3
1
Friday 10 Aug 2018 14:51

شخصیت سازی، عوامل اور اثرات

شخصیت سازی، عوامل اور اثرات
تحریر: سید سرفراز حسین نقوی
(قلم کار طلبہ تنظیم سابق مرکزی صدر ہیں)


عموماً ہمارے ہاں معاشرتی اور اخلاقی موضوعات پر بات کم ہوتی ہے، اگر ہوتی بھی ہے تو اس کی نشر نہ ہونے کے برابر ہے۔ بہرحال ان موضوعات پر بات کرنا اور ان موضوعات کی تعلیم ہمارے معاشرے کی روٹی، کپڑا، مکان، روزگار کے ساتھ اشد ضرورت ہے۔ معاشرے میں روٹی، کپڑا، مکان اگر میسر ہو بھی جائے اور اخلاقیات کا فقدان موجود رہے تو کبھی بھی معاشرے میں امن و سکون نہیں آ سکتا۔ روزگار سے اخلاقیات نہیں آ سکتی اس کا واحد ذریعہ تعلیم و تربیت ہے۔ لہٰذا  اہل علم و دانش کی تحریروں اور تقریروں سے مستفید ہونیکے ساتھ ساتھ انہیں نشر بھی کرنی چاہیں۔ ہماری یہ حقیر سی کاوش اہل علم و دانش سے سیکھی باتوں کا ثمر ہے۔ لہٰذا یہ کافی نہیں، بلکہ اس موضوع پر تواتر سے بات اور ترویج کی ضرورت ہے۔ بہرحال ہم موضوع کی طرف آتے ہیں۔ اس موضوع کو اگر تمہید اور پھر تفصیل کی صورت میں پیش کیا جائے، تو کالم کے ظرف سے کافی وسیع ہو جائے گا۔ مختصراً بیان کرتے ہوئے عرض ہے کہ انسان کی شخصیت سازی میں کچھ عوامل کارفرما ہیں۔ ان تاثیر گزار عوامل مین سب سے پہلے معاشرے کا ذکر کریں گے، البتہ یہ بحث باقی ہے کہ فرد معاشرے پر اثر انداز ہوتا ہے یا پھر معاشرہ فرد پر۔ بہرحال یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ معاشرہ اعلیٰ انسانی صفات کی تعمیر میں اثر انداز ہوتا ہے۔

معاشرہ انسانی سیرت کا تعین کسی حد تک کرتا ہے، انسان کے سوچنے کے انداز کو، انسان کے عمل کی اخلاقی عادات کو۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مثال پیش خدمت ہے۔ کوئی بھی شخص بازار میں اپنے کپڑے اور جوتے خریدتے وقت ایک ہی چیز کو مدِنظر رکھتا ہے کہ میں کیسا لگوں گا۔ اگر ہم غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ انسان دراصل اپنے ساتھ رہنے والے لوگوں کو متاثر کرنے کا سوچتا ہے یا دیکھتا ہے کہ آج کل لوگ کس قسم کے سوٹ اور جوتے پہنتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان کی سوچ دوسرے افراد کی پسند ناپسند سے متاثر ہے اور سوچ ہی عمل میں بدلتی ہے اور عمل سے ہی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے۔ ماحول سے نہ صرف انسان کا رہن سہن متاثر ہوتا ہے، بلکہ عقائد و نظریات بھی ہوا کی طرح رخ بدلتے رہتے ہیں.اگر معاشرہ بہتر ہو گا اس میں پروان چڑھنے والے افراد بھی اچھے ہوں گے۔ بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے، جہاں بد عنوانی، رشوت، بد اخلاقی، عدم احترام، دھوکہ، غلط بیانی، جھوٹ اپنے عروج پر ہے۔ جبکہ خوش اخلاق، ہمدردی، ایثار، احترام، سچ جیسی صفات ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی، آج کا معاشرہ حضرت علی علیہ السلام کے اس فرمان کا عکاس ہے کہ ‏لوگوں پر ایک زمانہ آنے والا ہے، جب صرف لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا مقرب بارگاہ ہوا کرے گا اور صرف فاجر کو خوش مزاج سمجھا جائے گا اور صرف منصف کو کمزور قرار دیا جائے گا، لوگ صدقہ کو خسارہ صلہ رحم کو احسان اور عبادت کو لوگوں پر برتری کا ذریعہ قرار دیں گے۔

اس معاشرہ میں انسان سازی مشکل، البتہ حیوان سازی آسان ہے۔ بہرحال اگے بڑھتے ہیں، سکول بھی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتا ہے،  پانچ سے چھ سال کی عمر سے بچہ زندگی کا بڑا اور ابتدائی حصہ سکول میں گزارتا ہے۔ سکول دراصل تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ عمر کے اس حصے میں سیکھنا بہت آسان ہوتا ہے. لہزا عمر کے اس حصے میں تعلیم و تربیت عمارت کی بنیاد رکھنے کہ مانند ہے۔
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سیکھائے کس نے اسمعیل کو آداب فرزندی

لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچے کو رٹہ لگوا کر زیادہ نمبر گیم میں جیتنے کی کوشش تو کی جاتی ہے، مگر اخلاقیات کا ایک باب بھی نہیں کھولا جاتا۔ کتابوں کی تحریر کہ ایک ایک لفظ کو تو ذہن نشین کروایا جاتا ہے،  مگر اخلاقی قدروں کا تعارف بھی نہیں ہوتا، پڑھا لکھا تو بن جاتا ہے مگر انسان نہیں۔ لہذا سکول مالکان کا کاروبار تو چمک جاتا ہے، مگر معاشرے کا مستقبل تاریکی سے باہر نہیں آتا۔ اکثر دیکھنے کو ملے گا، کالجز سے باہر قوم کا مستقبل  سگریٹ کے کش لگاتا ہے۔ بس، رکشہ گاڑی والوں سے الجھتا ہے، ایک دوسرے کا گریبان چاک کر کے طاقت کے جوہر دیکھاتا ہے۔ اگر ہم اس خوش فہمی میں ہیں کہ چلیں تعلیم میں تو بچے اچھے رہتے ہیں، رٹہ لگا کر اچھے مارکس لیتے ہیں اور اچھی نوکری مل جاتی ہے، تو جناب دنیا میں پڑھائی کا مقصد بالکل یہ نہیں اور یہی وجہ ہے، ہم ریسرچ کے میدان میں بہت پیچھے ہیں، یہ الگ موضوع ہے۔ اب ہم بات کریں گے گھر کی۔

بچہ کی اولین تربیت گاہ ماں کی گود اور گھر کا ماحول ہے۔ والدین کی عادات بچے کی شخصیت سازی کیلئے زمینہ فراہم کررہی ہوتی ہیں۔ جس طرح گھر کا ماحول ہو گا، بچے کی تربیت بھی اسی طرز کی ہوگی۔ گھر میں لائبریری ہوگی تو بچہ کا رجحان تمام عمر کتب بینی کی طرف ہو گا۔ والد سگریٹ پیئے گا تو بیٹا بھی پیئے گا۔ گھر میں جھوٹ بولا جائے گا تو اولاد بھی جھوٹ بولے گی۔ گھر میں بداخلاقی ہو گی تو اولاد میں بداخلاقی ہو گی۔ ناصرف یہ بلکہ یہ بات مسلم الثبوت ہے کہ حلال و حرام رزق کا بھی انسان سازی میں عمل دخل ہے۔ ایک مثال سے اس بات کی وضاحت کرتے ہیں۔ بیان ہوا کہ ایک عالم دین کی خدمت میں ایک شخص اپنی مشک سمیت حاضر ہوا، تو عالمِ دین کے بیٹے نے مشک میں سوراخ کر دیا اور تمام پانی ضائع ہو گیا۔  اس شخص نے مولانا صاحب کے حضور بچہ کی حرکت کی شکایت کی، تو مولانا صاحب معذرت کے بعد سوچ میں پڑ گئے کہ بالآخر میں نے  کونسا ایسا کام کیا ہے کہ جس کی وجہ سے بیٹے نے یہ حرکت کی۔

مولانا صاحب کسی نتیجے پر نہ پہنچے، تو انہوں نے اس کا ذکر اپنی بیوی سے کیا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا کبھی انہوں نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کا اثر بچے کی تربیت پر پڑا ہے، تو کافی سوچ بچار کے بعد محترمہ نے کہا یاد آیا........ میں نے ایک دفعہ پھل خریدنے کی نیت سے پھل فروش کی اجازت کے بغیر نوکیلی چیز کے ذریعے پھل کا ذائقہ چکھنے کی خاطر کچھ حصہ لیا تھا۔ یقیناً اس عمل کا اثر ہو گا۔ تو ثابت یہ ہوا کہ گھر میں لایا جانے والا رزق بھی انسان سازی میں اثرانداز ہوتا ہے۔ پس انسان سازی میں گھر کا بڑا عمل دخل ہے۔ بحیثیت یونیورسٹی کے طالب علم میرے مشاہدے میں یہ حقیقت بھی ہے کہ یونیورسٹی کا ماحول بھی انسان سازی پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ یونیورسٹی میں داخلہ کے بعد انسان کا لباس، اخلاق، رہین سہن یکسر تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ سب کچھ یونیورسٹی کے ماحول کی بدولت ہے۔ یونیورسٹی انسانی زندگی میں اس لیے بھی اہم ہے کہ عمر کہ اس حصے میں نوجوان اپنے بارے میں فیصلہ کرنے مکمل آزادی رکھتا ہے۔

اگر اس موقع پر اسے بد اخلاقی، بد عنوانی، رشوت اور اس جیسے دیگر برائیوں کے نقصانات منطقی لحاظ سے سمجھا دیا جائے اور ایسا ماحول بھی دیا جائے تو بعید نہیں کہ معاشرہ بدل جائے۔ ماحول کے عنوان سے یہ سوچ ذہن میں آتی تھی کہ اگر پچاس فیصد یا اس سے بھی کم لڑکیاں حجاب کرنا شروع کردیں تو باقی بغیر تبلیغ کے باحجاب ہو جائیں گیں۔ مشکلات کا سامنا کرنا، اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا، دوسروں کے ساتھ وقت گزارنا... یہ سب  نوجوان ھاسٹل میں گزارے دنوں سے سیکھتا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ فارغ التحصیلان کے پاس ڈگری تو ایک جیسی ہوتی ہے مگر شخصیت مختلف۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ بالغرض اگر انسان ان تمام ذرائع سے اپنے آپ کو سنوار نہ سکے تو اور بھی ذرائع ہیں جن سے انسان اپنی شخصیت کی تعمیر کر سکتا ہے۔ تو جواب میں چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔ علماء نے قرآن و سنت کی رہنمائی میں اخلاقی بیماریوں کی نشاندہی کی ہے اور ان کا علاج بھی تجویز کیا ہے۔ اگر ہم شخصیت سازی کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہیں تو یہی کہا جائیگا کہ نفس کی آراستگی... بعض افراد تو نفس کی آراستگی کی خاطر مشقیں بھی کرتے ہیں۔ مثلاً قبرستان چلے جانا، ہسپتال کا دورہ کرنا اور اپنے مقام مرتبے سے کم حثیت والے کام انجام دینا، تاکہ عبرت حاصل کی جائے اور غرور جیسی بری صفت کا خاتمہ اور عاجزی و انکساری جیسی اعلی صفات کو پروان چڑھا یا جائے۔ شیطانی صفات سے دوری اور الہی صفات کو اختیار کیا جاسکے۔ غصہ پہ قابو پانا ایک اعلیٰ صفت ہے، غصہ کی حالت میں انسان عقل سے عاری ہو جاتا ہے۔ حق پہ ہونے کہ باوجود اپنا موقف بیان نہیں کر سکتا، دلیل کھو بیٹھتا ہے، غلط فیصلے کرتا ہے، دوسروں کی نظر میں اپنے مقام و مرتبہ کو کم کرتا ہے۔

معاشرے میں دیکھا جائے تو بہت سے جانی و مالی نقصانات کے پیچھے ایک ہی محرک ہے غصہ۔ اگر غصہ پہ قابو پالیا جائے تو  انسانی شخصیت نکھرتی ہے، تحمل اور بردباری ایجاد ہوتی ہے، سوچنے، سمجھنے اور سمجھانے کی صلاحیت بڑھتی ہے، لوگوں میں احترام بھی بڑھتا ہے۔ جھوٹ... مجھے اس واقعہ کی سند کا نہیں پتا، البتہ سنا کرتے تھے کہ ایک بندہ رسول خداؐ کی خدمت میں پیش ہوا اور عرض کیا کہ حضؐور مجھے آپ ایسی ہدایت کریں جس کی وجہ سے میں تمام گناہوں سے پاک ہو جاؤں تو رسولِ خداؐ نے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو.... تو وہ شخص جب بھی کوئی گناہ کا سوچنا تو یہی بات اسے گناہ کرنے سے روک لیتی کہ رسول خداؐ نے پوچھ لیا، تو کیا کہوں گا جھوٹ تو بول نہیں سکتا۔ بالآخر اس نے تمام گناہوں سے جان چھڑوا لی۔  جبکہ جھوٹ سے شخص کا مقام و مرتبہ، عزت و احترام کم ہوتا ہے۔ ایک جھوٹ کو چھپانے کے لئے مزید جھوٹ بولتا ہے اور یہ سلسلہ پھر پوری زندگی چلتا ہے اور بلاآخر غلط بیانی دھوکہ دہی، اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے، جس سے پھر جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔

یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جو شخص جھوٹ نہیں بولتا وہ نڈر، بے خوف اور مستحکم شخصیت کا حامل ہوتا ہے۔ اُس پر لوگ اعتماد کرتے ہیں اور سچ بولنے والا شخص کبھی بھی زندگی میں ناکام نہیں ہو سکتا۔ حسد بھی ایک ایسی بیماری ہے، جس سے انسان صرف اپنا نقصان کرتا ہے۔ حسد کا اثر انسان کے جسم و روح دونوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ حسد سے کبھی کامیابی نہیں ہوتی، بلکہ ہدف کو حاصل کرنے کا حوصلہ کم، اچھی تدبیر کرنے میں ناکامی اور مواقع کے استفادہ کرنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ بدگمانی بھی معاشرے میں فساد کی جڑ ہے۔ معاشرے میں بیشتر اختلافات اور لڑائیوں کی وجہ بدگمانی ہے۔ ہمیشہ کمزور انسان ہی بدگمانی کا سہارا لیتا ہے۔ جبکہ باہمت لوگ اظہار خیال سے اختلافات کی جڑ کو اکھاڑ پھینکتے ہیں۔ بدگمانی غصہ اور نفرت جیسی بری صفات کو پروان چڑھاتی ہے، جو انسانی تخریب کا باعث بنتی ہیں اور شخصیت سازی کا عمل رک جاتا ہے۔

پس بدگمانی سے اجتناب خوشحال زندگی کی ضمانت ہے۔ ایثار و ہمدردی بھی آراستگی نفس کا بہت بڑا ذریعہ ہے، ایثار و قربانی انسان کو بڑا بنا دیتی ہے، ایثار قربانی سے معاشرے میں محبت پھیلتی ہے،  ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرنے والے انسان کیلئے بھی معاشرے ہمیں احترام اور حوصلہ و ہمت بڑھتا ہے، انسان میں خود اعتمادی پرواں چڑھتی ہے۔ اسی طرح درگزر  اور معاف کرنے سے بھی خوداعتمادی، ذہنی اطمینان اور بردباری میں اضافہ ہوتا ہے، درگزر کرنے والا انسان خود بہت کم غلطیاں کرتا ہے۔ اسی طرح عاجزی و انکساری، مثبت سوچ، دوسروں کا احترام کرنا، دوسروں کو عزت دینا، اچھے کاموں کی دعوت دینا، بولنے میں نرمی، غیبت سے دوری۔ اگر انسان ان صفات کی مشق کرے تو وہ اُس چیز کو پالے گا جن کی تمام افراد کو تمنا ہے۔ جس کی خاطر ہر فرد تگ و دو کرتا ہے یعنی سکون۔ اور ایسا بن جائے گا کہ جب وہ کسی سے ملے تو لوگ اسے دوبارہ ملنے کی تمنا کریں اور جب دنیا سے رخصت ہو، تو لوگ اس کیلئے گریہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 743676
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عرفان
Pakistan
ایک اچھی تحریر. شکریہ
سبطین
Pakistan
ماشاء الله
عیشم
Pakistan
اس طرح کا اور میٹریل دیا جائے۔
ہماری پیشکش