1
0
Friday 27 Jul 2018 14:57

متحدہ مجلس عمل کی شکست کی وجوہات

متحدہ مجلس عمل کی شکست کی وجوہات
تحریر: تصور حسین شہزاد
 
متحدہ مجلس عمل نے ملک بھر میں اپنے امیدوار انتخابات میں نامزد کئے تھے، تاہم آخری اطلاعات تک متحدہ مجلس عمل نے ملک بھر سے 12 نشستیں جیتی ہیں۔ اَپ سیٹ پوزیشن یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر بات کی جائے لاہور شہر کی تو لاہور میں متحدہ مجلس عمل نے 35 کے قریب قومی و صوبائی نشستوں پر امیدوار نامزد کر رکھے تھے، مگر کوئی ایک بھی کامیاب نہیں ہوسکا بلکہ تمام کے تمام امیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہوگئی ہیں۔ لاہور سے توقع کی جا رہی تھی کہ لیاقت بلوچ اپنی سیٹ نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے، مگر وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔ متحدہ مجلس عمل کی ناکامی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو ایم ایم اے نے لاہور میں جو امیدوار نامزد کئے، ان کی نامزدگی منصورہ میں کی گئی۔ ان امیدواروں کو حتمی شکل دینے میں سب سے زیادہ فعالیت، کردار اور اختیار جماعت اسلامی کے پاس تھا۔ جس کا جماعت کی قیادت نے بھرپُور فائدہ اٹھایا اور سب سے زیادہ 92 فیصد ٹکٹس جماعت اسلامی کے ہی عہدیداروں کو دیئے گئے۔ ’’اب کی بار، ایمان دار‘‘ کا نعرہ لے کر آنیوالی متحدہ مجلس عمل لاہور میں کوئی کردار نہ دکھا سکی۔

اس سے قبل ضمنی الیکشن میں جماعت اسلامی کے اُمیدوار کی بھی ضمانت ضبط ہوچکی تھی، جس پر ضمنی الیکشن کی شکست کا ذمہ دار جماعت اسلامی لاہور کے امیر ذکراللہ مجاہد کو قرار دیا گیا۔ ان پر جماعتی حلقوں میں تنقید بھی ہوئی، جس سے دلبراشتہ ہو کر ذکر اللہ مجاہد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیدیا، تاہم امیر جماعت سراج الحق نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا اور انہیں کام جاری رکھنے کی ہدایت کی تھی۔ یہاں ایک لطیفہ صادق آتا ہے کہ ایک کسان کی بھینس بیمار ہوگئی، وہ ساتھی کسان کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا کہ میری بھینس بیمار ہے، جب آپ کی بھینس بیمار ہوگئی تھی تو آپ نے کیا کیا تھا، کسان نے ایک دوائی پکڑاتے ہوئے کہا، میں نے تو یہ دوائی کھلائی تھی، کسان نے دوائی پکڑی اور جا کر اپنی بھینس کو کھلا دی، کچھ ہی دیر میں بھینس مر گئی، کسان روتا پیٹتا پہلے کسان کے پاس آیا اور بولا وہ دوائی کھانے سے تو میری بھینس مر گئی ہے، پہلے کسان نے اطمینان سے جواب دیا، ’’میری بھینس بھی مر گئی تھی۔‘‘ ضمنی الیکشن میں جماعت کا یہ تجربہ بری طرح ناکام رہا، اب متحدہ مجلس عمل نے دوبارہ انہیں رہنماؤں کو امیدوار فائنل کرنے کا ٹاسک دیدیا، جن کی حکمت عملی پہلے بری طرح ناکام ہوچکی تھی۔

متحدہ مجلس عمل نے جماعت کے اُن ’’کسانوں‘‘ سے دوائی لی، جن کی اپنی ’’بھینس‘‘  ضمنی الیکشن میں مر چکی تھی۔ اس کے علاوہ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں نے بھی ’’وفا‘‘ نہیں کی۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے پروفیسر ساجد میر نے مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق کو اپنی حمایت کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ہماری جماعت کی مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نون کی حمایت کرے گی، اس لئے ہم مسلم لیگ (ن) کو ہی ووٹ دیں گے۔ یوں متحدہ مجلس عمل کی ایک جماعت نے ’’راستہ‘‘ جدا کر لیا۔ مرکزی جمعیت اہلحدیث کے بعد خواجہ سعد رفیق نے اگلا شکار جمیعت علمائے پاکستان کو کیا۔ خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں شاہ اویس نورانی سے ملاقات کی اور ان کو بھی ساجد میر کی طرح تعاون کرنے پر راضی کر لیا۔ شاہ اویس نورانی اور خواجہ سعد رفیق نے باقاعدہ مشترکہ پریس کانفرنس کی اور شاہ اویس نورانی نے خواجہ سعد رفیق کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ یوں متحدہ مجلس عمل میں پیچھے صرف 3 جماعتیں رہ گئیں، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) اور اسلامی تحریک۔ اسلامی تحریک جب تحریک جعفریہ تھی تو اس کا ووٹ بینک انتہائی موثر تھا اور کسی بھی جماعت کی فتح اور شکست میں کردار ادا کر سکتا تھا۔ علامہ ساجد علی نقوی نے ایک بار پیپلز پارٹی اور ایک بار مسلم لیگ (ن) کو اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے میں موثر کردار ادا کیا تھا۔

تحریک جعفریہ اندرونی اختلافات کے باعث ڈھڑے بندی کا شکار ہوگئی، جس سے مجلس وحدت مسلمین اور اسلامی تحریک نے جنم لیا۔ اسلامی تحریک کی باگ ڈور علامہ ساجد نقوی کے ہاتھ میں ہے جبکہ ایم ڈبلیو ایم (مجلس وحدت مسلمین) کی قیادت علامہ راجہ ناصر عباس کر رہے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم نے اس الیکشن میں تحریک انصاف کا ساتھ دیا ہے، جبکہ اسلامی تحریک نے کسی بڑی سیاسی جماعت کا ساتھ دینے کے بجائے متحدہ مجلس عمل کے امیدواروں کو سپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ظاہر ہے اسلامی تحریک ایم ایم اے کی اتحادی ہے، تو یہ حمایت کرنا اخلاقی طور پر لازم تھا، لیکن اسلامی تحریک کے بھی کچھ رہنماؤں نے ایم ایم اے کو ووٹ نہیں دیا۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں خواجہ احمد حسان اور حافظ نعمان نے ماڈل ٹاؤن میں جامعہ المنتظر کا دورہ کیا۔ جامعہ میں دونوں رہنماؤں کا شاندار استقبال کیا گیا۔ گل پاشی کی گئی۔ جامعہ میں مولانا افضل حیدری اور مولانا باقر گھلو سے لیگی رہنماؤں کی ملاقات ہوئی۔ مولانا باقر گھلو نے لیگی امیدواروں کو یقین دلایا کہ ہم تو پہلے ہی مسلم لیگ کو سپورٹ کرتے آئے ہیں اور آئندہ بھی مسلم لیگ کو ہی ووٹ دیں گے جبکہ یہ دونوں لیگی رہنما شادمان میں امام بارگاہ قصر بتول بھی گئے، جہاں شیعہ عمائدین سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں بھی امام بارگاہ قصر بتول کی انتظامیہ نے شادمان کی تمام شیعہ کمیونٹی کی حمایت کا یقین دلا دیا۔

یہ دونوں مراکز (جامعہ المنتظر اور امام بارگاہ قصر بتول) اسلامی تحریک کا ووٹ بینک تھا جو تقسیم ہوگیا۔ غیر مصدقہ اطلاعات یہ ہیں کہ جے یو آئی (ف) نے بھی مسلم لیگ (ن) کو ہی ووٹ دیئے ہیں، تاہم اس کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ اب صرف جماعت اسلامی میدان میں رہ گئی تھی، جس نے اپنے ہی نامزد کردہ امیدواروں کو ووٹ دیئے مگر کوئی بھی کامیاب نہ ہوسکا۔ متحدہ مجلس عمل میں شامل جماعتوں کو لاہور میں یہ بھی تحفظات تھے کہ جماعت اسلامی نے سارے ٹکٹس اپنے امیدواروں میں بانٹ دیئے ہیں جبکہ دیگر اتحادیوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ بالخصوص اسلامی تحریک کے کسی بھی امیدوار کو ٹکٹ نہیں دیا گیا حالانکہ حافظ کاظم رضا اور ذوالفقار نقوی بہترین امیدوار ثابت ہوسکتے تھے۔ اسی طرح جامعہ المنتظر سے کسی عالم دین کو ٹکٹ دے دیا جاتا تو بھی حوصلہ افزاء صورتحال پیدا ہوسکتی تھی۔ جے یو پی کو بھی ایک ٹکٹ دیا گیا جبکہ مرکزی جمعیت اہلحدیث کو 2 سے 3 ٹکٹس ملے۔ ٹکٹوں کی تقسیم میں ہی ناانصافی ایم ایم اے کی شکست کی وجہ بنی ہے، جبکہ اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے رکن جماعتوں نے اعتراض نہیں کیا۔

نتیجہ یہ نکلا کہ ایم ایم اے لاہور میں ضمانتیں ضبط کروا بیٹھی۔ ایم ایم اے کی قیادت اگر ملک کی سیاست میں کوئی کردار ادا کرنا چاہتی ہے تو اسے اتحاد میں مزید دیگر جماعتوں کو بھی شامل کرنا ہوگا اور اتحاد میں شامل جماعتوں کو ٹکٹس کی تقسیم بھی منصفانہ کی جانی چاہیے۔ جس طرح ابھی ہوا ہے کہ متحدہ مجلس عمل پر جماعت اسلامی کا ہی ’’قبضہ‘‘ دکھائی دے رہا تھا، یہ صورتحال نہیں ہونی چاہیئے، بلکہ تمام رکن جماعتوں کو برابری کی بنیاد پر دیکھا جانا چاہیئے۔ جو جماعت اپنے اندر انصاف کو فروغ نہیں دے سکتی، آج کا ووٹر سمجھدار ہے کہ وہ جماعت ملک میں انصاف کا نظام کیسے قائم کرے گی۔ بہرحال نیا پاکستان بن چکا ہے، نئے پاکستان میں مذہبی قوتوں کیلئے وقت تھوڑا کڑا ہونے کا امکان ہے، تاہم عمران خان کے پہلے خطاب سے ثابت ہو رہا ہے کہ وہ ایک معتدل حکومت بنائیں گے، جس میں سب کو برابر حقوق حاصل ہوں گے۔ اس میں کسی کی اجارہ داری نہیں چلے گی تو تمام طبقوں کیلئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی ہی اپنائیں، کیونکہ نئے پاکستان کا یہی تقاضا ہے۔
خبر کا کوڈ : 740522
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

محب علی
Pakistan
برا مت منانا:
ویسے ہی وقت، دماغ اور توانائی ضائع کی ہے۔
ایک جملہ ہی لکھ دیتے۔۔۔۔۔
عوام باشعور ہوگئے ہیں، اب خائن لوگ انہیں بے وقوف بنانے میں اس مرتبہ کامیاب نہیں ہوسکے۔
ہماری پیشکش