0
Monday 13 Aug 2018 00:56

حقیقی وارث انبیاؑء کون ہے؟

حقیقی وارث انبیاؑء کون ہے؟
تحریر: نادر بلوچ

جب ہم اللہ تعالیٰ کی لاریب کتاب قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں اور تاریخ کو پڑتے ہیں تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ بعثت ابنیؑاء کا مقصد انسان کوضلالت و گمراہی سے نکالنا ہے، تزکیہ نفس کرنا ہے، گروہوں اور ٹکروں سے نکال کر ایک امت بنانا ہے۔ اخلاق کو درست کرنا ہے، گم راہی سے نجات دلانا ہے، انسان کو اس کے کمال تک پہنچانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل نظر آنا ہے، ایسی تربیت کرنا ہے کہ وہ معاشرے پر اپنا اثر چھوڑے، نہ کہ معاشرہ اس پر اثر ڈالے۔ انسان کے باطن کو پاک کرنا، سیدھے رستے پر چلانا ہے، جسے قرآن مجید نے صراط مستقیم  سے تعبیر کیا ہے اور اس سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ وہ جو کہتے تھے اس پر عمل پیرا نظر آتے تھے۔ انبیاء کرام اپنے عمل سے لوگوں کو تعلیم دیا کرتے تھے۔

طول تاریخ کے مطالعہ سے یہ بھی چلتا ہے کہ تمام انبیاؑء کا ہدف اور مقصد ایک ہی تھا اور وہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی تھی، تمام انبیاؑء ایسا انسان چاہتے تھے کہ جس میں مال و دنیا بنانے کی حرص و لالچ نہ ہو، جو حسد نہ کرے، بغض و کینہ جیسی غلاظت سے پاک ہو، دنیاوی خرافات سے پاک ہو۔ یہ بات چیلنج سے کہی جاسکتی ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاؑء کی نہضت میں کہیں بھی یہ چیز نہیں ملتی کہ کسی نبی نے دوسرے نبی کی مخالفت کی ہو، بلکہ ہر نبی نے اپنے پیغام کا آغاز ہی پچھلے انبیاؑء کی حقانیت اور ان کے پیغام کی توثیق کرنے سے کیا ہے، انہیں سچا اور صادق قرار دیا ہے اور تب جاکر اپنے پیغام دیا ہے اور اس پیغام میں بھی ہمیں کہیں تضاد نہیں ملتا۔ اس اتفاق کی وجہ ایک ہی نظر آتی ہے کہ سب انبیاؑء کا ہدف و مقصد فقط اللہ تعالیٰ کی ذات اور خوشنودی تھا، اس وجہ سے ہم کہیں بھی کسی اللہ کے نبیؑ کو کسی دوسرے نبیؑ کا مخالف نہیں دیکھتے بلکہ ہر بات میں ایک جیسا دیکھتے ہیں۔

اب آتے ہیں ہم اس حدیث کی طرف کہ علماء کے وارث انبیاؑء ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وارثت سے کیا مراد ہے۔؟ دو جمع دو  چار کی طرح واضح ہے کہ جو مقصد انبیاء کرام علیہ السلام لیکر روئے زمین پر آئے ہیں اور وہی پیغام من و عن آگے پہچانا ہے، انبیاؑء کے حقیقی وارث سے مراد ظاہر اور باطن بھی انبیاؑء جیسا ہونا ہے، یقینی حریص نہ ہو، لالچ نہ رکھتا ہو، تفرقہ اور گروہ بندی کا قائل نہ ہو، بلکہ اس چیز کا سختی سے مخالف ہو، انسانوں کو جوڑنے والا ہو، اگر امت میں تفرقہ دیکھے تو میدان عمل میں نظر آئے، ان کی اصلاح کے لیے عملی میدان میں وارد ہو، خواہ اس مقصد کی کوئی بھی قیمت چکانی پڑ جائے۔ اس کا باطن اور ظاہر ایک ہو، ایسا نہ ہو کہ اس کے گھر کا چولہا بھی تفرقہ بازی سے چلتا ہو۔ اس کی تقریریں معصوم انسانوں کے خون بہانے کا سبب بنیں یا پھر کسی بیرونی ایجنڈے پر کارفرما ہو۔ پیسوں کا حریص ہو، مال ومتاع پر توکل رکھتا ہو، اس کی امت اس کے گھر والے ہوں، اس کی سوچ گھر کی دہلیز سے باہر قدم ہی نہ رکھتی ہو۔ اگر ایسا ہے تو سمجھ جائیں کہ یہ حقیقی عالم نہیں ہوسکتا، یہ علماء کے لبادے میں چور اُچکا، راہزن اور ڈاکو تو ہوسکتا ہے لیکن اپنے نبی کا وارث ہرگز نہیں ہو سکتا۔

انبیاؑء میں ایک اور بات جو مشترک پائی گئی وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر توکل ہے۔ انسانوں کو اللہ کا خوف دلانا ہے، حقوق العباد اور حقوق البشر کے لیے آواز بلند کرنا ہے، ظلم و ناانصاف کے لیے قربانی دینا ہے۔ تفرقے سے نجات دلانا ہے، گرواہوں سے نکال کر ایک امت بنانا ہے۔ اب  اگر یہ خصوصیات کسی عالم دین میں نظر آجائیں تو سمجھ جائیں کہ یہی وہ بندہ خدا ہے جو حقیقی طور پر انبیاؑء کا وارث ہے، جو کسی نعمت خدا وندی سے کم نہیں ہے، جس کا وجود کی برکت سے دین اسلام آگے پھیل رہا ہے، ایسے عالم دین کا ساتھ دینا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 744254
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش