0
Tuesday 7 Aug 2018 09:33

امام علی ابن مو سیٰ الرضا علیہ السلام کی علمی فضیلت

امام علی ابن مو سیٰ الرضا علیہ السلام کی علمی فضیلت
تحریر: سید حسن رضا نقوی
(طالبعلم جامعۃ الکوثر اسلام آباد)


امام ہشتم علی ابن موسٰی الرضا علیہ السلام کی علمی فضیلت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آئمہ اہلِ بیت بعد از پیغمبرﷺ، خدا کی کائنات میں تمام صفات اور کمالات کے لحاظ سے ہر زمانے کے تمام انسانوں سے افضل ہیں، اور ان افضل ہستیوں میں سے جس ہستی نے عالمِ آل محمد کا لقب پایا وہ شاہ ِ خراسان علی ابن مو سٰی الرضا علیہ السلام ہیں۔ روایات میں موجود ہے کہ امام رضا ؑ کی ولادت باسعادت سے 15روز قبل آپ کے جد ِبزرگوار امام جعفر صادق ؑ کی شہادت ہوئی۔ امام جعفر صادق ؑ اپنی شہادت سے قبل اپنے فرزند امام موسٰی کاظم ؑسے فرمایا تھا کہ عنقریب تمھارے ہاں ایک فرزند کی ولادت ہونے والی ہے کہ جو عالم ِآل محمد ؐہو گا۔ امام رضاؑ کے وجود مبارک سے تمام صفات و کمالات میں سے جو صفت سب سے زیادہ ظاہر تھی وہ صفت علم ہے۔ امام کی عظمت اور ممتاز شخصیت کے متعلق تمام مورخین اور محدثین اتفاق ِنظر رکھتے تھے۔ امام ہشتم ؑ علم و فضل کے اعتبار سے اس منزل پر فائز تھے کہ ہر آدمی آپ کی علمی عظمت کا اعتراف کرتا تھا۔ عبدالسلام الھروی جو امام کے قریبی اصحاب میں سے تھا کہتا تھا ''ما رایت اعلم من علی بن مو سی الرضا"میں نے علی ابن مو سیٰ الرضا ؑ سے بڑھ کر کسی عالم کو نہیں دیکھا۔ اور پھر عبدالسلام الھروی کہتا ہے کہ "ما رأہ عالم الا شہد لہ بمثل شہادتی" یعنی صرف میں گواہی نہیں دیتا بلکہ میں نے امام ؑ کے دور میں تمام علماء میں سے کوئی عالم نہیں دیکھا جس نے امام رضا کی علمی فضیلت کی گواہی نہ دی ہو۔ اس زمانے کے ہر عالم نے یہ گواہی دی ہے کہ اگر کوئی ہستی علمی مرتبت کے لحاظ سے ہم سے افضل ہے تو وہ فرزندِ موسٰی کاظم علی الرضاؑ ہیں۔ ابن حجر بیان کر تے ہیں کہ امام رضا کے ارشادات حکیمانہ، آپ کا عمل درست اور آپ کا کردار محفوظ عن الخطا تھا۔ اور پھر علمی فضیلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علم و حکمت میں کامل اور روئے زمین پر بےنظیر شخصیت کے مالک تھے۔

امام رضا ؑکے زمانے میں بادشاہ مامون نے بھی آپ کی علمی فضیلت کا بارہا اعتراف کیا۔ جب مامون نے امام ؑ کے مدینے سے سفر کرنے کی خبر سنی تو اپنے معین کردہ شخص رجاء بن ابی ضحاک سے مامون کہتا ہے کہ علی ابن موسٰی الرضا اس زمین پر افضل ترین ہستی ہیں اور انسانوں میں سب سے بڑے عالم اور عابد ہیں۔ ایک اور مقام پر علی ابن مو سیٰ الرضا ؑ کی ولی عہدی کے سلسلے میں مامون نے بیس ہزار افراد کو جمع کر کے خطاب کرتے ہوئے کہا میں نے فرزندان ِعباس اور فرزندان ِ علی کے درمیان تلاش کیا لیکن ان میں سے کسی کو ولی عہد کے لئے علی ابن موسٰی الرضا سے زیادہ لائق، پارسا اور با فضیلت نہیں پایا۔ امام علی رضا ؑنے دین اسلام کے دفاع اور ترویج کے لئے جو ہتھیار اپنایا وہ علم کا ہتھیار تھا اور امام کے اسی علمی ہتھیار نے اسلام کو حیات بخشی اور خالص حالت میں باقی رکھا۔ اگر اس وقت کے حالات کا جائزہ لیں تو صورتحال یہ تھی کہ بنی عباس بالخصوص مامون کے دور حکومت میں جہاں غیر عربی علوم کو عربی زبان میں ترجمہ کر کے منتقل کیا گیا وہاں پریشانی کا سبب یہ چیز بن گئی تھی کہ ان مترجمین میں دوسرے مذاہب مثلاً زردشتی، صائبی، رومی اور ہندو برہمن سخت قسم کے متعصب لاطینی اور دوسری بہت سی زبانوں کی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا ان میں سے بعض افراد کی کوشش تھی کہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مذہب کے مفاد میں کچھ باتیں لکھ دیں۔ یہی وجہ ہے کہ خرافاتی عقائد اور غیر اسلامی گمراہ کن افکار ان بظاہر علمی کتابوں کے اندر داخل ہو کر اسلامی ماحول اور معاشرے میں داخل ہو گئے۔ معاشرے کے اس نازک اور سنگین حالات نے یہ ذمہ داری حضرت علی رضا ؑکے کندھوں پر ڈال دی لہٰذا آپ نے علم الٰہی سے ان خطرناک امواج اور تیز و تند آندھیوں سے اسلامی معاشرے کے علوم و عقیدت کی حفاظت فرمائی اور الٰہی استعداد سے اسلام کی کشتی کو خطرناک گرداب میں غرق ہونے بچا لیا۔

امام رضا ؑحقیقی معنوں میں وارث ِعلم البنی ؐہیں اس کا ثبوت تاریخ بیان کرتی ہے کہ زمانے کے تمام علماء اور فقہاء کے لئے آپ مرجع اعلٰی تھے۔ امام رضا ؑکی علمی سیرت کی ایک خاص بات یہ ہے کہ امام ؑکو کئی مناظروں کا سامنا کرنا پڑا لیکن امام ؑ نے اپنے سامنے آنے والے ہر صاحب علم خواہ یہودی ہو، عیسائی ہو، زردشتی، برہمن، صائبی ہو جو بھی مقابلے میں آیا سب کو شکست ِ فاش دے کر ثابت کر دیا کہ آپ ہی حقیقی معنوں میں جانشین رسول ؐہیں۔ اگرچہ امام ؑکے مناظرو ں کی طویل فہرست ہے لیکن سب سے اہم مناظرے سات ہیں جو مختلف ادیان اور مذاہب کے پیروکاروں سے کئے ہیں جنہیں عالم بزرگوار مرحوم شیخ صدوق نے اپنی کتاب عیون اخبار الرضا میں بیان کیا ہے۔ امام علی ابن مو سٰی الرضاؑ نے نہ صرف اسلام کا دفاع کیا بلکہ اسلام کی ترویج بھی فرمائی۔ ان مناظروں میں ایک طرف تو امامؑ انحرافات کا سد باب کرتے تھے۔ دوسری طرف لوگوں کو اسلامی علوم و معارف سے روشناس کراتے تھے۔ امامؑ کی علمی فضیلت کو بیان کرنے کی خاطر صرف ایک مناظرہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

مامون کا خادم یاسر امامؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا کہ مامون کے دربار میں مختلف ادیان کے علماء علم کلام حاضر ہیں۔ دربار میں آکر ان کی باتوں کو سن لیں۔ امام ؑ نے فرمایا انشاءاللہ میں کل صبح تمھارے پاس آجاؤں گا۔ حسن بن سہل نوفلی نے امامؑ سے عرض کی کہ یہ سب علمائے علم کلام سفسطہ سے کام لیتے ہیں اگر آپ ان کے سامنے قرآن مجید کی دلیل پیش کرینگے تو وہ کہیں گے کہ ہم اسے نہیں مانتے، اگر آپ احادیث کو بطور دلیل پیش کرینگے تو کہیں گے کہ رسول کی رسالت کو ہم تسلیم نہیں کرتے۔ غرض قدم قدم پر اس قدر مغالطہ سے کام لیتے ہیں کہ انسان تنگ آکر شکست تسلیم کر لیتا ہے۔ حسن بن سہل جس کو امام ؑ کی مکمل معرفت نہیں تھی وہ خوفزدہ تھا کہ امام (نعوذ باللہ )شکست نہ کھا جائیں، تو امام کے سامنے اپنے اس خدشہ کا اظہار کیا تو شاہِ خراسان امام علی ابن موسٰی الرضا مسکرا دیئے اور فرمایا اے حسن بن نوفلی تم خوفزدہ ہو کہ وہ میرے دلائل کو نہیں مانیں گے اور میری راہیں بند کر دیں گے اگر میں اہل تورات کے ساتھ ان کی کتاب تورات سے، اہل انجیل کے ساتھ ان کی کتاب انجیل سے، اہل زبور کے ساتھ اُن کی کتاب زبور سے، صائبین کے ساتھ اُن کی کتاب عبری سے اور دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے انکی اپنی زبان میں ہر مذہب والے کے دلائل کو اس طرح جداگانہ طور پر باطل کروں گا تو کیا پھر وہ میرے دلائل تسلیم کریں گے، تو حسن بن نوفلی کے چہرے پر خوشی کی لہر آئی۔ وہ عرض کرتا ہے کہ اس وقت ان کے پاس آپ کے دلائل قبول کرنے کے علاوہ کوئی راہ نہیں۔ تو اس وقت امامؑ نے اپنی اس علمی طاقت کو خدا کی عطا کردہ طاقت قرار دیتے ہوئے (لاحول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم) کا ورد اپنی زبان مبارک پر جاری فرمایا۔

حسن بن نوفلی کہتے ہیں کہ جب امام ؑدربار میں تشریف فرما ہوئے تو مامون، محمد بن جعفر اور تمام بنو ہاشم کھڑے ہو گئے۔ امام مامون کے ساتھ تشریف فرما ہو گئے مامون کچھ دیر تک امام کے ساتھ محو گفتگو ہوئے پھر جاثلیق یعنی پوپ کی طرف منہ کر کے کہا جاثلیق! یہ علی ابن موسٰی بن جعفر ہیں ہمارے پیغمبر ؐکی صاحبزادی حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا کی اولاد میں سے ہیں۔ میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ آپ ان کے ساتھ مناظرہ کریں۔ جاثلیق نے کہا کہ میں ان کے ساتھ کیسے گفتگو کر سکتا ہوں کہ وہ ایک ایسی کتاب کے ساتھ استدلال کریں گے جسے میں نہیں جانتا۔ اس کی بات سن کر امام ؑنے فرمایا نصرانی اگر میں تمہارے ساتھ تمہاری اپنی کتاب انجیل سے استدلال کروں تو مان جاؤ گے؟ اس نے کہا جی ہاں تسلیم کروں گا۔ امامؑ نے فرمایا اب جو تمہاراجی چاہے پوچھو اور جواب سنو۔ جاثلیق نے وہ سوال پوچھا جو ہر مسلمان سے پوچھتا تھا کہ حضرت عیسیؑ کی شخصیت اتفاقی ہے، ہم بھی اور آپ بھی تسلیم کرتے ہین کہ حضرت عیسٰی اللہ کی طرف سے نبی تھے لیکن تمہارے رسول کی شخصیت اختلافی ہے کہ جنہیں آپ تو خدا کا رسول مانتے ہیں لیکن ہم نہیں، لہٰذا اتفاقی کو لے لیا جائے اور اختلافی کو چھوڑ دیا جائے یہ وہ دلیل تھی کہ جس کا جواب دینے سے تمام مسلمان عاجز تھے لیکن جب آپ کے سامنے یہ دلیل پیش کی گئی تو امام رضا ؑنے جواب ارشاد فرمایا، کہ ہم اُس حضرت عیسٰی اور اُن کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں کہ جنہوں نے خود اپنی اُمت کو رسالت مآب کی رسالت کی بشارت دی ہے اور حواریوں نے اس کا اقرار کیا ہے، ہم مسلمان اُس حضرت عیسٰی علیہ السلام کی نبوت کو تسلیم نہیں کرتے جس نے حضرت محمد مصطفٰیﷺ کی نبوت اور آپ کی کتاب کا اقرار نہیں کیا اور اپنی اُمت کو اُس کی نوید نہیں سنائی۔

جاثلیق نے یہ جواب سنا تو دنگ رہ گیا جب دیکھا کہ میری دلیل جس پہ مجھے مکمل یقین تھا کہ جس کے آگے سب مسلمان عاجز تھے اور ان کے امام بھی عاجز آجائیں گے لیکن امام رضا  نے دلیل کے ختم ہوتے ہی فوراََ جواب دے دیا۔ اب جاثلیق نے دلیل مانگ کر اپنا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ جاثلیق نے امامؑ سے دو ایسے گواہ طلب کئے جو  مذہب ِ اسلام سے تعلق نہ رکھتے ہوں اور دونوں گواہ رسول کی نبوت کی گواہی دیں۔ امامؑ نے فرمایا نصرانی! یوحنا دیلمی کی گواہی مان لو گے؟ جاثلیق نے کہا کہ یوحنا دیلمی کی گواہی تسلیم کریں گے۔ امام جو علم لدنی کے مالک ہیں اور "و کل شیء احصیناہ فی امام مبین" کے مصداق ہیں، انجیل کا تیسرا سفر پڑھنا شروع کیا یہاں تک کہ آنحضرت کے اسم مبارک پر پہنچے تو جاثلیق نے کہا میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ انجیل کے عالم ہیں۔ امام  نے پھر اس حصے کی تلاوت فرمائی جس میں حضور اکرم ؐکا نام، اہل بیت اور امت کا ذکر تھا۔ جاثلیق نے جب سنا تو کہتا ہےکہ آپ نے جو کچھ تلاوت کی وہ انجیل میں بیان ہوا ہے۔ جب جاثلیق نے اعتراف کرلیا تو امام رضا ؑ کی کامیابی مسلمانوں کے چہروں پہ نوید بن کے آئی اور یہ کامیابی امام ؑ کے علم کی افضلیت کو بیان کر رہی ہے۔

امام رضا ؑنے جاثلیق سے ایک اور اقرار کرانے کی خاطر جاثلیق سے فرمایا کے اے نصرانی! تمہارے پیغمبر حضرت عیسیٰؑ نمازیں بھی کم پڑھتے تھے اور روزے بھی کم رکھتے تھے۔ جاثلیق یہ سن کر کہتا ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑراتوں کو جاگ کر نمازیں پڑھتے تھے اور کسی دن روزہ قضا نہیں کیا۔ امام ؑ نے فرمایا وہ کس لئے نمازیں پڑھتے تھے اور کس لئے روزے رکھتے تھے؟ جاثلیق اس بات کا جواب نہ دے سکا اور خاموش ہوگیا اس لئے کہ وہ حضرت عیسٰی کے نمازی اور روزہ دار ہونے کے دعوٰی سے حضرت عیسٰی کے عبد خدا ہونے کا اعتراف کر چکا تھا۔ وہ حضرت عیسیٰ کے اولوہیت یعنی خدا ہونے کے دعوٰی سے دستبردار ہوچکا تھا۔ اس  وقت جاثلیق کہتا ہے مجھے حق مسیح کی قسم! میں اقرار کرتا ہوں کہ آپ جیسا عالم اس زمانے میں موجود نہیں۔ امام رضا ؑنے دربار میں تمام مذاہب کے بڑے بڑے علماء سے مناظرہ فرمایا۔ امام ؑنے سب کو شکست دے کر اسلامی تعلیمات و عقائد کا تحفظ بھی کیا اور قوم پر یہ بھی واضح کر دیا کے تخت و تاج پر قبضہ کر لینا آسان ہے لیکن بساط علم و فضل پر قدم رکھنا آسان نہیں۔ یہ صرف علیؑ اور اولاد زہراء سلام اللہ علیہا کا حصہ ہے جو روز اول سے قدرت نے ان کے ساتھ وابستہ کر دیا اور انکا کام امت کی مشکل کشائی اور اسلام کے وقار کا تحفظ ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 742937
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش