0
Saturday 28 Jul 2018 12:28

اسلام اور جہاد۔۔۔!

اسلام اور جہاد۔۔۔!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com

دشمنوں کی شاطرانہ چال میں آکر بعض کم فہم مسلمان بھی ان کے شانہ سے شانہ ملا کر اسلام پر کاری ضرب لگا رہے ہیں اور خود رسوائے زمانہ ہوئے جا رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھاکہ مسلمان اپنے کردار کی بناء پر فخر سے سر اونچا کر کے چلتا، لیکن آج امت مسلمہ کف افسوس مل رہی ہے۔ آج نام نہاد مسلمان جہاد کے نام پر دنیا کے گوشہ و کنار میں بیگناہ انسانوں کا قتل عام کر رہے ہیں۔ اسی باعث غیر مسلمین نے یہ کہنا شروع  کر دیا ہے کہ اسلام نے جہاد کو قانونی حیثیت دے کر مسلمانوں کو جارحیت کی کھلی آزادی دے رکھی ہے۔ لہٰذا، وہ طاقت کے بل بوتے پر ہر ایک کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر رہے ہیں جبکہ یہ بات حقیقت سے کوسوں دور ہے اور اس کا حقانیت سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اگر ہم اپنے مذہب کے قوانین اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت پر ایک طائرانہ ہی نگاہ ڈالیں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے گی کہ کہیں بھی جارحیت کی طرفداری نہیں پائی جاتی۔ اللہ تبارک و تعالٰی کا کھلا اعلان ہے۔ "من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا۔" جو شخص کسی نفس کو کسی نفس کے بدلے یا روئے زمین میں فساد کی سزا کے علاوہ قتل کر ڈالے گا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا ۔(سورہ مائدہ 32)۔

آپ پوری تاریخ اسلام کا بغور مطالعہ کر لیں مگر انبیاء، آئمہ علیہم السلام اور علماء کے کردار سے قتل و غارت گری کی بو تک نہیں پائی جاتی۔ سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی حیات طیبہ کا حرف بحرف اور بار بار مطالعہ فرما لیں، انہوں نے "بہ ہیچ وجہ" کسی بھی کافر و مشرک پر حملہ کرنے کا حکم نافذ نہیں کیا مگر آغاز مدمقابل سے ہو۔ تاریخ اسلام نے اس بات کو بڑے ہی جلی حروف میں لکھا ہے کہ ایک مرد شامی امام حسن علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور کچھ دیر تلک آپ کی شان میں گستاخیاں کرتا رہا  اور جب اس کے ناشائستہ الفاظ، جملات اور ترکیبات کی لغت میں کچھ بھی کہنے کو باقی نہ رہا تب وہ خاموش ہوگیا۔ امام حسن علیہ السلام نے مسکرا کر فرمایا، ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اجنبی ہو! اگر کپڑا، مکان اور خورد و نوش یا کسی کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ جب اس نے امام علیہ السلام کا یہ اخلاق دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور منھ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ جب اس کے حواس یکجا ہوئے تو زبان کھولی اور امام کی تعریف کے سوا کچھ ادا نہ ہوا۔

ہادیان برحق کی زندگی میں جتنی بھی جنگیں آئیں۔ اگر آپ ان سب پر صرف ایک سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ انہوں نے ہمیشہ اپنا اور اپنے مقدسات کا دفاع ہی کیا ہے! اگر دشمن جنگ کرنے پر مصر ہے تو ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے جان و مال اور عزت و آبرو کے دفاع میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں۔ مذکورہ نظریہ کی تائید دنیا کا ہر صاحب و فکر و نظر کرتا رہے گا۔ چاہے وہ جس قوم و قبیلہ سے تعلق  رکھتا ہو۔ کیوں کہ حق کا دفاع بہرحال ضروری ہے۔ اسی باعث دنیا کا ہر ملک اپنی خاص دفاعی فوج اور کچھ اہم افراد رکھتا ہے جس کے ذریعہ وہ اپنے ملک کا دفاع کرتا ہے۔ وگرنہ ہر کس و ناکس فرعون زمانہ ہوتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ زمین لاشوں سے پٹ جاتی اور جنازے زیادہ اور زندہ آدمی کم ہوتے! دین اسلام کسی بھی مخلوق کو اذیت پہنچانے سے منع کرتا ہے چہ برسد کہ خون بہانے کی اجازت دیدے۔۔۔! لیکن اگر ظلم کا چلن ہو ہی جائے تو "ردو الحجر من حیث جاء" تو جہاں سے پتھر آئے اسی کی جانب لوٹا دو۔
خبر کا کوڈ : 740714
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش