QR CodeQR Code

سوشل میڈیا کے منفی اثرات اور کتاب دوستی

4 Aug 2018 18:19

رہبر معظم سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں ’’عظیم لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ دو منٹ تک بغیر ہوا، دو ہفتوں تک بغیر پانی اور بغیر سرمائے کے زندگی کا بہت بڑا حصّہ گزار سکتے ہیں لیکن ایک لمحہ بھی کتاب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘ ایک زمانہ تھا کہ جب کتاب خوانی سے روحانی مسرت و بصیرت حاصل ہوا کرتی تھی۔ تربیت و تہذیب کو پروان چڑھانے کیلئے کتابوں کا اہم رول ہوا کرتا تھا۔ اقدار کو سربلندی تک لیجانے کیلئے کتاب بہترین ذریعہ تصور ہوتی تھی۔ علمی و ادبی زبان سیکھنے کا بہتر اور واحد ذریعہ کتاب ہوا کرتی تھی۔ کتابیں بے ضرر و خاموش لیکن نصیحتوں کے پہاڑ ثابت ہوتی تھیں۔


رپورٹ: جے اے رضوی
 
اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کی صدی ہے۔ آئے دن عقل کو خیرہ کر دینے والی نئی نئی چیزوں نے آج کے انسان کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کو ایک عالمی گاؤں میں بدل دیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی آمد سے جہاں عہد ماضی کے مقابلے میں کئی مشکلیں آسان ہوگئی ہیں تو وہیں کئی ایسے تشویشناک مسائل پیدا ہوچکے ہیں، جن کا کوئی معقول حل نظر نہیں آتا۔ موبائل فون کا سب سے منفی استعمال نوجوان کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سماج میں جرائم کا گراف بڑھ رہا ہے۔ ہمارے پاس اللہ کی دی ہوئی عظیم نعمت ’’وقت‘‘ ہے، اس وقت کو ہمیں اللہ کی معرفت اور اس کی عبادت میں صرف کرنا تھا، لیکن ہمارا سارا وقت فیس بک نگل جاتا ہے۔ سوشل میڈیا سائٹس نے ہر عمر، ہر طبقے اور ہر معیار کے افراد کو گھر بیٹھے مفتی بنا رکھا ہے، جو یہاں سے فتوے صادر کرتے ہیں۔ ان بے لگام مفتیوں کی کہیں پر کوئی جواب طلبی بھی نہیں ہوتی۔

نوجوانوں اور عمر رسیدہ افراد کے علاوہ بچوں پر سوشل میڈیا اور موبائل فون کے خطرناک اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہمیں مختف مراتب و مراحل میں مختلف کاوشوں و پروگراموں کو بروئے کار لاکر اپنے بچوں کو سوشل میڈیا وغیرہ سے دور رکھنا ہوگا۔ ہمیں اپنے بچوں کو مختلف کارآمد امور کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ ہمیں خود کتابوں سے دوستی کرنی چاہئیے، تاکہ ہمارے بچے بھی کتابوں کی جانب مائل ہوسکیں۔ ایمانی ضعف اور خوفِ آخرت نہ ہونے کی وجہ سے بھاری تعداد بلالحاظ مرد و زن انٹرنیٹ پر ایسی سائٹوں پر جاتے ہیں، جہاں جانے سے دین اسلام نے ہمیں روک رکھا ہے۔ جب موبائل فون اور انٹرنیٹ ایجاد نہیں ہوا تھا تو لوگ بڑے شوق و ذوق سے علمی و ادبی کتابیں پڑھتے تھے اور ہاتھ سے کتابیں لکھتے تھے بلکہ کتابیں پڑھنے میں بہت زیادہ وقت صرف ہوا کرتا تھا۔ عظیم لوگ کتابوں کے بنا زندہ رہنا زندگی نہیں سمجھتے تھے۔ علم و ادب سے جنون کی حد تک لگاؤ رکھنے والے لوگ ملبوسات کم خریدتے تھے اور کتابیں زیادہ۔

اس حوالے سے رہبر معظم سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں ’’عظیم لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ دو منٹ تک بغیر ہوا، دو ہفتوں تک بغیر پانی اور بغیر سرمائے کے زندگی کا بہت بڑا حصّہ گزار سکتے ہیں، لیکن ایک لمحہ بھی کتاب کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے۔‘‘ ایک زمانہ تھا کہ جب کتاب خوانی  سے روحانی مسرت و بصیرت حاصل ہوا کرتی تھی۔ تربیت و تہذیب کو پروان چڑھانے کے لئے کتابوں کا اہم رول ہوا کرتا تھا۔ اقدار کو سربلندی تک لے جانے کے لئے کتاب بہترین ذریعہ تصور ہوتی تھی۔ علمی و ادبی زبان سیکھنے کا بہتر اور واحد ذریعہ کتاب ہوا کرتی تھی۔ کتابیں بے ضرر و خاموش لیکن نصیحتوں کے پہاڑ ثابت ہوتی تھیں۔ سچ سنیے تو کتابیں انسان کی بہترین ساتھی ہوا کرتی تھیں۔ کتابوں سے دوستی ایک ایماندارانہ اور عالمانہ عمل مانا جاتا تھا۔ سنجیدہ، باذوق اور با ادب افراد کتاب کی عظمت، اہمیت و افادیت کو بہتر جانتے تھے، لیکن موبائل فون نے ہم کو مکتوب نگاری سے دور کر دیا اور انٹرنیٹ نے ہم سے کتاب چھین لی ہے۔

کتابیں اب بھی لکھی جا رہی ہیں اور لکھی جاتی رہیں گی، لیکن انہیں پڑھنے والوں کی تعداد دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ وہ لوگ جو کسی زمانے میں کتاب خوانی کے بغیر مضطرب رہا کرتے تھے، اب وہ بھی کتاب کے بدلے گھنٹوں سوشل میڈیا سائٹس پہ لگے رہتے ہیں۔ آج کتابیں بند الماریوں میں دیمک کی خوراک بن رہی ہیں۔ کتابیں چیخ چیخ کر پکار رہی ہیں کہ  ’’از من مباش غافل، من یارِ مھربانم‘‘۔ کتابیں ترس رہی ہیں کہ انہیں کوئی پڑھنے  والا ملے، مگر فیس بُک جیسی سوتن نے کتاب سے اس کا قاری چھین لیا ہے۔ بچے جوان، بوڑھے مرد و خواتین تقریباً سبھی فیس بُک وغیرہ کے قیدی ہوکر رہ گئے ہیں۔ ماننا پڑے گا کہ فیس بُک بینی کسی بھی بڑے اور بُرے نشے سے کم نہیں ہے۔ طرح طرح کی ویڈیوز، جو وحشت و بربریت، جنسی برانگیختگی، فرقہ پرستی، منافرت اور اشتعال انگیز تقریروں پہ مبنی ہوتی ہیں، جو بہت حد تک ہماری نفسیاتی دنیا کو تہہ و بالا کر دیتی ہیں۔ ہم شوق سے دیکھتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ تعلیم یافتہ طبقہ بھی صحتمند تنقیدی پہلو کو ایک طرف رکھ کر فیس بُک پہ ایسے بداخلاق و خرافاتی کمنٹس کرتے ہیں، جن میں کسی کی دل شکنی، تضحیک، طنز اور معرکہ آرائی شامل ہوتی ہے۔

غرض بہت تیزی سے سوشل میڈیا کے مضر اثرات ہماری جسمانی، نفسیاتی اور روحانی زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔ وقت کو ہم روک نہیں سکتے ہیں، لیکن وقت ضائع کرنے سے ہم خود کو روک سکتے ہیں۔ زندگی کا ہر لمحہ انسان کے لئے بہت قیمتی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ سچائی ہے کہ فیس بُک کتابِ حیات پہ غالب آچکا ہے۔ قارئین کرام ہم یہاں پر جناب سمپورن سنگھ گلزار کی ایک آزاد نظم جس کا نام ’’کتابیں‘‘ ہے،  جس میں انہوں نے ’’انٹرنیٹ کے اس دور میں کتاب بینی کو بڑے دلکش شاعرانہ پیرایے میں بیان کیا ہے، آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

کتابیں جھانکتی ہیں بند الماریوں کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تَکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں 
انہیں اب نیند میں چلنے کی عادت ہوگئی ہے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
جو قدریں وہ سناتی تھیں
کہ جن کے سیل کبھی مرتے نہیں تھے
وہ قدریں اب نظر آتی نہیں گھر میں 
کوئی صفحہ پلٹتا ہوں تو اک سسکی نکلتی ہے
کئی لفظوں کے معنی گر پڑے ہیں
بِنا پتوں کے سوکھے ٹُنڈ لگتے ہیں وہ سب الفاظ
جن پر اب کوئی معنی نہیں اگتے
بہت سی اصطلاحیں ہیں
جو مٹی کے کٹوروں کی طرح بکھری پڑی ہیں
گلاسوں نے انھیں متروک کر ڈالا
زباں پر ذائقہ آتا تھا جو صفحے پلٹنے کا
اب انگلی کلک کرنے سے بس اک جھپکی گزرتی ہے
بہت کچھ تہہ بہ تہہ کھلتا چلا چاتا ہے پردے پر
کتابوں سے جو ذاتی رابطہ تھا کٹ گیا ہے
کبھی سینے پہ رکھ کے لیٹ جاتے تھے
کبھی گھٹنوں کو اپنے رحل کی صورت بناکر 
نیم سجدے میں پڑھا کرتے تھے، چُھوتے تھے جبیں سے
وہ سارا علم تو ملتا رہے گا آئندہ بھی
مگر وہ جو کتابوں میں ملا کرتے تھے سوکھے پھول
اور مہکتے ہوئے رقعے
کتابیں مانگنے، گرنے، اٹھانے کے بہانے رشتے بنتے تھے
ان کا کیا ہوگا۔؟
وہ شائد اب نہیں ہوں گے!


خبر کا کوڈ: 742185

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/742185/سوشل-میڈیا-کے-منفی-اثرات-اور-کتاب-دوستی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org