0
Monday 30 Jul 2018 00:30
آغا سید علی الموسوی۔۔

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لیکر

اب انہیں ڈھونڈ چراغِ رخ ِزیبا لیکر
تحریر: ارشاد حسین ناصر
 
ہمارے ملک میں یوں تو کئی ایک بزرگان و علماء نے معاشرہ سازی، دینی اقدار کی ترویج، اجتماعی امور کی انجام دہی اور ملت کے نوجوانوں کو ساتھ لے کر اجتماعی و قومی و سیاسی حقوق کی بازیابی کیلئے جدوجہد کی ہے، مگر نوجوانوں میں جن شخصیات نے اپنے گہرے نقوش مرتب کئے، ان میں قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی، علامہ آغا سید علی الموسوی اور کراچی میں آغا سید جعفر نقوی سرفہرست کہے جاسکتے ہیں۔ قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی اگرچہ صرف ساڑھے چار سالہ دور قیادت کے آغاز سے افق پاکستان پر نمودار رہے، مگر مجموعی طور پر ان کی شخصیت کے اثرات آج ان کے 30ویں برسی پر بھی نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ کتنا عجب ہے کہ شہید قائد کی شخصیت آج ان نوجوانوں کیلئے بھی رول ماڈل کے طور پر سامنے ہے، جنہوں نے انہیں دیکھا ہے اور نہ سنا ہے۔ آغا سید علی الموسوی جو چھ سال قبل 30 جولائی 2012ء کو ہمیں داغ مفارقت دے گئے، ان کی ملی و دینی خدمات، معاشرہ سازی کیلئے طویل جدوجہد، رسومات و بدعات کے مقابل سینہ سپر ہوکر خود کو میدان میں حاضر رکھنا، اجتماعی قومی امور میں بڑھ چڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا، ملت کے نوجوانوں سے شفقت ، محبت اور انسیت کا ایسا اظہار کرنا جس سے نوجوانوں کے دل جیت لئے جائیں، کسی بھی طور فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
 
احادیث میں آیا ہے کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں، امام المتقین حضرت علی ابن ابی طالب نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں کہ "علماء سے خدا نے یہ عہد لیا ہے کہ ظالمین کی پرُ خوری، ظلم پر اور مستضعفین کی گرسنگی، بے بسی اور مظلومیت پر خاموش نہیں بیٹھیں گے۔" ایک اور حدیث میں یہ ملتا ہے کہ جب معاشرہ میں بدعتیں پھوٹ پڑیں تو عالم کو چاہیے کہ اپنا علم ظاہر کرے، اگر ایسا نہ کرے تو اس پر لعنت ہے۔" علم ظاہر کرنے کا مطلب یقیناً اس برائی و بدی اور ظلم پر بولنا ہے، معاشرہ کو تاریکی سے نکال کر روشن راستے کی راہنمائی کرنا ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ معاشرہ روز بروز برائیوں کی دلدل میں دھنسا چلا جائے اور علماء چپ کا روزہ رکھ لیں۔ کسی بھی بہانہ اور وجہ سے معاشرہ میں پھیلتی برائیوں پر چپ سادھے رکھیں، اگر ایسا ہوگا تو بذات خود یہ معاشرہ کی بدقسمتی اور اپنے ساتھ بھی ظلم ہوگا چونکہ اس کی بڑی سخت سرزنش کی گئی ہے۔
 
لاہور کی قوم خواجگان میں ان کی خدمات بہت زیادہ ہیں، ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع بلکہ ان گنت ہے، لاہور کے قدیمی علاقے موچی دروازہ کی تنگ گلیوں میں انہوں نے اتنا وسیع کام کیا ہے کہ اسکے نقوش مٹائے نہیں مٹتے۔ انہوں نے اپنی زندگی لاہور میں گذاری مگر ان کے چاہنے والے اور ان سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کا تعلق پاکستان کے گوش و کنار سے ہے، مجموعی طور پہ آغا جی کی خدمات کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، بلتستان سے لے کر لاہور تک اور لاہور کے دل موچی دروازہ سے لے کر پاکستان کے گوش و کنار میں وہ اجتماعی امور کی انجام دہی اور نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کیلئے سرگرداں رہے، ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کو نمایاں کرنے اور خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ایک خوبصورت کتاب سفیر ولایت کے نام سے شائع ہوئی، جس میں بلتستان کے بہت سے شعراء نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے، یہ کتاب نثر اور منظوم شکل میں ہے، جبکہ اس میں بہت قیمتی تصاویر کی گیلری بھی موجود ہے۔ اس کتاب سے استفادہ کرتے ہوئے ذیل میں کچھ پیش کیا جا رہا ہے، امید ہے کہ اس سے آپ کی دلچسپی بڑھے گی اور آپ اس عظیم شخصیت کے متعلق تفصیلی پڑھنے کیلئے کتاب سے رجوع کریں گے۔
 
بلتستان کی معروف سیاسی و سماجی شخصیت جناب فدا محمد ناشاد نے ایک قطعہ میں یوں اظہار عقیدت کیا ہے:
عالم تھا  وہ  کمال کا، بے مثل فرد تھا
آقا علی کے دل میں جہاں بھر کا درد تھا
محفل کا مہتاب، خطابت کا آفتاب
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
 آغا علی الموسوی نے نوجوانوں کو ہمیشہ ولایت کی لڑی میں پرونے اور علماء کی سرپرستی میں تنظیمی و اجتماعی امور انجام دینے کی بات کی، جس طرح قائد شہید ولایت فقیہہ کے سچے و پکے پیروکار اور مبلغ تھے، ایسے ہی آغا سید علی الموسوی نے بھی اپنی تمام زندگی ولایت کے سائے میں گذاری اور ہم نے کبھی بھی نہیں سنا کہ وہ انقلاب اسلامی ایران اور رہبر انقلاب یا ان سے مربوط اداروں و شخصیات کے مقابل آئے ہوں یا ان کے گلے و شکوے کئے ہوں۔ وہ نظریہ ولایت پر پختہ اور سختی سے کاربند دکھائی دیئے۔ کسی شخصیت کی پہچان اگر اس کے نظریات کو پرکھ کے ہوتی ہے تو آغا علی الموسوی کے نظریات سب پر واضح تھے، وہ پیروولایت تھے اور ہمیشہ نظریہ ولایت فقیہ کے مدافع کے طور پر سامنے رہتے تھے۔ وہ ایسی شخصیت تھے جن سے نوجوان قربت محسوس کرتے تھے، ہنسی و مزاح میں بھی نوجوانوں کو پیغام دینے کا ہنر وہ خوب جانتے تھے۔

نوجوانوں سے ہمیشہ ان کی یہ توقع ہوتی تھی کہ وہ علماء کی سرپرستی میں کام کو آگے بڑھائیں، علماء کے بغیر نوجوان کچھ نہیں اور نوجوانوں کے بغیر کوئی ملت فلاح نہیں پاسکتی۔ ان کا یہ اعزاز کیا کم ہے کہ وہ ملت کی روح آئی ایس او پاکستان سے آغاز سے منسلک تھے اور آخر وقت تک اس کی سرپرستی فرماتے رہے۔ میرا نہیں خیال کہ آغا علی الموسوی کے اس تعلق پر حالات یا وقت کی گرد نے مٹی ڈال کر دھندلایا ہو، ہرگز نہیں یہ تعلق اور رشتہ ہمیشہ سے نمایاں اور آشکار رہا، اپنی زندگی کے بالکل آخری ایام میں جب وہ وصیتیں کر رہے تھے تو بھی انہیں آئی ایس او فراموش نہیں ہوتی، اپنی اولاد کو اس حوالے سے واضح گائیڈ لائن بھی دی۔ جو احباب ان کے قریب رہے، انہیں یاد ہوگا کہ وہ آئی ایس او کے نام کا استخارہ نکالنے والی بات کو کس قدر لطف لے کر بیان کرتے تھے، اب علماء کی صف میں ایسا کوئی نہ ملے شائد۔۔۔!
 
بلتستان کے معروف شاعر جناب محترم میر اسلم حسین سحر، جن کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، انہوں نے آغا کی رحلت پر اپنے عقیدت بھرے جذبات کا اظہار کیا، ملاحظہ فرمائیں:
 تو نہیں تیری خطابت کا سحر زندہ  ہے
گرچہ دنیا میں نہیں دل میں مگر زندہ ہے
موسوی تو نے لگایا جو محبت کا شجر
آج تک دیکھ وہ شاداب شجر زندہ  ہے
تو اندھیروں کا مخالف تھا اجالوں کا ندیم 
یہ حقیقت ہے تیری فکرِ سحر زندہ ہے
قائد شہید ایک جگہ علماء سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ "علماء بھی روحانی طبیب ہیں، یہ لوگوں کے معنوی امراض کا علاج کرتے ہیں تو لوگ اس وقت ان کا احترام کریں گے، جب وہ لوگوں کے دردوں کی دوا کریں گے، لیکن اگر انہوں نے اپنے وظیفے پر عمل نہیں کیا تو وہ اپنا احترام کھو دیں گے۔" آغا علی الموسوی قائد شہید کی اس بات پر مکمل طور پر پورا اترتے تھے، وہ واقعاً ایک طبیب دل تھے، وہ روح کے معالج تھے، وہ بھٹکے ہووں کو راستہ دکھانے والے مسیحا تھے۔ انہوں نے ہزاروں لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دی اور لوگ ان کی دعوت پر دین کے دائرہ میں آکر زندگی و آخرت سنوار گئے، اس کی گواہی موچی دروازہ کی مسجد ہے، جس میں کسی زمانہ میں چند لوگ نماز پڑھتے تھے اور اب ماشاءاللہ ایک بڑی تعداد اس خوبصورت مسجد میں نمازیں ادا کرتی ہے۔
 
جناب حاجی غلام مہدی مظہر نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں، ذرا ملاحظہ فرمائیں:
ہوگئے جونہی جدا آغا علی
دہر میں غم کی گھٹا بھی چھا گئی
ہو گئی پژ مردہ گلشن کی کلی
بن گیا تاریخ میں حرف علی
اور ان کی تعلیمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا۔۔
تھی بڑی الفت تجھے تعلیم سے
قوم کو یکجا کیا تنظیم سے
پیش آیا حلم سے، تکریم سے
باز رکھا قوم کو تقسیم سے
موچی دروازہ کی چھوٹی سی مسجد، تنگ و تاریک گلیاں اور اندرون شہر کا ماتمی و مجلسی ماحول کہاں اور نجف و قم سے کسب فیض حاصل کرنے والا، بلتستان کے سرسبز و شاداب کھلے قدرتی ماحول کا پروردہ آغا علی الموسوی کہاں، بہ ظاہر کیا مطابقت ہے، یہ کون سا جذبہ و احساس تھا، جس نے انہیں برس ہا برس موچی دروازہ سے نکلنے نہیں دیا۔؟

ہم نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اپنی شخصیت بنانے کیلئے اپنے سے منصوب بڑے بڑے ادارے لازمی تصور کئے کرتے ہیں اور یہ بھی دیکھا ہے کہ لوگ قم و نجف سے آکر کسی مسجد کا خطیب بننا توہین محسوس کرتے ہیں، جیسے اس طرح ان کی شخصیت محدود ہو جائے گی۔ مگر آغا علی الموسوی 1952ء سے لے کر 2012ء تک تسلسل سے ایک ہی مورچہ میں برسرپیکار دکھائی دیئے۔ انہوں نے موچی دروازہ کی مسجد کو مورچہ بنایا اور اس کو مضبوط کرنے کے بعد اس کے ذریعے معاشرے کو صحیح راہ پر چلانے اور قائم رکھنے کیلئے سرگرم عمل ہوگئے۔ موچی دروازہ میں دو موثر برادریوں خواجگان اور کشمیریوں میں محبت و اخوت اور حکمت و دین کے پھول برساتے رہے۔ موچی دروازہ کی مسند انہوں نے اپنے باپ آغا سید حسن الموسوی سے وراثت میں پائی تھی اور آج ان کی چوتھی نسل یہاں خدمات سرانجام دے رہی ہے۔
 
میرا خیال ہے کہ جب بھی آئی ایس او پاکستان کی کوئی محفل سجے گی تو اپنے اس مربی و محسن آغا علی الموسوی کی یاد ضرور آئے گی اور جب سالانہ مرکزی کنونشن کی آخری نشست ہوگی اور نئے مرکزی صدر کا اعلان و حلف لیا جائے گا تو آغا کی یاد اور ستائے گی، ان کا انداز اور اعلان یقیناً بہت منفرد ہوتا تھا، وہ نوجوانوں کی بیقراری کا لطف لیتے اور اعلان کرتے، ان کی شاعری بھی اسی موقعہ پر سامنے آتی تھی۔ اسی طرح رمضان المبارک جسے وہ بے حد عزیز رکھتے تھے اور اسی رمضان المبارک میں ان کی رحلت بھی ہوئی۔ رمضان المبارک کی مبارک و بابرکت ساعتوں بالخصوص شب ضربت و شب شہادت امیر المومنین اور شب قدر 23ویں کی شب کو موچی دروازہ کی مسجد کشمیریاں میں ان کا دلپذیر، دلکش اور قلوب کو مسخر و منقلب کر دینے والا انداز ہمیشہ یاد آتا ہے۔ ان کی اس کمی کو یہاں کے نمازی یقیناً محسوس کرتے ہیں اور ہم جیسے بھی ان کو یاد کرکے ان کیلئے دستِ دعا بھی بلند کرتے ہیں۔
 
بلتستان میں ان کی خدمات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے، اگرچہ یہ علماء کی سرزمین ہے اور یہاں ہزاروں کی تعداد میں علماء موجود ہیں اور گزر چکے ہیں، مگر آغا علی الموسوی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ یہ بات بھی ہمارے علم میں آئی ہے کہ 1971ء میں پاک بھارت جنگ میں  بلتستان کی سطح پر عوام کے ساتھ مل کر افواج پاکستان کی بھرپور کمک کرنے کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا، جو وہ لینے کیلئے نہیں گئے تھے، مگر ان کے گھر پہنچا دیا گیا تھا۔ 30 جولائی 2012ء کی دم فجر علم و عمل کے بحرِ بیکراں، ارض شمال کے فرزند اور لاہور کے اہل تشیع کے دلوں کی دھڑکن، نامور دینی شخصیت ہم سب کے مونس و غم خوار بالخصوص امامیہ نوجوانوں کے مستقل سرپرست آغا سید علی الموسوی لاہور موچی دروازہ میں اس جہانِ فانی سے ابدی مقام کی طرف روانہ ہوگئے۔

آغا علی الموسوی کی ہمہ جہت شخصیت کسی سے پوشیدہ نہیں، وہ بے انتہا خوبیوں کے مالک اور ان گنت ملی و قومی خدمات کی طویل تاریخ کی حامل شخصیت تھے۔ ان کی رحلت سے یقیناً ملت تشیع پاکستان ایک فعال، مخلص، باتقویٰ سرپرست شخصیت سے محروم ہوگئی، آغا علی الموسوی کا سانحۂ ارتحال فقط ایک بزرگ عالم دین، بلند پایہ خطیب، ہر دلعزیز رہنما، فعال تنظیمی و متحرک قومی شخصیت کا نقصان ہی نہیں بلکہ ان کی رحلت مکتب تشیع پاکستان کی ایک تاریخ، انقلاب اسلامی ایران اور نظام ولایت فقیہہ کے پاکستان میں بڑے پرچارک، مفتی جعفر حسین قبلہ، علامہ سید عارف حسین الحسینی کی سپریم کونسل کے ممبر اور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے رفیق خاص و معاون و سرپرست کی رحلت تھی، ایک داعی اتحاد کی رحلت جنہوں نے اپنی شیریں بیانی سے اہلسنت بھائیوں کو بھی اپنے قریب رکھا، وہ اپنے ساتھ ایک تاریخ لے کر گئے ہیں اور ایک روشن تاریخ چھوڑ کر گئے ہیں،ہمیں ان کی چھوڑی ہوئی تاریخ کو آگے بڑھانا ہے، ہمیں ان کے مقاصد کی تکمیل کرنا ہے، ہمیں ان کے لگائے ہوئے کئی ایک نوخیز پودوں کو تناور درختوں میں بدلنا ہے، تاکہ مستقبل میں قوم و ملت ان سے سائبان کا کام لیتی نظر آئے۔
 
مبلغ فکر خمینی کے عنوان سے جناب بشارت حسین ساقی کیا کہہ رہے ہیں ذرا غور فرمائیں:
کیوں نہ ہونگی اپنی آنکھیں ان کے غم میں اشک بار
جن کے جانے پر ہوئے محراب و منبر سوگوار
مجلسوں کی جان تھے وہ، محفلوں کی شان تھے
یاد آئیں گے ہمیں آغا علی اب بار بار
تھے حسینی راستے کے  وہ مسافر دوستو
تھے خمینی فکر کے پختہ مبلغ آشکار
جناب عاشق حسین عاشق نے مدرس جرات و عمل کے عنوان سے اپنے خیالات کا اظہار کیا کہتے ہیں:
اک زمانے کو شعور و آگہی دے کر گئے
جانے والے زندگی کو زندگی دے کر گئے
زندگی کو روز و شب درس عمل میں ڈھال کر
نسل نو کو ایک اصو ل بندگی دے کر گئے
احادیث میں عالِم کی موت کو عالَم کی موت کہا گیا ہے، آغا علی الموسوی کی موت واقعی ایک زمانہ کی موت ہے۔ وہ ہر ایک پر اپنا اثر چھوڑ کر گئے ہیں، خداوند کریم و مہربان سے دعا ہے کہ ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ہمیں ان کے منصوبوں اور مقاصد کو تکمیل تک پہنچانے کی پرخلوص کوششوں اور جدوجہد کی ہمت و توفیق عنایت فرمائے۔(آمین)
خبر کا کوڈ : 741121
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش