0
Sunday 5 Aug 2018 18:41

پاراچنار، مزار قائد پر شہید کی 30ویں برسی

پاراچنار، مزار قائد پر شہید کی 30ویں برسی
رپورٹ: ایس این حسینی

آج 5 اگست کا دن ہے، 1988ء میں اسی روز جمعہ کو امریکہ کے اشارے اور آل سعود اور صدام کے تعاون سے چند پاکستانی زرخرید غلاموں نے شیعیان پاکستان کے عظیم قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی کو جامعۃ الشہید پشاور میں بوقت صبح صادق گولی مارکر شہید کر دیا۔ اسی سانحے کی یاد میں آج دنیا کے متعدد ممالک کے علاوہ پاکستان میں بھی متعدد شہروں میں عظیم الشان پروگراموں کا انعقاد کیا گیا۔ چنانچہ ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام اسلام آباد، تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے زیر اہتمام جامعۃ الشہید پشاور جبکہ تحریک حسینی پاکستان کے زیر اہتمام پیواڑ میں مزار قائد پر شہید کی 30ویں برسی کا انعقاد  کیا گیا۔

پیواڑ پروگرام کی جھلکیاں
شہید عارف حسین الحسینی کی برسی عرصہ تیس سال سے تحریک حسینی کے زیر اہتمام انکے مزار پیواڑ میں منعقد ہوتی رہی ہے، تاہم 2007ء کے بعد کرم میں ہونے والے فسادات کے باعث یہ پروگرام چند سال تک پیواڑ کی بجائے پاراچنار میں مدرسہ رہبر معظم میں منعقد ہوتا رہا۔ شہید کی 30ویں برسی کی مناسبت سے آج انکے مزار پر ایک بار پھر ایک عظیم اجتماع کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ملک بھر خصوصاً کرم کے کونے کونے سے ہزاروں متوالیان شہید حسینی نے شرکت کی۔ پروگرام میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کراچی ڈویژن، نیز پنجاب اور دیگر اضلاع کے امامیہ برادران نے بھی شرکت کی۔

حفاظتی انتظامات:
پروگرام کی حفاظت کیلئے مقامی رضاکاروں کے چاک و چوبند دستوں کے علاوہ کرم لیوی فورس نے سخت حفاظتی انتظامات کئے تھے۔ ہر آنے اور جانے والے شخص کی جامہ تلاشی لی جاتی تھی۔

امامیہ اسکاوٹ کیجانب سے سلامی
ٹھیک دس بجے صبح آئی ایس او کے حسینی اسکاوٹ، نیز پیواڑ کے سکول کے ننھے منھے بچوں پر مشتمل چاک و چوبند دستوں نے شہید حسینی کو سلامی پیش کی۔ اسکے بعد قائد شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کے کیلئے مخصوص ترانہ (اے میرے وطن کے خمینی سلام ہو) نیز آئی ایس او کا مخصوص ترانہ (حی علی خیر العمل) بھی پیش کیا گیا۔ ترانوں کے بعد آئی ایس او کے مرکزی صدر عنصر مہدی نے خطاب کیا۔

پروگرام کا آغاز
آئی ایس او کے پروگرام کے بعد ٹھیک گیارہ بجے پاکستان کے معروف اور خوش الحان قاری سید ہدایت حسین نے تلاوت کلام پاک سے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اجتماع سے تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین جعفری، مولانا گلفام حسین حیدری، مولانا سید محمد حسین طاہری، مرتضٰی حسین بنگش اور تحریک حسینی کے سرپرست اعلیٰ اور سابق سینیٹر علامہ سید عابد حسین الحسینی نے خطاب کیا۔

صدر تحریک حسینی کا خطاب:
مولانا یوسف جعفری نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اہلیان کرم کو مری معاہدے کے عین مطابق حقوق دلاکر ابدی امن کے قیام کا ساماں فراہم کرے۔ انہوں نے چار دن قبل ایف سی کی جانب سے پیواڑ گاؤں کی سڑکوں اور گلیوں میں غیر ذمہ دارانہ فوٹو گرافی اور ریکارڈنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے پاک فوج کے بریگیڈئر سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ یہاں پختون کلچر ہے، یہ کوئی شہر نہیں بلکہ پٹھانوں کا دیہاتی علاقہ ہے۔ چنانچہ دوبارہ ایسی کسی بھی حرکت کی اجازت ہرگز نہیں دی جائے گی۔

علامہ عابد حسینی کا خطاب
علامہ عابد حسین الحسینی نے خطاب کرتے ہوئے ہر فرد اور تنظیم سے قومی حقوق کی خاطر آواز بلند کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ حضرت موسیٰ کی قوم نہ بنیں، جو موسیٰ علیہ السلام سے کہا کرتے تھے کہ آپ اور آپکا خدا جاکر اس ظالم بادشاہ سے لڑیں، ہم یہاں بیٹھے ہیں، بلکہ خود ہی قیام کرکے اپنے مطالبات کو احتجاج اور فریاد کے ذریعے منوائیں۔ انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے دنیا بھر، خصوصاً یمن، شام، لبنان، بحرین اور عراق وغیرہ میں جاری ظلم و بربریت کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عرب کے غریب عوام پر اپنی برتری اور طاقت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے سعودی عرب کو چاہئے کہ وہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے سے روک لے، مگر افسوس صد افسوس کہ آج وہ اسرائیل کی مخالفت تو کیا، بلکہ اسرائیل کا اتحادی بنا ہوا ہے اور عجیب بات یہ کہ اس بات پر وہ شرم بھی محسوس نہیں کر رہا۔ انہوں ںے نوید سناتے ہوئے کہا کہ وہ دن دور نہیں کہ اس ظلم کے بدلے سعودی عرب کے اپنے ہی عوام اٹھ کر ان ظالموں کا تختہ الٹ کر رکھدیں گے۔
علامہ عابد حسینی کے بعد ذاکر مرتضیٰ حسین بنگش نے مندرجہ ذیل قرار داد پیش کرکے اللہ اکبر کے فلک شگاف نعروں کے ساتھ عوام سے اسکی تائید حاصل کی۔ 

قائد شہید کی 30ویں برسی کے دوران پیش کی جانیوالی قراردادیں
ہم جملہ عاشقان و متوالیان شہید عارف حسین الحسینی آج انکے مزار پر منعقد ہونے والے اس عظیم اجتماع و پروگرام کے دوران تحریک حسینی کے توسط سے اپنے قومی حقوق پر مبنی مطالبات مندرجہ ذیل قراردادوں کی صورت میں حکومت کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔
1۔ شہید عارف الحسینی کی شہادت کو 30 سال گزر گئے، انکے قتل کا اقرار جرم کرنے والے مجرمین کو ابھی تک سزا نہیں مل سکی۔ چنانچہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ شہید کے قاتلین کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزاد دی جائے۔
2۔ برسی شہید کا یہ عظیم اجتماع حکومت پاکستان خصوصاً مقامی سول اور فوجی انتظامیہ سے پرزور مطالبہ کرتا ہے کہ کرم میں موجود مختلف قبائل کے تنازعات اور مسائل کو مری معاہدے کی روشنی میں ریوینیو ریکارڈ کے مطابق حل کیا جائے۔
3۔ گذشتہ سال ہونے والے دھماکوں میں ملوث افراد کی (بقول انتظامیہ کے) نشاندھی ہوچکی ہے، چنانچہ ملزمان کے ناموں کا سرعام اعلان کیا جائے۔ نیز واقعے میں ملوث افراد تک اگر رسائی ممکن نہ ہو تو انکے رشتہ داروں کو گرفتار کرکے اصل ملزمان کو برآمد کرایا جائے۔
4۔ منشیات پر پوری طرح سے پابندی لگائی جائے، اسکے سمگلروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے اور کرم کو منشیات اور دیگر ہر طرح کی کرپشن سے پاک علاقہ قرار دیا جائے۔

5۔ کرم تین اطراف (شمال، جنوب اور مغرب) سے افغانستان سے گھیرا ہوا ہے، سرحد پار سے دراندازی کا خدشہ ہر وقت موجود رہتا ہے، جسکے لئے حکومت نے جس طرح بوڑکی اور خرلاچی میں کافی حد تک باڑلگائی ہے، اسی طرح شمال میں کوہ سفید جبکہ جنوب میں مقبل سے ٹل تک بھی اسی طرح باڑ بچھاکر علاقے کو محفوظ بنایا جائے۔
6۔ کرم میں نفرت پھیلانے والی کالعدم تکفیری تنظیموں کے جھنڈے ایک بار پھر لہرائے جا رہے ہیں۔ جس سے نفرتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ لہذا نفرت پھیلانے والی ایسی تنظیموں کے جھنڈوں اور دیگر قسم کے شعار اور نعروں پر مکمل طور پرپابندی لگائی جائے۔
7۔ جنرل صاحب نے زچہ بچہ ہسپتال بنانے کا جو وعدہ کیا ہے، اس پر فوری طور پر عمل درآمد کرکے اسے عملی جامہ پہنایا جائے۔
8۔ علیزئی میں حال ہی میں نادرا آفس کی منظوری دی جاچکی ہے، جس پر بگن والوں نے اعتراض کرکے معطل کروایا ہے، حالانکہ علی زئی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہے اور تحصیل ہیڈکوارٹر کی حیثیت سے اہلیان علیزئی نے ایف سی اور سرکاری دفاتر کے لئے کروڑوں کی اراضی مفت فراہم کی ہے۔ چنانچہ حکومت انصاف پر مبنی فیصلہ صادر کرکے علی زئی کو اپنا حق دیکر آفس کھلا جائے، ہاں حکومت کے پاس وسائل ہوں تو بیشک بگن کو اپنا علیحدہ آفس فراہم کرے۔

9۔ کرم ایجنسی کے نام پر منظور شدہ ترقیاتی فنڈز کا 90 فیصد حصہ سنٹرل کرم اور لوئر کرم میں استعمال کیا جاتا ہے، جو کہ اپر کرم کے ساتھ واضح ناانصافی ہے۔ چنانچہ مختلف ترقیاتی فنڈز کی تقسیم آبادی کے تناسب سے کرائی جائے اور اس سلسلے میں تعصب اور ناانصافی کو ترک کرکے منصفانہ رویہ اختیار کیا جائے۔
10۔ موجودہ پولیٹیکل ایجنٹ محمد بصیر خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ 2011ء میں اپنے ہی کئے ہوئے فیصلے اور آرڈر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بالش خیل اور خار کلی کے مشترکہ شاملات میں غیر داخل کار پاڑہ چمکنی قوم کی ناجائز آباد کاری کی مسماری کے فوری احکامات صادر فرمائے جائیں۔
 11۔ کرم ایجنسی کے متاثرین (آئی ڈی پیز) میں سے غیر طوری اقوام کو حکومت کی جانب سے ہر ماہ باقاعدہ ATM کارڈ کے ذریعے مراعات ملتی رہتی ہیں، انکی بحالی اور آبادکاری کے لئے تمام تعمیراتی سامان فراہم کیا گیا، جبکہ طوری قوم کے متاثرین، اہلیان صدہ، چاردیوال، جیلمئے، خیواص، دڑادڑ، خونسیدئے، آڑاولی (سیدانو کلے) اور گوبزانہ وغیرہ کو آج تک کسی قسم کے مراعات ملے، نہ ہی تعمیراتی سامان کی فراہمی ہوئی۔ اس حوالے سے جب پشاور میں موجود FDMA کے مین آفس سے رابطہ کیا گیا تو انکا دعویٰ تھا اور انکا دعویٰ انکے کمپیوٹر ریکارڈ میں بھی موجود تھا، وہ یہ کہ خیواص کا سارا گاؤں وہاں سے کلئیر ہے اور کرم سے اوکے رپورٹ ملی ہے کہ خیواص کو سب کچھ فراہم کیا جاچکا ہے، حالانکہ اسکا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نہ ہی خیواص کو کسی قسم کے مراعات ملے ہیں۔
12۔ پاراچنار شہر نیز گردونواح کے دیہات بجلی کی عدم ترسیل کے باعث پانی کے قطرے قطرے کو ترس رہے ہیں، چنانچہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا دیرینہ مسئلہ حل کرانے کے ساتھ ساتھ پانی کی فراہمی اور نکاس کا مسئلہ فوری طور پر حل کرایا جائے۔

سید علی الحسینی کیجانب سے شرکاء کا شکریہ
قراردادوں کے بعد علامہ سید علی عارف الحسینی سٹیج پر آئے اور انہوں نے اپنی اور پیواڑ کے تمام قبائل کی جانب سے تمام شرکاء جلسہ خصوصاً تحریک حسینی بالخصوص علامہ عابد حسین الحسینی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ عرصہ تیس سال سے علامہ عابد الحسینی نے امن اور جنگ ہر حالت میں انکے والد کی یاد میں پیواڑ میں برسی مناکر شہید قائد کے افکار کو جلا بخشنے کا حق ادا کیا۔ خدا کا شکر ہے کہ آج کرم کے حالات داخلی اور بیرونی لحاظ سے بہت بہتر ہیں، ان حالات کو بہتر بنانے میں علامہ سید عابد حسین الحسینی صاحب کا بہت کردار ہے۔ گذشتہ دو سال کے دوران باہمی اتحاد و وحدت کے حوالے سے بہت اچھی فضا قائم ہوئی ہے، جس میں موجودہ پیش امام علامہ فدا حسین مظاہری کا رول کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس حوالے سے دیگر علمائے کرام سے بھی یہ گزارش ہے کہ تمام احباب خصوصاً علمائے کرام اس حوالے سے اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ پروگرام کا اختتام شہنشائے مصائب علامہ سید محمد حسین طاہری المعروف آغائے بلبل نے مصائب امام حسین علیہ السلام سے کیا۔ جس کے بعد تمام شرکائے جلسہ کو نیاز (طعام) پیش کیا گیا۔
خبر کا کوڈ : 742643
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش