0
Sunday 5 Aug 2018 15:04

شمع اسلام بجھانے کی ناکام کوشش!

شمع اسلام بجھانے کی ناکام کوشش!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com

جب اس عالم مادہ میں نور اول حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد ہوئی تو نگاہوں کو خیرہ کر دینے والے بہت سے واقعات رونما ہوئے جو فطرت انسانی سے بالاتر تھے۔ قصر کسٰری کے چودہ کنگروں کا زمین بوس ہو جانا، آتش کدہ فارس کا گل ہو جانا اور دریائے ساوہ کاخشک ہو جانا وغیرہ۔ اس ذات مقدس نے ایسے ماحول میں آنکھیں کھولیں جہاں جہالت کا دور دورہ تھا، بتوں کی پرستش کی جاتی، ذرا ذرا سی باتوں پر چالیس چالیس برس جنگ ہوا کرتی، جگر کے ٹکڑوں کو زندہ درگور کیا جاتا، اپنے علاوہ سب کو عجم (گونگا) سمجھا جاتا اور ایسے غیر انسانی افعال انجام دیئے جاتے کہ اللہ کی پناہ! مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام بعثت سے پہلے عرب کےحالات کو یوں بیان فرماتے ہیں۔۔۔"لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جہاں دین کے بندھن شکستہ، یقین کے ستون متزلزل، اصول مختلف اور حالات پراکندہ تھے، نکلنے کی راہیں تنگ اور تاریک تھیں۔

ہدایت گمنام اور ضلالت ہمہ گیر تھی۔ (کھلے خزانوں) اللہ کی مخالفت اور شیطان کی مدد کی جاتی تھی۔ ایمان بے سہارا تھا۔ چنانچہ اس کے ستون گر گئے۔ اس کےنشان تک پہچاننے میں نہ آتے تھے۔ اس کے راستے مٹ  گئے اور شاہراہیں اجڑ گئیں تھیں۔ وہ شیطان کے پیچھے لگ کر اس کی راہوں پر چلنے لگے اور اس کے گھاٹ پر اتر پڑے۔انہیں کی وجہ سےان کے پھریرے ہر جگہ لہرانے لگے تھے ایسے فتنوں میں جو انہیں اپنے سموں تلے روندتے اور اپنے کھروں کے نیچے کچلتے تھے اور اپنے پنجوں کے بل مضبوطی سے کھڑے ہوئے تھے، تو لوگ ان میں حیران و سرگرداں، جاہل و فریب خوردہ تھے، ایک ایسا گھر جو اچھا مگر اس کے بسنے والے برے تھے۔ جہاں نیند کی بجائے بیداری اور سرمہ کی جگہ آنسو تھے۔ اس سرزمین پر عالم کے منھ میں لگام تھی اور جاہل معزز اور سرفراز تھا۔(نہج البلاغہ خطبہ 2 ترجمہ مفتی جعفر حسین)
           
ایسے ناگفتہ بہ حالات میں آپ نے دین الٰہی کی عملی تبلیغ کرنا شروع کی، لوگوں کو دعوت حق دی اور اعلان نبوت بھی کیا۔ یہ خبر بجلی کی رفتار سے اور جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور گرد و نواح میں بسنے والے افراد کے کانوں سے جا ٹکرائی ۔پہلے پہل تولوگ آپ کی دعوت کتراتے لیکن جب آپ کوحقیقی نجات دہند ہ پایا تو پہلے تھوڑے تھوڑے اور پھر فوج در فوج دائرہ اسلام میں پناہ لینے لگے اور کارواں بنتا گیا۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

ادھر وحدانیت کے منکرین کے دلوں میں آگ بھڑک اٹھی۔ وہ قریش کے سردار جناب ابوطالب علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور کہا، اے ابوطالب! آپ محمد کو منع کر دیجئے کہ وہ ہمارے خداؤں، ہمارے دین اور ہمارے آباءواجداد کو برا نہ کہیں اور وہ اپنی تبلیغ سے دستبردار ہو جائیں۔ جناب ابوطالب نے پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو بلایا اور ساری روداد بیان کردی۔ اس پر آنحضرت نے اپنے چچا سے فرمایا، خد اکی قسم !اگر یہ لوگ میرے داہنے ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تب بھی میں اسلام کی تبلیغ سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ یہاں تک کہ اس راہ میں اپنی جان قربان کر دوں یا پھر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاؤں۔ یہ فرماکر آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے، حضرت ابو طالب نے بھتیجےکو آواز دی، واپس بلایا اور فرمایا، خدا کی قسم! میں تمہاری حمایت سے ہرگز دستبردار نہیں ہوں گا اور میں ان لوگوں کو مہلت نہیں دوں گا کہ وہ تمہاری طرف انگلی اٹھا سکیں۔ تمہارا دل جو چاہے کہو۔ (سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 265اور 266طبع :1375ھ)۔

ان دونوں شخصیتوں کے جواب سے مشرکین، قریش سے مکمل طور پر مایوس اور ناامید ہو چکے تھے کہ یہ حضرات تبلیغ دین میں ایک دقیقہ بھی کوتاہی نہیں برتیں گے۔ لہٰذا انہوں نے رسول اسلام اور نو مسلمانوں کو طرح طرح سے اذیتیں دینا شروع کردیں؛ آپ پر کوڑا کرکٹ پھینکا گیا، شاعر، مجنون اور ساحر کے نام پکارا گیا۔ ڈھیلے پتھر سے جسارت کی گئی۔ راستہ میں کانٹے بچھائے گئے اور ایذا رسانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، مگر اہل ایمان پہاڑوں کی طرح ثابت قدم اور مستحکم رہے اور اپنے مقصد سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ہٹے۔ مشرکین عرب کا ظلم و ستم بڑھتا رہا لیکن تا دم حیات ان کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور بڑی ہی امانت داری کے ساتھ اسلام کونسل جدید کے سپرد کردیا۔ یوں یہ حق  و صداقت کا کارواں بڑھتا گیا۔ لیکن افسوس  کہ درمیان راہ کچھ  دو چہروں والے افراد جڑ گئے۔ ایسے ہی بہروپیا صفت انسانوں نے دین اسلام کے صاف و شفاف دامن پر بدنما دھبہ لگا دیا ہے۔ دہشت گردی بنام جہاد کا سہارا لے کر کبھی شام کی مقدس سرزمین کو خون آلودہ کیا، کبھی غزہ سرزمین کو لہولہان کیا، کبھی عراق میں خون کی ندیاں بہا دیں، کبھی پاکستان کی سرزمین کو لاشوں سے پاٹ دیا۔ غرض کہ مظلوموں کے لہو سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور اس میں شریک وہ افراد ہیں جنہوں نے صرف طوطے کی طرح کلمہ توحید و رسالت رٹ لیا ہے اور معنی و مفاہیم سے دور دور تک کوئی رشتہ نہیں اور اسلام اورانسانیت تو انہیں چھوکر بھی نہیں گزری ہے ۔

کیا یہ خون خرابہ بس یوں ہی ہو رہا ہے؟!
نہیں! بالکل ایسا نہیں بلکہ سکوں کی جھنکار سے مسلمانوں کے خون سے خود مسلمانو ں کا ہاتھ  رنگین کرایا جا رہا ہے مگر ایک سوال کہ یہ سب مسلمان سے ہی کیوں!؟ کیا دشمنان اسلام کے پاس افراد، طاقت، اسلحہ اور دولت کی  کمی ہے؟! نہیں ۔۔۔!!! مسلمانوں کو اپنی سازش کا آلہ کار بنانا شاید دو اسباب کے تحت ہو۔
(1)۔ دور حاضر میں امت مسلمہ عالم انسانیت کی دوسری سب سے بڑی تعداد شمار کی جاتی ہے اور ساتھ ساتھ ہی لوگوں کا جوق در جوق حلقہ بگوش اسلام ہونا، یہ سبب بن رہا ہے کہ مستقبل میں یہ امت صف اول میں شمار ہونے لگے گی۔ لہٰذا! سامراجیت اور دشمن عناصر کو اس بات کا خدشہ ہے کہ کہیں یہ قوم ہم پر سبقت نہ لے جائے۔
(2)۔ آج عیسائیت اپنے مذہب کی ترویج میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور مذہب کو قبول کرنے پر خوش حال زندگی کی ضمانت بھی لے رہی ہے کہ اس میں  صلح و آشتی ہے اور قتل و خوں ریزی کا گزر نہیں۔ ادھر مسلمان اہل اسلام کا خاتمہ کررہا ہے اور دین اسلام کا کردار بھی داغدار ہوا جا رہا ہے۔ اسی طرح بڑھتی ہوئی طاقت کو بھی کمزور کیا جارہا ہے اور آنے والی نسل کو اسلام سے دور بھی۔ یہ بھی کوئی مذہب ہےجس میں خود ایک بھائی اپنے دوسرے برادر دینی کاقتل کرے۔ یہ تو درندگی کا مذہب ہے اور بس!! لہٰذا ،ایسے مذہب کے دامن میں پناہ لو جو صلح و امن کا دعویدار ہے۔ کل دشمن کھلے عام دشمن تھے لیکن آج دوستی اور ہمدردی کا روپ دھار لیا ہے۔ کل دشمن دین اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھیکنے کی کوشش میں تھا لیکن جب اس میں ناکام رہا تو آج اس کے اصول و ضوابط چہرہ مسخ کرنے کے درپے ہیں لیکن
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا
 
خبر کا کوڈ : 742314
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش