0
Monday 6 Aug 2018 14:12

چلاس میں تعلیم دشمنوں کی کارروائی

چلاس میں تعلیم دشمنوں کی کارروائی
 تحریر: نادر بلوچ

شدت پسندوں نے چلاس کے علاقے دیامر میں 12 اسکولز کو جلا دیا ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس معاملے کو اتنا لائٹ لیا گیا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں، ٹھیک چھ سال پہلے یعنی اسی چلاس میں دو اپریل 2012ء کو کالعدم جماعت کے تکفیری بھیڑیوں نے راولپنڈی سے اسکردو جانے والی بسوں کو روکا اور شناختی کارڈ چک کرکے 20 افراد کو ناصرف گولیاں ماریں بلکہ لاشوں کی بےحرمتی کی، کئی لاشوں کے سر تن سے جدا کئے گئے اور پتھر اٹھا کر لاشوں پر برسائے گئے، یوں پاکستان میں بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی تھی۔ بعد میں چھ مسافر بسوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔ سلام ہو اُن پرامن شہریوں پر جن کے گھروں میں جنازے گئے لیکن انہوں نے ریاست کے خلاف کوئی ایک جملہ تک ادا نہ کیا، ملک کا پرچم گرنے نہ دیا، انتقاماً کسی غیر ملکی ایجنسی کے ایجنٹ نہ بنے، کسی بےگناہ کو شہید نہ کیا۔ لیکن افسوس کہ ریاست پاکستان نے زبانی جمع خرچ کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا، قاتل آج بھی آزاد ہیں اور آج نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بچیوں کے اسکولز تک جلائے جانے لگے ہیں۔

دنیا بھر میں اسکولز بنائے جاتے ہیں لیکن یہ بدقسمت ملک پاکستان ہے، جہاں اسکولز جلائے جاتے ہیں، جہاں جہالت پرموٹ کرنے والوں کو الیکشن لڑنے دیا جاتا ہے، چند ماہ قبل مولانا اورنگزیب فاروقی اسی چلاس میں جاتے ہیں اور ایک بڑے مجمعے سے خطاب میں برملا اظہار کرتے ہیں کہ اب اس علاقے میں کوئی مسلحانہ کارروائی نہیں ہوگی، وہ اپنے اس جملے میں یہ بتانا چاہ رہے تھے کہ یہ اختیار اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی کارروائی ہوگی یا نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ریاست پاکستان 80 ہزار سے زائد شہداء کی قربانی دینے کے باوجود بھی کفیوژ دکھائی دیتی ہے، جان بوجھ کر قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکی جا رہی ہے۔ کیا بھیڑیئے سے کوئی اور توقع واسبتہ کی جاسکتی ہے کہ وہ خون خرابہ نہیں کرے گا۔؟ اگر نہیں تو پھر آپ کیسے مسلحانہ کارروائیوں پر یقین رکھنے والوں سے امن کی توقع رکھ سکتے ہیں، ان کے منہ کو تو خون کا چسکا لگ چکا ہے، یہ تکفیری اب داعش کو جوائن کرچکے ہیں اور داعش کے لئے پاکستان میں سہولتکاری سے لیکر کارروائیاں انجام دینے تک یہ ان کی مدد کر رہے ہیں۔

دوسری جانب ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کی قسمت کا فیصلہ کر دیا ہے اور نام گرے لسٹ میں باقی رکھا ہے۔ دنیا پاکستان پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں کہ یہاں دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ افسوس کا مقام ہے کہ ایسے دہشتگردوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، جن کو جیلوں میں بند ہونا چاہیئے تھا۔ جبراً کچھ امن پسند علماء کو بھی تکفیریوں کے ساتھ بیٹھنے اور انہیں مین اسٹریم کرنے کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان تکفیریوں نے اپنی تکفیر سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔؟ کیا اب یہ دہشتگردی سے تائب ہوچکے ہیں۔؟ کیا انہوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ تمام مسلمہ مسالک کو مسلمان سمجھتے ہیں۔ کیا انہوں نے شہداء کے گھرانوں سے معافی مانگ لی ہے، جن کے پیارے منوں مٹی تلے چلے گئے ہیں۔ اگر ان تمام سوالوں کے جواب نفی میں ہے تو پھر اس ساری پریکٹس کا فائدہ کیا ہے۔؟

اس کی کیا گارنٹی ہے کہ آئندہ یہ مٹھی بھر گروہ کسی مکتب کی تکفیر نہیں کرے گا، جلسوں میں فرقہ وارانہ تقریریں نہیں ہوں گی۔ یہ ایسے نعرے نہیں لگائیں گے، جن سے کسی متکب یا مسلک کی دل آزاری ہوتی ہے۔ زیادہ نہیں بس اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جن کو الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی، ان کی الیکشن کے دوران کی گئی تقریروں کا ہی آڈٹ کرا لیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، کیونکہ ان کی سیاست اور دکان ہی فرقہ وارانہ مسائل سے چلتی ہے۔ اگر یہ اتنے ہی پرامن ہوتے تو خود دینی جماعتوں کے اتحاد ملی یکجہتی کونسل یا متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہوتے۔ راقم نے خود ایک بار متحدہ مجلس عمل کی ایک بڑی شصیت سے یہ سوال کیا تھا کہ آپ کالعدم اہلسنت والجماعت کو کیوں اپنے ساتھ نہیں ملا لیتے، یا انہیں تکفیر سے تائب کرکے مین اسٹریم جماعتوں میں لاتے؟، جواب میں اس شخصیت نے کہا کہ بھائی جان یہ لوگ ناقابل اعتبار ہیں۔ یہ کل نیا پروجیکٹ مل جائے گا اور اپنی کی ہوئی سب باتوں سے پھر جائیں گے۔ اب اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔ پیغام پاکستان بیانیہ تو بنوا لیا، لیکن یہ دہشتگردی اور تکفیر کیسے رکے گی، یہ ریاست کے لئے ایک بڑا سوال ہے۔
خبر کا کوڈ : 742794
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش