0
Wednesday 8 Aug 2018 10:24

احمد علی کوہزاد کے شناختی کارڈ منسوخی اور ہزارہ قوم کی بدنامی!

احمد علی کوہزاد کے شناختی کارڈ منسوخی اور ہزارہ قوم کی بدنامی!
رپورٹ: نوید حیدر

پاکستان میں بسنے والی جتنی بھی اقوام ہیں، وہ حکومتی معاملات میں اختیار دار ہونے اور قانون ساز اسمبلیوں کا حصہ بننے کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتیں۔ صوبائی و قومی اسمبلیاں اور ایوان بالا (سینیٹ) پاکستان کے تین ایسے معتبر ادارے ہیں، جو ملک بھر کے نمائندوں کو اکٹھا کرکے انہیں بائیس کروڑ عوام کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا اختیار دیتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں بنیادی طور پر تین اقوام "لوکل" گردانی جاتی ہیں، جن میں بلوچ، پشتون اور ہزارہ شامل ہیں۔ ہزارہ قوم کا بنیادی تعلق افغانستان سے ہے، جو صدیوں سے وہاں آباد ہیں۔ 1880ء میں افغانستان میں عبدالرحمان خان کی بادشاہت کا دور شروع ہوتے ہی اس سرزمین پر آباد ہزارہ قوم پر بے انتہاء ظلم و جبر کا دور شروع ہوا اور مسلکی، لسانی و علاقائی بغض کی وجہ سے پشتون قوم سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے ظالم بادشاہ عبدالرحمان خان نے ہزاروں کی تعداد میں ہزارہ قوم کا خون بہایا۔ اس ظلم کی وجہ سے ہزارہ قوم ایران، عراق، شام اور پاکستان سمیت دیگر ممالک کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئی۔

1880ء میں پاکستان میں ہجرت کرنے والی ہزارہ قوم کی اکثریت نے کوئٹہ کو اپنا آبائی گھر بنایا اور یہی پر رہائش پذیر ہوگئے۔ ہزارہ قوم کے افراد وقتاً فوقتاً مختلف ممالک سے کوئٹہ کا رخ کرتے رہے، لیکن 1880ء کی طرح بڑی تعداد میں ایک مرتبہ پھر ہزارہ قوم کا ایک بڑا حصہ 90ء کی دہائی میں افغانستان سے پاکستان کی جانب آیا۔ بڑی تعداد میں ہزارہ قوم کی یہ دوسری مہاجرت افغانستان میں طالبان کی حکومت کے قیام کے بعد شروع ہوئی، جو کہ عبدالرحمان خان کی طرح ہزارہ قوم پر ظلم و جبر کے قائل تھے۔ 1974ء کے بعد جب پاکستان میں قومی شناختی کارڈ کا اجراء ہوا، تو دیگر اقوام کی طرح ہزارہ قوم کو بھی لوکل ہونے کی حیثیت سے شناختی کارڈ بنوانے کا حق حاصل تھا، چونکہ اس سے قبل شناختی کارڈ کے حصول کیلئے قوانین وضع نہیں تھے، اسی وجہ سے ہزارہ قوم کا ہر فرد قومی شناختی کارڈ بنواتا گیا۔ بعدازاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قوانین میں ترامیم آتی گئیں اور یہ فیصلہ ہوا کہ جس شخص کے پاس 1978ء یا اس سے پہلے کا کوئی ثبوت موجود ہو، وہ پاکستانی شہریت رکھنے کا اہل ہوگا۔

2018ء کے انتخابات میں جہاں پاکستان کی دیگر جماعتیں انتخابی میدان میں اتریں، وہی ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے بھی اپنے امیدواروں کو میدان میں اتار دیا۔ حسین علی یوسفی نے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد 2004ء میں رکھی اور خود 26 جنوری 2009ء میں کوئٹہ کے جناح روڈ پر ٹارگٹ کلنگ کے واقعے میں شہید ہوگئے۔ اس کے بعد ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارت عبدالخالق ہزارہ کے ہاتھ میں دے دی گئی اور احمد علی کوہزاد اس جماعت کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں بھی عبدالخالق ہزارہ اور احمد علی کوہزاد انتخابات میں حصہ لیتے رہے، تاہم انہیں صوبائی یا قومی اسمبلی کی کسی بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی، تاہم 25 جولائی 2018ء کے حالیہ عام انتخابات میں حلقہ پی بی 27 سے عبدالخالق ہزارہ اور حلقہ پی بی 26 سے احمد علی کوہزاد دونوں صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوگئے۔ الیکشن سے قبل نادرا کی جانب سے احمد علی کوہزاد کا شناختی کارڈ منسوخ کر دیا گیا تھا۔ سب سے پہلے احمد علی کوہزاد نے نادرا میں اپنی شکایت درج کرائی، لیکن نادرا حکام نے احمد علی کوہزاد کے شناختی کارڈ کو بحال کرنے سے انکار کر دیا، جسکی وجہ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔

بعدازاں احمد علی کوہزاد نے بلوچستان ہائیکورٹ میں اپنے شناختی کارڈ کی بحالی کے حوالے سے کیس دائر کیا۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے شناختی کارڈ کی منسوخی کے باوجود احمد علی کوہزاد کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دیتے ہوئے 25 جولائی یعنی عام انتخابات کے بعد کیس کی آئندہ سماعت کا اعلان کیا اور نادرا حکام کو اس حوالے سے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کر دیا۔ عام انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر کامیابی کے بعد عدالت میں جب کیس کی دوبارہ سماعت ہوئی، تو ڈپٹی کمشنر کوئٹہ اور نادرا حکام نے احمد علی کوہزاد کے شناختی کارڈ سے متعلق اپنی رپورٹ جمع کرائی۔ ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کی رپورٹ کے مطابق احمد علی کوہزاد نے جعلسازی کے ذریعے کسی اور کے ریکارڈ میں اپنا اندراج کرا کر شناختی کارڈ حاصل کیا، جبکہ دستاویزات کے مطابق ان کی تاریخ پیدائش بھی والدین کی وفات کے دو سال بعد درج کی گئی ہے۔ نادرا حکام کی جانب سے مزید موقف اختیار کیا گیا کہ احمد علی کوہزاد کے شناختی کارڈ سے متعلق کیس کو وفاقی وزارت داخلہ بھیج دیا گیا ہے اور اس حوالے سے ابھی تک جواب موصول نہیں ہوا۔

جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس عبداللہ بلوچ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 7 اگست کو فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چونکہ ان کی پاکستانی شہریت سے متعلق معاملہ وزارت داخلہ میں زیر التواء ہے اور درخواست گزار نے نادرا قانون کے مطابق وزارت داخلہ میں شناختی کارڈ کی منسوخ سے متعلق اپیل بھی دائر کر رکھی ہے، جس پر اب تک فیصلہ نہیں آیا، اس لئے عدالت کوئی فیصلہ سنا کر زیر التواء معاملے پر اثرا نداز نہیں ہونا چاہتی۔ عدالت نے احمد علی کوہزاد کو ہدایت کی کہ وہ شہریت کی بحالی سے متعلق معاملہ وزارت داخلہ جا کر نمٹائیں، اس وقت اس معاملے پر سماعت کرنا عدالت کے آئینی اور قانونی دائرہ کار میں نہیں آتا۔ بلوچستان ہائیکورٹ نے نومنتخب رکن صوبائی اسمبلی کی درخواست خارج کرتے ہوئے معاملہ نمٹا دیا، جبکہ اسی وجہ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے صوبائی اسمبلی سے انکی کامیابی کا نوٹیفیکیشن بھی روک دیا گیا ہے۔ احمد علی کوہزاد کا معاملہ پرنٹ اور الیکڑونک میڈیا میں بھی گذشتہ کئی دنوں سے زیر بحث ہے۔

عام انتخابات سے قبل احمد علی کوہزاد نے حلقہ پی بی 26 کے عوام کو دھوکے میں رکھا اور ہر جگہ یہی کہتے رہے کہ ان کے شناختی کارڈ کا مسئلہ اتنا سنگین نہیں اور وہ بخوبی اسے حل کرلینگے۔ اسی طرح صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد پارٹی جلسہ عام سے کھلے عام خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "اگر میں اپنے منسوخ شدہ شناختی کارڈ کے ساتھ انتخابات جیتا ہوں تو آگے بھی بہت کچھ کرسکتا ہوں۔" علاوہ ازیں انتخابات سے قبل حلقہ پی بی 26 میں عوامی آگاہی کیلئے پورے علاقے میں انکے شناختی کارڈ منسوخی کے حوالے سے پمفلٹس بھی تقسیم کئے گئے، لیکن موصوف کو اور انکی جماعت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ نئی حلقہ بندیوں کے بعد پہلی مرتبہ حلقہ پی بی 26 سے ہزارہ قوم کے نمائندے کی کامیابی کے امکانات پہلے سے ہی روش ہوگئے تھے اور جیسا کہ پہلے بھی عرض ہوا کہ اسمبلی میں نمائندگی کی اہمیت کسی بھی قوم کیلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پر یہ فرض تھا کہ وہ ایسے امیدوار کو پارٹی ٹکٹ جاری کرتی، جن کا شناختی کارڈ پہلے سے منسوخ نہ ہوا ہوتا۔ اسی طرح احمد علی کوہزاد کی بھی یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے گریز کرتے ہوئے اپنی جگہ کسی دوسرے اہل شخص کو راستہ فراہم کرتے۔

اسی طرح احمد علی کوہزاد اپنے شناختی کارڈ کے مسائل کو حل کرکے آئندہ انتخابات میں بھی دوبارہ حصہ لے سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کی سیاسی تاریخ ہمیشہ چند مفاد پرست افراد کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ 10 مارچ 2015ء کو جنگ اخبار میں مذکورہ جماعت نے یہ بیان جاری کیا تھا کہ "علمدار روڈ اور ہزارہ ٹاؤن میں قائم تربیتی مراکز باعث تشویش ہیں، انتہاء پسند نظریات کیلئے نوجوانوں اور خواتین کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔" پارٹی کا یہی بیان انکی سیاسی ناپختگی اور قوم دشمنی کی عکاسی کرنے کیلئے کافی ہے۔ پاکستان میں آباد تقریباً تمام اقوام کی اپنی اپنی قومی سیاسی جماعت ہے، جو اپنی قوم کے حقوق کو حاصل کرنے کیلئے جمہوری جدوجہد میں سرگرم عمل ہیں۔ یہ جماعتیں اپنی مخالف پارٹیوں کو سیاسی تنقید کا نشانہ تو بناتی ہیں، لیکن پاکستان میں کبھی کسی جماعت کو مذہب کیخلاف برسرپیکار نہیں دیکھا گیا۔

یہ جماعت تو خود اپنی ہی قوم کے عقیدے کے خلاف ہے، یعنی دینی عقائد، دینی تعلیمات یا دینی روایات کا مذاق اُڑانا ہمیشہ سے انکی مرکزی پالیسی رہی ہے۔ امام حسین (ع) کی مظلومیت کیلئے عزاداری کرنے اور اشک بہانے کو ہزارگی طنزیہ لفظ اُوئے (رونے) کے نام سے تشبیہ دینا بھی اسی جماعت کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ کی ذہنی بیماری کا مُنہ بولتا ثبوت ہے۔ احمد علی کوہزاد کے شناختی کارڈ منسوخی کی وجہ سے پاکستان میں صدیوں سے آباد دیگر شیعہ ہزارہ قوم کے افراد پر ملکی میڈیا میں افغان مہاجر ہونے کا ٹپہ لگایا جا رہا ہے، جس کی تمام تر ذمہ داری بلاشبہ ٹکٹ جاری کرنے والی انکی اپنی جماعت ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 743185
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش