0
Saturday 28 Jul 2018 08:22

اہل بیت (ع) اور معاشرے میں حاکم کا فلسفہ وجودی

اہل بیت (ع) اور معاشرے میں حاکم کا فلسفہ وجودی
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

ہر قوم کو ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو پروردگار انسان کو خلق کر کے یونہی چھوڑ دیتا، اس کی رہنمائی کے لئے ہادی کا انتظام نہ فرماتا۔ اور ہادی بھی وہ بھیجے جو اپنے اپنے دور زمانہ کے بہترین انسان تھے اور ہر ہادی کو خود منتخب کیا، کیونکہ وہ خالق ہے اور جانتا ہے کہ اس کی مخلوق کیلئے کیا بہتر ہے۔ تو جتنے بھی انبیاء و رسل آئے وہ خدا کیجانب سے تھے۔ وہ جو منصوص من اللہ ہیں اور وہ جو لوگوں نے خود چنا ہو اس میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو خلفائے اول و دوم و سوم ہر مشکل میں علی (ع) کے در پہ سوالی نہ بن کے آتے۔۔۔اور نہ ہی یہ کہتے کہ "لولا علی لھلک عمر"۔(1) اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہو جاتا۔ نہ صرف یہ خلیفہ بلکہ ان کے بعد کے ان کے آئمہ بھی دہائی دیتے نظر ہیں، جیسا کہ ابو حنیفہ نے امام صادق علیہ السلام کی شاگردی میں جو دو سال گذارے، ان کے بارے میں کہتے ہیں، "لولا السنتان لھلک النعمان"(2) کہ یہ دو سال نعمان کی زندگی میں نہ ہوتے تو وہ ہلاک ہو جاتا۔ آج کے حالات کو اگر مدنظر رکھیں تو اس وقت ہمارے معاشرے کو پہلے سے کہیں زیادہ اہلبیت علیہم السلام کے طرز زندگی کی ترویج کی ضرورت ہے۔ اسلامی نظام  کے دشمن ہماری جوان نسل کو اس قسم کے آئیڈیلز سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور وہ اس راہ میں مختلف قسم کی روشوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ 

آج جب ہمارے وقت کے امام ہماری نظروں سے اوجھل ہیں اور پردہ غیبت میں ہیں تو ہمیں اپنی نسلوں کی رہنمائی کیلئے محتاط ہونا پڑے گا، کیا ہوا جو امام بظاہر ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، ان کا بتایا ہو رستہ تو ہے، تعلیمات ناب محمدی (ص) تو ہیں، ہم اس لحاظ سے بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمارا دامن اہلیبیت کے علم و معرفت، محبت و عطوفت سے پُر ہے، ہمارے پاس وہ عظیم سرمایہ ہے جو کسی کے پاس نہیں، اور وہ ہیں آئمہ اطہار علیہم  السلام۔ اسی سلسلہ معرفت کی آٹھویں کڑی امام ہشتم، غریب الغربا، شمس الشموس علی ابن موسٰی الرضا (ع) ہیں۔ ہم امام رضا علیہ السلام کو زیادہ تر امام مہربان، امام رؤف اور ہرن کے ضامن کے عنوان سے پہچانتے ہیں جبکہ ان کی زندگی کے دیگر پہلووں سے بطور صحیح آگاہ نہیں ہیں۔ امام رضا علیہ السلام کی شخصیت کےمختلف پہلووں کو جاننےکی ضرورت ہے کہ بچوں کے ساتھ سلوک کے لحاظ سے آپ کی زندگی بہت زیادہ سبق آموز ہے کہ جن سے تربیتی اور تعلیمی مسائل میں استفادہ کرنا چاہیئے۔ بعض اوقات اسلام کے دشمن ہمیں مختلف قسم کے افسانوں میں مشغول کر دیتے ہیں اور ہمارے جوانوں کو ان افسانوں کی طرف لے کر جاتے ہیں کہ جن کا کوئی خارجی وجود نہیں ہے، لیکن ہم اندھا دھند انہیں آئیڈیل بناتے ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام کی زندگی معرفت اور شناخت سےسرشار ہے۔ بس امام کی معرفت کی ضرورت ہے۔

اسلام کی نظر میں معاشرے میں حاکم کا فلسفہ وجودی: 
امام رضا علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں، "ہمیں ایسا کوئی بھی فرقہ اور ملت نہیں ملتےکہ جو ایک مضبوط حکمران کے بغیر ایک پائیدار اور مستحکم زندگی رکھتے ہوں، لوگ اپنے دین اور دنیا کے مسائل کے لئے حاکم اختیار کرنے پر مجبور ہیں"۔ (3) تاریخی اور عینی تجربے نے انتہائی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کو ثابت کیا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کے بعد سب سے پہلے اسلامی نظام اور حکومت کی بنیاد رکھی تھی۔ امام رضا علیہ السلام اس بارے میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں، "ہمیں ایسا کوئی بھی فرقہ اور ملت نہیں ملتے کہ جو ایک مضبوط  حکمران کے بغیر ایک پائیدار اور مستحکم زندگی رکھتے ہوں۔ لہٰذا لوگ اپنے دین اور دنیا کے مسائل کے لئےحاکم اختیار کرنے پر مجبور ہیں تاکہ وہ ان کی سرپرستی کرے۔۔۔۔۔۔۔ اور اس حاکم کے بغیر لوگوں کی زندگی نظم و ضبط پیدا نہیں کر سکتی ہے"۔ (4)

اسلامی حکومت کے سرفہرست ایک عادل حاکم کا ہونا بھی اس دین کے مسلّمہ امور میں سے ہے اور اسلامی تعلیمات میں اس مطلب کی تاکید کی گئی ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں۔ "ہر شہر کے لوگوں کو تین چیزوں کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی دنیا اور آخرت کے امور میں ان سے تمسک کریں اور اگر وہ یہ تین چیز نہ رکھتے ہوں تو وہ ہرج و مرج اور بدنظمی کا شکار ہو جائیں گے۔ متقی اور عالم فقیہ، نیک اور صالح حکمران کہ لوگ جس کی پیروی کریں اور قابل اعتماد اور آگاہ ڈاکٹر"۔ (5) امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں، اگر لوگوں کے لئے ایک طاقتور، امین، محافظ اور عادل امام اور قائد قرار نہ دیا جاتا تو دین تباہ و برباد ہو جاتا ہے اور الٰہی احکام اور سنت تبدیل ہو جاتے، بدعتی لوگ اس میں بدعتیں پیدا کردیتے اور ملحدین اس میں کمی کر دیتے اور مسلمان شک و شبہ کا شکار ہو جاتے۔ ۔ ۔

امام رضا اللہ کے نور کا ٹکڑا، اسکی رحمت کی خوشبو اور آئمہ طاہرین کی آٹھویں کڑی ہیں، جن سے اللہ نے رجس کو دور رکھا اور ان کو اس طرح پاک و پاکیزہ رکھا جس طرح سے پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔ مامون نے آئمہ طاہرین ؑ کے متعلق اپنے زمانہ کے بڑے مفکر و ادیب عبداللہ بن مطر سے سوال کرتے ہوئے کہا، اہل بیت ؑ کے سلسلہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ عبداللہ نے ان سنہرے لفظوں میں جواب دیا، میں اس طینت کے بارے میں کیا کہوں جس کا خمیر رسالت کے پانی سے تیار ہوا اور وحی کے پانی سے اس کو سیراب کیاگیا؟ کیا اس سے ہدایت کے مشک اور تقویٰ کے عنبر کے علاوہ کوئی اورخوشبو آ سکتی ہے؟ ان کلمات نے مامون کے جذبات پر اثرکیا اس وقت امام رضا ؑبھی موجود تھے، آپ نے عبداللہ کا منھ موتیوں سے بھر دینے کا حکم صادر فرمایا۔ وہ تمام اصلی ستون اور بلند و بالا مثالیں جن کی امام ؑ عظیم سے تشبیہ دی گئی ہے، آپ ؑ کے سلوک، ذات کی ہوشیاری اور دنیا کی زیب و زینت سے رو گردانی کرنا سوائے اُن ضروریات کے جن سے انسان اللہ سے لو لگاتا ہے، یہ سب اسلام کی دولتوں میں سے ایک دولت ہے۔ ہم ان میں سے بعض خصوصیات اختصار کے طور پر بیان کرتے ہیں:

آپ ؑ کی پرورش:
امام ؑ نے اسلام کے سب سے زیادہ باعزت و بلند گھرانہ میں پرورش پائی،کیونکہ یہ گھر وحی کا مرکز ہے۔ یہ امام موسٰی بن جعفر ؑ کا بیت الشرف ہے جو تقویٰ اور ورع و پرہیزگاری میں عیسیٰ بن مریم کے بیت الشرف کے مشابہ ہے، گویا یہ بیت الشرف عبادت اور اللہ کی اطاعت کے مراکز میں سے تھا، جس طرح یہ بیت الشرف علوم نشرکرنے ا ور اس کو لوگوں کے درمیان شائع کرنے کا مرکزتھا اسی بیت الشرف سے لاکھوں علماء ، فقہاء،اور ادباء نے تربیت پائی ہے۔ اسی بلند و بالا بیت الشرف میں امام رضا ؑ نے پرورش پائی اور اپنے پدر بزرگوار اور خاندان کے آداب سے آراستہ ہوئے، جن کی فضیلت، تقویٰ اور اللہ پر ایمان کے لئے تخلیق کی گئی ہے۔ آپ ؑ کا عرفان اور تقویٰ امام رضا ؑ کے عرفان کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ حق پر پائیدارتھے، اور آپ نے ظلم کے خلاف قیام کیا تھا، اس لئے آپ مامون عباسی کو تقوائے الٰہی کی سفارش فرماتے تھے اور دین سے مناسبت نہ رکھنے والے اس کے افعال کی مذمت فرماتے تھے، جس کی بناء پر مامون آپ کا دشمن ہوگیا اور اس نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا، اگرامام ؑ اس کی روش کی مذمت نہ کرتے جس طرح کہ اس کے اطرافیوں نے اس کے ہرگناہ کی تائید کی تو آ پ کا مقام اس کے نزدیک بہت عظیم ہوتا، اسی بناء پر مامون نے بہت جلد ہی آپ کو زہر دے کر آپ ؑ کی حیات ظاہری کا خاتمہ کردیا۔

اہل بیت (ع) صراط مستقیم ہیں:
قرآن کریم میں صراط مستقیم سے مراد اہل بیت علیہم السلام ہیں۔ امام رضا علیہ السلام نے ایران اور نیشاپور میں داخل ہوتے ہوئے اپنے مختصر خطاب میں ایرانی قوم کو توحید اور ولایت عزت و سربلندی کا تحفہ دیا۔ اس وقت بھی اور ہر دور زمانہ میں آئمہ معصومین علیہم السلام اور امام زادے توحید کے مستحکم قلعے کے محافظ رہے، کیونکہ توحید ہی ہر بافضیلت زندگی کی بنیاد ہے۔ توحید ہر قسم کی بدبختی سے رہائی عطا کرتی ہے اور اگر انسان توحید کو کھو بیٹھے تو تمام چیزوں کو گم کر دے گا۔ اپنی شناخت کے کیلئے توحید ضروری ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے یہ درس دیا کہ توحید تک پہنچنے کی ایک شرط امام کی معرفت ہے۔ باتیں اور دعوے تو سبھی کرتے ہیں، لیکن آئمہ معصومین علیہم السلام کی محبت کو عمل سے ثابت کرنا چاہیئے۔

حرم مطہر کی زیارت اوران کی کرامات:
 دل سے حرم مطہرکی زیارت ہونی چاہیئے، داخل ہوتے وقت اجازت لیں۔ جب آپ حضرت رضا علیہ السلام سے حرم میں داخل ہونے کی اجازت لیتے ہیں تو کہتے ہیں، (أ أدخُلُ یا حجةَ الله) اے اللہ کی حجت کیا میں داخل ہو سکتا/سکتی ہوں؟ اس کے بعد اپنے دل کی طرف رجوع کریں اور دیکھیں کہ کیا اس میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے یا نہیں؟ اگر آپکی حالت میں کوئی تبدیلی ہوئی ہو تو سمجھ جائیں کہ امام علیہ السلام نے آپکو اجازت دے دی ہے۔ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے حرم مطہر میں داخل ہونے کی اجازت ملنے کے نتیجے میں گریہ شروع ہو جاتا ہے،یعنی اگر آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑیں تو سمجھ جاو کہ امام حسین علیہ السلام نے تمہیں داخل ہونے کی اجازت دے دی ہے۔ آپ کی حالت اورکیفیت میں تبدیلی آئی تو حرم میں جاو۔ لیکن اگر تمہارے دل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور آپ دیکھیں کہ آپ کی کیفیت  اچھی نہیں ہے تو بہتر ہےکہ کسی اور مستحب کام کو انجام دیں۔ مثال کے طور پر تین دن روزے رکھیں اور غسل کریں اور اس کے بعد حرم میں جائیں اور پھر امام علیہ السلام سے حرم میں داخل ہونے کی اجازت طلب کریں۔

تمام زیارت ناموں کو تائید حاصل ہے۔ زیارت جامعہ کبیرہ پڑھیں، زیارت امین اللہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن زبان کی بجائے دل سے زیارت پڑھیں۔ ایک شخص امام رضا علیہ السلام کےحرم مطہر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ ایک نورانی سید اس کے سامنے زیارت نامہ پڑھنے میں مشغول ہے۔ اس کے نزدیک ہو کر وہ متوجہ ہوا کہ وہ آئمہ معصومین علیہم السلام کا نام لیتے وقت ہر معصوم پر سلام کرتا ہے، لیکن جب وہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے مبارک نام پر پہنچا تو خاموش ہو گیا۔ وہ شخص متوجہ ہوا کہ وہ سید بزرگوار خود امام زمانہ علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ اس کے علاوہ امام رضا علیہ السلام کےحرم مطہرمیں بہت زیادہ کرامات بھی نقل ہوئی ہیں اور اسی طرح حضرت عیسٰی علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کی زیارت کا واقعہ بھی مرقوم ہے۔(6)
------------------------------------------------
مآخذ:
1۔ شیعہ کتب اور روایت، لولا علیّ لھلک عمر:
كافی، كليني، ج 7، ص 424، تهذيب الاحكام، شيخ طوسي، ج 6، ص 606، ج 10، ص50، من لايحضره الفقيه، شيخ صدوق، ج 4، ص 36،اختصاص، شيخ مفيد، ص 111 و 149، مناقب آل ابي طالب، ابن شهر آشوب، ج 1، ص 311، المسترشد، طبري شيعي، ص 548 و 583، شرح الاخبار، قاضي نعمان، ج 2، ص 319، مدينه المعاجز، علامه بحراني، ج 2، ص 460 و ج 5، ص 71، الشافي في الامامة، سيد مرتضي، ج 1، ص 203، ج 3، ص، 130 منهاج الكرامة، علامه حلي، ص 18، الطرائف، سيد ابن طاووس، ص 255 و 516۔
 اہلسنت کی کتب اور روایت، لولا علیّ لھلک عمر:
تاويل مختلف الحديث، ابن قتيبه، ص 152، مواقف، ايجي، ج 3 ، ص 627 و 636،
شرح مقاصد، تفتازاني، ج 2، ص 294، التفسير الكبير، فخررازي، ج 21، ص 22،
شرح نهج البلاغه، ابن ابي الحديد، ج 1، ص 18و ج 12، ص 179، تمهيد الاوائل، باقلاني، ص 476، مناقب علي ابن ابيطالب، ابن مردويه اصفهاني، ص 88، ينابيع المودة، قندوزي حنفي، ج 1، ص 216 و ج 2، ص 172 و ج 3، ص 147، تاويل مختلف الحديث، ابن قتيبه، ج 1، ص 162، تمهيد الاوائل في تلخيص الدلائل، باقلاني، ج 1، ص 476 و 547، الحاوي الكبير، ماوردي شافعي، ج 12 ، ص 115 و ج 13، ص 213، تفسير سمعاني، ج 5، ص 154، المفصل في صنعه الاعراب، زمخشري، ج 1، ص 432، العواصم من القواصم، ابوبكر بن عربي، ج 1، ص 203، حاشيه الرملي، رملي، ج 4 ص 39، الجد الحثيث، سعودي غزي عامري، ج 1، ص 186،  بريقه محموديه، محمد بن محمد خادمي، ج 2 ص 108،
منع الجليل، محمد عليش، ج 9، ص 648، دستور العلماء، قاضي عبدالنبي نكري، ج 1 ، ص 80۔
مختصر تحفة الاثناء عشریه، آلوسی، ص 8، مطبعة سلفیه، قاهره، سنه، 1387، و رکبت مع السفینه، مروان خلیفات، ابن ابی الحدید، شرح نهج البلاغه، ج 15 ص۔
عیون الاخبار امام رضا(ع)، ج 2، ص101
تحف العقول، ص319
عیون الاخبار امام رضا(ع)، ج2، ص101
ماخذ: برگی از دفتر آفتاب، ص۱۶۲
خبر کا کوڈ : 740485
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش