0
Sunday 12 Aug 2018 18:33

پاراچنار، مرکزی امام بارگاہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش(1)

پاراچنار، مرکزی امام بارگاہ کی قیادت کو کمزور کرنے کی کوشش(1)
رپورٹ: روح اللہ طوری

2018ء الیکشن میں حصہ لینے کے لئے حلقہ این اے 46 کرم 2 سے لگ بھگ 26 امیدوار میدان میں اترے۔ جن میں سے تقریباً چھ زیادہ طاقتور تھے۔ جن کے نام یہ ہیں۔
1: ساجد حسین طوری (پی پی پی)، 2: سید اقبال میاں (پی ٹی آئی) 3: سید ارشاد حسین (آزاد) 4: ابرار حسین جان (آزاد) 5: محمد حسین طوری (آزاد) 6: محترمہ علی بیگم (آزاد)
الیکشن 2013 میں مرکز (انجمن حسینیہ اور پیش امام) کی جانب سے مخصوص امیدوار (ساجد طوری) کی حمایت اور دیگر کی بھرپور مخالفت کی وجہ سے کرم میں شیعوں کے مابین حالات نہایت کشیدہ ہونے کے باعث اس مرتبہ مرکزی جامع مسجد کے پیش امام فدا حسین مظاہری، سیکریٹری انجمن حاجی نور محمد نیز تحریک حسینی کے صدر مولانا یوسف حسین اور دیگر رہنماؤں نے متفقہ فیصلہ کیا کہ 2018ء کے الیکشن میں کسی مخصوص امیدوار کی حمایت یا مخالفت نہیں کی جائیگی۔ چنانچہ اسی فیصلے پر دونوں فریق سختی سے کاربند رہے۔ تاہم الیکشن مہم کے ابتدائی ایام یعنی 10 رمضان المبارک اور بعد کے کچھ دنوں میں ایک امیدوار ممتاز بھائی کے کہنے پر مولانا گلاب حسین شاکری نے رات کے وقت گھر گھر جاکر الیکشن مہم شروع کی۔ مولانا فدا مظاہری اور سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی نور محمد کو جب اس بات کا علم ہوگیا تو جاکر انہیں آرام سے بٹھایا، اور متنبہ کیا کہ آئندہ ایسا نہ کریں۔ انہوں نے وعدہ کیا۔ تاہم وہ پھر بھی باز نہ آئے اور رات کے اوقات میں وہ برابر انتخابی مہم پر نکلتے رہے۔ دوسری بار بھی انہیں متنبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ اگر آپکی مجبوری ہے تو مرکز چھوڑ کر کسی اور جگہ سے بیشک مہم چلائیں۔ مگر وہ پھر بھی جب باز نہیں آیا تو انہیں بٹھا کر اپنے فیصلے سے آگاہ کیا کہ اب مرکز میں آپ کی ضرورت نہیں، لہذا ایک ہفتے کے اندر اپنا بندوبست کرکے یہاں سے نکل جائیں۔

اس پر انہوں نے وعدہ کرتے ہوئے اور منت سماجت کرکے معاف کئے جانے کی التجا کی، تو اس مرتبہ بھی انہیں آخری وارننگ کے ساتھ، معاف کیا گیا۔ مگر وہ کچھ افراد خصوصاً ممتاز بھائی کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنی مہم سے باز نہیں آئے۔ چنانچہ مولانا فدا مظاہری نے رمضان کے ایک پرہجوم نماز جمعہ کے اجتماع میں قوم کو اشارتاً ایسی سازشوں سے آگاہ کیا۔ مجمع نے مولانا فدا مظاہری کی حمایت میں نعرے لگائے۔ پیش امام اور انجمن حسینیہ نے گلاب شاکری شاکری کو فورا نکل جانے کا حکم جاری کیا۔ مگر تعمیل حکم کی بجائے انکے کارندوں نے مزید سازشوں کا جال بچھا دیا۔ اور آقائے مظاہری اور انجمن حسینیہ کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے، ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ یہاں تک کہ نکل جانے کیلئے یہ شرط رکھی کہ جب تک فدا مظاہری پاراچنار میں ہیں وہ یہاں سے کسی قیمت پر نہیں نکلیں گے۔ متعدد مخیر حضرات نے جاکر شاکری صاحب سے التجا کی کہ آپ کی وجہ سے خون بہے گا۔ انہوں نے قرآن پر زور سے ہاتھ مار کر قسم اٹھائی کہ اس قرآن کی قسم، جب تک خون نہیں بہتا، یہاں سے نہیں جاؤنگا۔ 

6 جولائی کا خطبہ جمعہ
رمضان المبارک کے بعد، الیکشن سے قبل جمعہ 6 جولائی 2018ء کو خطبہ جمعہ میں علامہ فدا حسین مظاہری نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا، کہ کچھ لوگ مجھ پر اثر انداز ہوکر اپنی مرضی کے کام چلانا چاہتے ہیں وہ یہ کہ فلاں شخص کو مدرسے اور مسجد میں رکھو اور فلاں کو مرکز سے نکالو۔ جب میں انکی املا قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں تو مجھے دھمکیاں دی جاتی ہیں، کہ ایسا نہیں کیا تو تیری خیر نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ میرا مشن قوم کے مابین اتحاد واتفاق بحال رکھنا ہے۔ اسی مشن کے حصول کی خاطر الیکشن کے بعد ان تمام مومنین اور تنظیموں کو میں دوبارہ یہاں لاکر مرکز کو مضبوط کروادونگا، جو کسی وجہ سے روٹھ کر یہاں سے چلے گئے ہیں، اور یہ کہ اسکے بعد کسی املا اور حکم کو قبول نہیں کیا جائیگا۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ مجھے یقین ہے کہ جس دن قوم میں نفرت کی باتیں شروع کروں تو یہ (شرپسند) لوگ لبیک مظاہری کہنا شروع کردیں گے۔ مگر یہ انکی بھول ہے، میں انکی یہ مذموم خواہش کبھی پوری کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ کچھ بھی ہوجائے۔ انہوں نے ایک تجویز بلکہ پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ٹھہرنے اور پیش نماز کی  حیثیت سے براجماں رہنے کی انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ لوگ بیشک آیۃ اللہ سیستانی کی خدمت میں جائیں، اور ان سے امام بارگاہ اور مسجد کے امور کی تحریری اجازت اور وکالت حاصل کرکے آجائیں، تو بندہ خود ہی یہ منصب چھوڑ کر بلا کسی مزاحمت کے انکے حوالے کر دے گا۔ تاہم چور دروازے سے آنے کی کسی بھی کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دونگا۔ یہ تھا، انکی جمعہ 6 جولائی تقریر کا خلاصہ۔ 

اسکے بعد 25 جولائی کو الیکشن منعقد ہوگئے، الیکشن سے ایک دن قبل، یعنی 24 جولائی کو بعد از مغرب سیاسی جلسے جلوسوں پر مکمل پابندی ہونے کے باوجود، ساجد طوری کے گھر (طوری ہاؤس) میں ایک بہت بڑا جلسہ منعقد ہوا، جس میں ساجد طوری کے سابق سیکریٹری جلال حسین نے عوام سے خطاب کے دوران ڈائریکٹ مرکزی جامع مسجد اور انجمن حسینیہ پر لفظی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ آج لوگ دیکھیں کہ قوم کہاں کھڑی ہے اور مرکز کی حیثیت کیا ہے، اور یہ کہ کل لوگ ملاحظہ کریں گے کہ قوم ساجد طوری کے ساتھ ہے یا وہاں، (مرکزی امام بارگاہ کی جانب اشارے کیا۔) خیال رہے کہ ساجد طوری کے ساتھ کھڑے اکثر عمائدین گلاب شاکری کے حمایتی اور علامہ فدا حسین مظاہری کے مخالف تھے۔ 

مہم کے دوران، مرکز کے نام پر سیاست:
انتخابی مہم کے دوران مرکز خصوصاً آقائے محمد نواز عرفانی سے وابستگی ظاہر کرنے والے امیدواروں نے اپنی تصاویر کے ساتھ نواز عرفانی کی تصویر لگا رکھی تھی، انکی کوشش تھی کہ خود کو مرکز کا واحد نمائندہ اور امیدوار ثابت کرکے الیکشن میں کامیابی حاصل کریں۔ اس دوران انہوں نے مرکزی انجمن حسینیہ کے سیکریٹری حاجی نور محمد کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کی، کہ وہ مرکز سے انکا اعلان کریں، اس دوارن انہوں نے مبینہ طور پر حاجی صاحب کو ساٹھ لاکھ روپے کی پیش کش بھی کی، بقول حاجی نور محمد کے، پچیس لاکھ روپے کی پیشکش ہوئی تھی۔ تاہم حاجی نور محمد نے غیر جانبدار رہتے ہوئے ہر قسم کی آفر کو مسترد کردیا۔ بقول حاجی نور محمد کے ممتاز بھائی نے رات کو انکے گھر آکر پچیس لاکھ روپے کی ڈبل کیبن گاڑی کی چابیاں دیکر انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کا مطالبہ کیا، جسے انہوں نے مسترد کردیا۔ مسترد کرنے پر ممتاز بھائی نے دوٹوک انداز میں دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اسکا نتیجہ تجھے الیکشن کے بعد خود ہی بھگتنا پڑے گا۔ 

الیکشن کے دوران اور اسکے بعد شاکری اور انکا گروپ زمینہ سازی میں مصروف رہا، تا آںکہ 8 اگست کو علامہ زاہد حسین زُہدی (نمائندہ علامہ شیخ محسن علی نجفی جوکہ پاکستان میں آیۃ اللہ سیستانی کے وکیل اور نمائندے ہیں) ، علامہ رمضان توقیر (نمائندہ علامہ سید ساجد علی نقوی قائد ملت جعفریہ) اور علامہ اعجاز حسین حیدری (نمائندہ آیۃ اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی) نے پاراچنار کا دورہ کیا۔ انہوں نے پاراچنار آکر مختلف عمائدین خصوصاً علمائے کرام سے ملاقاتیں کرکے اس  معاملے کی پوری حقیقت نیز اس حوالے سے انکا موقف معلوم کیا۔ دو دن تک انویسٹی گیشن کے بعد علمائے کرام معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ اور انہوں نے بدھ 8 اگست کی رات شیخ گلاب شاکری کے ساتھ بیٹھ کر اسے معاملے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مظاہری صاحب بطور پیش امام، پرنسپل مدرسہ اور وکیل مجتہد کے مرکز کے ماتحت تمام اداروں کے مختار کل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ لہذا آپ سمیت کسی بھی شخص کو یہاں رکھنے یا نکال باہر کرنے کا انہیں پورا اختیار حاصل ہے۔ اس دوران انہوں نے یہ وعدہ بھی کیا کہ آپ کو اسلام آباد میں ایک اہم مسجد کی امامت، مفت رہائش گاہ نیز یہاں سے جانے کے لئے گاڑی کا بندوبست کیا جاچکا ہے۔ (جسکا ذکر ذیل میں درج شدہ علماء کے فیصلے میں بھی موجود ہے۔)
۔۔۔جاری ہے۔۔۔
خبر کا کوڈ : 744169
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش