0
Thursday 9 Aug 2018 10:47

نئے پاکستان کا خواب

نئے پاکستان کا خواب
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

عام انتخابات 2013ء میں میاں نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کا مینڈیٹ تسلیم کرتے ہوئے اسے خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع دیا، اب یہ موقع پی ٹی آئی کو امتحان میں ڈالنے کے لئے دیا گیا یا ان کا مینڈیٹ تسلیم کیا گیا یہ اور بات، لیکن نواز شریف کا یہ اقدام خود ان کے گلے پڑ گیا۔ 2018ء میں پی ٹی آئی نے وفاقی حکومت بنانے کا مینڈیٹ حاصل کر لیا ہے۔ عمران خان انسانی ترقی کی بات کرتے ہوئے عوام کو موردِ نظر قرار دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس قدر عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ گورننس، قانون سازی، محکمانہ اصلاحات، انصاف کی فراہمی سمیت تمام امور شہریوں کو معاشی حالت بہتر بنانے اور آسودگی لانے پہ منتہج ہونگے۔ اسوقت پاکستان میں 73.6 فیصد لوگوں کی آمدنی فی کس دو ڈالر روزانہ سے کم ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے تمام وزرائے خزانہ اور اقتصادی مشیر عام شہری یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ وہ 15 ہزار روپے میں 4 افراد کے کنبے کا بجٹ بنا کر دیں تو پرہجوم پوسٹ بجٹ کانفرنسوں میں وزیر خزانہ، وزیر مملکت برائے خزانہ، ڈپٹی چیئرمین منصوبہ بندی کمیشن، چیئرمین سینٹرل بورڈ آف ریوینو، وزارت خزانہ کے اقتصادی مشیر اور سیکرٹری جنرل خزانہ میں سے ہر ایک نے ایک کنبے کا بجٹ بنا کر دینے کی بجائے، ان کے اس مطالبے کو سنا اَن سنا کر دیا۔

حکومتیں بجٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز پر عوام کو سستے داموں اشیاء فراہم کرنے کی پالیسی اپناتے ہوئے اکثر اعداد و شمار کی جادو گری سے کام لیتی رہیں۔ ہر حکومت کے مالی سال میں حکمرانوں کے شاہانہ اخراجات میں بے تحاشہ اضافہ ہوتا رہا۔ یہی وجہ کے اضافی اخراجات کی تفصیلات بجٹ دستاویزات میں شامل نہیں کی جاتی رہیں۔ البتہ ٹیکس نیٹ بڑھانے کی خوش خبری ضرور سنائی جاتی رہی۔ ترقی و خوشحالی کے تمام تر حکومتی دعووں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ عہد حکومت میں غیر ملکی قرضوں کا حجم 90 ارب دالر تک پہنچ چکا ہے۔ پی آئی اے، پاکستان سٹیل ملز، پاکستان ریلوے، کے ای ایس سی اور واپڈا ایسے تمام ادارے خسارے میں رہے۔ این ڈی پی (یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام) کی ایک مطبوعہ رپورٹ کے مندرجات کا مطالعہ مذکورہ اقتصادی ماہرین کو دعوتِ فکر و عمل دینے کے لئے کافی ہے۔ رپورٹ کے مندرجات کیمطابق پاکستان میں آبادی کے 44 فیصد افراد غربت کی آخری لکیر سے بھی نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں، ملک میں ایک کروڑ دس لاکھ بچے چائلڈ لیبر کا شکار ہیں، جن 75 فیصد بچوں کو سکولوں میں داخلہ ملتا ہے، ان میں سے 25 فیصد بچے پرائمری سے قبل ہی سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ صرف 27 فیصد بچے سیکنڈری سکولوں میں داخلہ لیتے ہیں۔

پاکستان میں 80 فیصد بیماریاں صرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، پانچ سال سے کم عمر کے 38 فیصد بچے کم خوراک اور بھوک کا شکار ہیں، صرف 20 فیصد حاملہ خواتین کو قدرے طبی سہولیات میسر ہیں، پاکستان میں 10 میں سے 7 افراد کسی نہ کسی جسمانی مرض کا شکار ہیں، جبکہ 10 میں سے 9 افراد ذہنی امراض میں مبتلا ہیں۔ اس رپورٹ کے اعداد و شمار کی تردید کی جا سکتی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ملک کی ایک قابل ذکر آبادی غربت کی لکیر سے نیچے حیوانی سطح پر زندگی بسر نہیں کر رہی۔ 20 کروڑ شہریوں میں سے چند کروڑ کو پینے کے صاف پانی کی بنیادی سہولت حاصل ہے۔ محنت کشوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے استحصال، محنت کشوں کے خلاف نافذ کیے گئے کالے قوانین، مہنگائی، بے روزگاری، نجکاری، کنٹریکٹ سسٹم کا خاتمہ کرے اور نیز یہ کہ مہنگائی کے تناسب سے ان کی تنخواہوں اور معاوضوں میں اضافہ کیا جائے۔ مہنگائی، بے روز گاری اور بے کاری نے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کے حصول کو بھی اس حد تک مشکل بنا دیا ہے کہ قومی روزناموں کے صفحات آئے روز کسی نہ کسی محنت کش کی بھوک، فاقے اور بے کاری کے ہاتھوں تنگ آکر خود کشی کے ارتکاب کی خبروں سے مزین ہوتے ہیں۔

معروف عالمی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں ملک کے لیبر قوانین میں کئی ایسی ترامیم کی گئیں، جن کے ذریعے محنت کش طبقے کے حقوق پر کاری ضرب لگی۔ ان میں نمایاں فیکٹری کلوز ڈے قانون کی ترمیم ہے، جس کے تحت اب ہفتے میں ایک روز کارخانہ بند کرنا ضروری نہیں رہا۔ محنت کش کے روزانہ اوقات کار کو 8 سے 12 گھنٹے کر دیا گیا ہے اور کنٹریکٹ نظام کی ایک ایسی شق صنعتی قانون میں شامل کی گئی ہے، جس کے بعد مالکان کو اختیار مل گیا اور مزدور مستقل ملازمتوں سے محروم کر دیئے گئے ہیں۔ اسی طرح سرکاری محکموں میں برطرفی آرڈیننس کا نفاذ بھی محنت کش طبقات اور ملازمین کے نزدیک بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے۔ لیبر قوانین میں کی گئی ترامیم کی وجہ سے لیبر کورٹ سے ایک محنت کش کے لئے انصاف کا حصول خاصا مشکل ہوگیا ہے۔ یاد رہے کہ محنت کش طبقات کو کسی ایک جلسہ، جلوس، سیمینار، سیمپوزیم اور ریلی سے خطاب کے دوران سنہرے مستقبل کے خواب دکھاتے ہوئے گا، گے، گی، کی راگنی الاپنے والے حکمران تادیر اپنی مقبولیت، محبوبیت اور ہر دلعزیزی کو قائم اور برقرار نہیں رکھ سکتے۔

اس ناپسندیدہ تناظر میں عوام پاکستان تحریک انصاف کی متوقع وفاقی حکومت سے توقع رکھتے ہیں کہ اس کے 5 سالہ آئینی دورانیہ میں پاکستان کی معاشی خود کفالت، اقتصادی خود انحصاری، صنعتوں کے فروغ، مقامی و بین الاقوامی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی، میرٹ کی بحالی اور عام آدمی کے معیار زندگی کی سرفرازی کو اپنی اولین ترجیحات میں نہ صرف نمایاں جگہ دیں گے، بلکہ عام آدمی کے سب سے بڑے مسئلے مہنگائی کے خاتمے کو یقینی بنائیں گے۔ پی ٹی آئی کو جیت کے بعد حقیقت میں ڈلیور کرنا ہوگا، ورنہ عوام اسے بھی روایتی اور کرپٹ پارٹی تصور کر لیں گے۔ عوام یہ بھی جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے کے پی کے میں پانچ سال ملے، صوبہ دہشت گردوں سے بھرا ہوا تھا، پھر بھی بہت زیادہ مثالی نہیں لیکن وہاں کا نظام پہلے سے کہیں زیادہ بہتر دکھائی دیتا ہے۔ اب عمران خان کو اپنے 100 دن کے پلان پر بھی عمل کرنا ہے۔ آج پی ٹی آئی ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہے، کیونکہ یہ ہمارا آج ہے، آنے والا کل ان شا ءاللہ اس سے کہیں بہتر، برتر اور خوبصورت ہوگا۔ آج ایک تیسری پارٹی کو اگر عوام نے موقع دیا ہے تو یہ مرحلہ یوں ہی نہیں آیا، بلکہ اس کے پیچھے محنت، ہلچل اور موجودہ سیاسی اجارہ داری کو اُکھاڑ پھینکنے کا جذبہ موجود ہے۔

اسلام آباد دھرنوں سے لے کر پانامہ کیس اور اس کے فیصلے تک کی ملکی صورت حال اور عوام کو دی جانے والی آگاہی کا سفر بھی موجود ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے ملک بھر میں الیکشن کی تیاریاں زور و شور سے جاری رہیں، سکروٹنی کا عمل پہلے سے زیادہ سخت رہا، اس معاملے میں سپریم کورٹ پہلے سے زیادہ فعال نظر آئی۔ نااہلیاں بھی تیزی سے ہوئیں اور بحالیاں بھی۔ ہر حلقے میں سالہا سال تک ملک و قوم کو لوٹنے والوں کے استقبال کی ذمہ داری خود عوام نے لے لی۔ اس قدر شعور پیدا کرنے میں میڈیا اور سوشل میڈیا نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ ایسے میں ہر سیاستدان نے پھونک پھونک کر قدم رکھا۔ جس سیاستدان کی کہیں کرپشن نظر نہیں آئی، اُس کی ذاتی زندگی پر پے در پے وار کئے گئے۔ اس قسم کے حملوں کا نشانہ سب سے زیادہ عمران خان کو بنایا گیا۔ حالانکہ شہباز شریف، حمزہ شہباز، خواجہ سعد رفیق، آصف زرداری سمیت بہت سے سیاسی رہنماﺅں کی ذاتی زندگیاں ہنگاموں سے بھری پڑی ہیں، لیکن الیکشن مہم کے دوران عمران خان کی ذاتی زندگی قوم کا اور خصوصاََ کرپٹ سیاسی پارٹیوں کے لئے نمبر ون مسئلہ بنی رہی۔

حالانکہ کون نہیں جانتا کہ ہمارا اصل مسئلہ کرپشن ہے، جس کے بچے غربت، لاقانونیت اور میرٹ کی پامالی ہیں، تو آپ خود ہی فرمایئے کہ کرپشن میں کون اپنا ثانی نہیں رکھتا؟ کس نے ہماری آنے والی نسلوں تک کو قرض کے بوجھ تلے دبا دیا؟ کس نے 5 برس کے دوران ملکی قرض میں 10 ارب ڈالر کا ریکارڈ اضافہ کیا اور کس نے 4 سال میں 35 ارب ڈالر کے اضافے سے ایک نیا ریکارڈ بنا ڈالا، پھر بھی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے اتنی خراب ہوگئی کہ زرِ مبادلہ کے ذخائر سکڑ کر دو مہینے کے لئے رہ گئے، جبکہ انکی کم از کم حد تین مہینے کے لئے ہونی چاہیے؟ کس نے اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے ملک و قوم کو کنگال کر دیا؟ ملک کو دو دو ہاتھوں سے لوٹ کر بھی کیا میاں برادران اور زرداری اینڈ سَن کو توفیق ہوئی کہ اپنی جیب سے معمولی رقم بھی فلاحِ عامہ کے کسی منصوبے پر لگا سکیں، کیا پاکستان کے امیرترین لوگوں میں عمران خان کا شمار ہوتا ہے یا نواز شریف اور آصف علی زرداری کا؟ دو دو تین تین مرتبہ اقتدار کس کو ملا؟ کون جھوٹ پر جھوٹ بولتا رہا۔؟

پہلے 100 روزہ پلان، جو بھی ہو نیت صاف ہوگی تو عمران خان سرخرو ہوں گے، ورنہ ان کے لئے مشکل کے پہاڑ کھڑے کرنے والے بہت سے ہوں گے اور اب تو سنا ہے کہ یہ دونوں بڑی پارٹیاں الیکشن کے بعد خوب شور مچانے کا باقاعدہ پروگرام رکھتی ہیں۔ عوام کے ہاں اس پروگرام کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور سب کی نظریں اس پر ہیں کہ جلد از جلد حکومت تشکیل پائے، تاکہ وہ اس پروگرام پر عمل درآمد ہوتا دیکھیں اور اس کے ثمرات سے مستفید ہوں۔ اگر دیکھا جائے تو عوامی مفاد کا اوّل اور آخر تو اس پروگرام پر عملدرآمد سے ہی جڑا ہوا ہے۔ چنانچہ آنے والی حکومت اس بارے میں ہمہ وقت باخبر رہے کہ تمام نظریں اس انقلابی ایجنڈے پر ہی مرتکز ہوں گی۔ نئے پاکستان کی تعمیر میں میڈیا کا یہ حصّہ ہوگا کہ وہ حکومت کو اس کی ترجیحات تواتر سے یاد دلاتا رہے اور قارئین اور ناظرین کو رونما ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ رکھے۔

پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ترجمان کے حال ہی میں دیئے گئے اس بیان پر توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے فیصلہ کیا ہے کہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کو تحریکِ انصاف کے لئے آسان نہیں بننے دیں گے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کے کچھ اور رہنماؤں نے بھی حال ہی میں اسی قسم کے بیانات دیئے اور ان بیانات کے پیچھے حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارادے صاف نظر آ رہے ہیں کہ ان کی پوری کوشش ہوگی کہ آنے والی حکومت کے لئے معاملات کو مشکل سے مشکل تر بنایا جائے؛ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا سیاست کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ معاملات کو ایک دوسرے کے لئے مشکل بنایا جائے؟ کیا ایسی سوچ کے ساتھ بہترین مفادات حاصل ہوسکتے ہیں؟ کیا کبھی ایسا بیان بھی پڑھنے کو ملے گا، جس میں کہا گیا ہو کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ، ملکی اور عوامی مفاد میں حکومت کو تمام جماعتوں کی بھرپور حمایت اور اعانت حاصل ہوگی۔؟
خبر کا کوڈ : 743448
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش