطلاعات نے عجیب فضا پیدا کر دی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ہر طرف دھول اُٹھی ہے اور اس طوفانِ گرد نے چہروں کی شناخت ختم کر دی ہے۔
دھول اٹھی ہے چاروں طرف
چہرے دھندلے دھندلے ہیں
ایسے میں پہچانے کون؟
کون سے اُجلے میلے ہیں
گَرد کے اس گرداب نے اُجلے اور میلے کی تمیز ختم کر دی ہے۔
ڈھیر ساری ویب سائٹس، یوٹیوب، فیس بک، گوگل اور جانے کیا کیا۔ ہزاروں ٹی وی چینل، بے شمار ریڈیو اسٹیشن، ان گنت اخبارات و جرائد۔ موضوعاتی و غیر موضوعاتی، مقامی، قومی اور بین الاقوامی۔ مقالات، انٹرویو، ٹاک شو، مذاکرے، سیمینار اور کانفرنسیں۔ کارٹون، فلم ،ڈرامہ، موسیقی وغیرہ کے موضوعات پر الگ الگ چینل اور ویب سائٹس۔ اخبارات اور جرائد کی ویب سائٹس، حکومتوں اور اداروں کی ویب سائٹس۔ ایک ایک موضوع پر سینکڑوں آراء اور تجزیے۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ پھول کانٹوں میں گھرا ہے اور کوئی کہہ رہا ہے کانٹے پھول کی حفاظت کر رہے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ جنگ امن کے لیے ہے اور کوئی کہہ رہا ہے ”ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔“ دہشت گردی، انتہا پسندی، دھماکے، خودکش حملے، دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خدا جانے کیا کیا۔ کوئی کہتا ہے ظالم مارا گیا، کوئی کہتا ہے ظالم نے مار ڈالا۔ کوئی کہتا ہے یہ آزادی کی تحریک ہے اور کوئی کہتا ہے یہ فتنہ و فساد ہے۔ کوئی پرندے کے مارے جانے پر غم کا گیت گا رہا ہے اور کوئی انسانی بدن کے اعضاء اکٹھے کرنے کا منظر پیش کر رہا ہے۔
ایسے میں بعض لوگوں نے اپنی پسند کے چینل یا اخبار یا موضوع کا انتخاب کر لیا ہے اور باقی تمام امور سے اپنے آپ کو لاتعلق کر لیا۔ بہت سے لوگ اس کثرتِ اطلاعات سے گھبرا کر اور کثرتِ آراء سے اُکتا کر چَین کی وادی کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ بہت سے افراد ہر وقت کی اضطراب انگیز خبروں کی وجہ سے بیمار ہو گئے ہیں۔ بعض کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے اور بعض ہارٹ اٹیک کے جاں گسل مرحلوں سے گزر چکے ہیں۔ بعض جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایسے میں فیصلہ کرنا اور ترجیحات طے کرنا انسان کے لیے دُوبھر بلکہ بہت حد تک ناممکن ہو گیا ہے۔”وکی لیکس“ جیسی ویب سائٹس نے اور طرح کے ہنگامے کھڑے کر دیے ہیں۔ یہ ہماری ترقی کا کمال ہے، یہ سب کیا ہے؟ کیا اس پتلی تماشے کے پیچھے نچانے والی انگلیاں بھی ہیں یا نہیں۔ کیا تماشا گر یہی کچھ چاہتا ہے جو تماشائیوں پر بیت رہی ہے؟ تماشا گر ایک ہے یا زیادہ ہیں؟ مختلف تماشا گر ہونے کی صورت میں مداریوں کے مقاصد کیا ہیں اور آخر کار اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟
کیا انسان کو تھم کر اور ٹھہر کر سوچنے کا موقع مل سکے گا یا نہیں؟ کیا مداری ایسا ہونے دیں گے؟
میں نے کئی مرتبہ اکتا کر ریڈیو اور ٹی وی سننا اور دیکھنا بند کر دیا۔ کئی کئی ہفتے تک۔ گاہے اخبارات پڑھنے بند کر دیے۔ پریشانی و اضطراب میں آخر مجھے ایسے فیصلے کرنے پڑے۔ سچائی اور جھوٹ کے مابین حد فاصل میڈیا اور انفرمیشن کے اس ہنگامے میں کیسے تلاش کی جائے۔ تنہائی میں بیٹھ کر، ساری دنیا سے کٹ کر سوچنے لگتا ہوں تو کہیں قریب سے زبردست دھماکے کی آواز آتی ہے، کئی دفعہ گھر کی کھڑکیاں لرز اُٹھیں، ایمبولینس کی چیخوں نے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ گویا میں کمبل کو چھوڑنا بھی چاہوں تو وہ مجھے نہیں چھوڑتا۔ اس کیفیت سے دوچار ہرآدمی یہ کہتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ
کاش کوئی مجھ کو سمجھاتا
میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا
یوں لگتا ہے کہ آج کا انسان پوری تاریخِ انسانیت میں سب سے زیادہ بے خبر اور سب سے زیادہ مضطرب ہے۔
کیا دنیا میں کچھ حکیم، دانشور اور فلسفی ایسے ہیں کہ جو اس مشکل سے نکلنے کے لیے انسانیت کی راہنمائی کر سکیں۔ کیا کوئی طبیب درد آشنا ہے جو اس درد کا مداوا کر سکے۔ گذشتہ دور کے لیے تو یہ بات سچ ہے کہ:
لفظوں کی نہ محتاج تھی یہ سوز کہانی
ہوتے تھے طبیبوں میں بھی کچھ رنج چشیدہ
البتہ بقول حالی:
کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
آج کے اس اضطراب اور غفلت کا بھی ضرور کوئی علاج ہے۔
میں کیا اور میری بساط کیا، لیکن میرا خیال ہے کہ ”انفارمیشن ٹیکنالوجی“ کے مراکز جن کے ہاتھ میں ہے انہی کی”معرفت“ میں ہمارے سوال کا جواب پنہاں ہیں۔
طاقتور ذرائع ابلاغ کن کے ہاتھوں میں ہیں؟
سب سے زیادہ اسلحہ کون بیچتے ہیں؟
سب سے زیادہ خطرناک اسلحہ کن کے پاس ہے؟
انسانیت کا سب سے زیادہ خون کون بہا رہے ہیں؟
انھیں ہی نہیں اُن کے وابستگان کو بھی پہچاننے کی ضرورت ہے۔ وہ کوئی سا لبادہ اوڑھ لیں، مذہب کا یا سیکولرازم کا، وہ ملا ہوں یا جدیدیت پسند دانشور۔
ہم یا قلب رنجور کے ساتھ معاشرے سے کنارہ کش ہو کر بیٹھ جائیں یا مضطرب انسان کی نجات کی فکر کریں۔
یاد رہے کہ پہلی صورت بھی قابل عمل نہیں۔
دوسری صورت ہی بچتی ہے آگے جو مزاج یار میں آئے۔
مصنف : تنویر حیدر سید
خبر کا کوڈ : 73996
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش