0
Sunday 12 Aug 2018 19:39

شہید حسینی کی 30ویں برسی پر سید حسین موسوی کے خطاب سے اقتباس

قائد صحیح علم دے کر ملت کے شعور کو بیدار کرتا ہے اور باشعور ملت بناتا ہے
شہید حسینی کی 30ویں برسی پر سید حسین موسوی کے خطاب سے اقتباس
ترتیب و تنظیم: سعید علی پٹھان

شہید حسینی کی برسی کے پروگرام کرنے کا مطلب اس شخصیت سے درس لینا ہے تا کہ اس کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں، شہید کی شخصیت ایک قائد کی شخصیت تھی۔ قائد کی بنیادی نظر قوم کے شعور پر ہوتی ہے، مختلف اسباب کیوجہ سے قوموں کا شعور ایک جگہ پر رک جاتا ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ قوم کا شعور بلند ہونا چاہیئے، علم و ثقافت بہتر ہونا چاہیئے، خامیاں دور ہونی چاہیئیں اور بہتری آنی چاہیئے، جس کو ہم تہذیب کہتے ہیں۔ رہن سہن، سوچ، تربیت میں جو  کمی ہے اس کو دور  کرنا چاہیئے۔ قوم کے شعور میں کمی کا  اہم سبب علمی تحریک کا نہ ہونا ہے، جس قوم میں علمی تحریک نہیں ہوگی وہ قوم پیچھے رہ جائے گی۔ شعور کیلئے عقل اور علم درکار ہیں۔ عقل اللہ تعالی دیتا ہے، عقل کے مختلف درجات ہیں، عقل کو استعمال کرنے کی  ضرورت ہے۔ عقل کو استعمال کرنے کا ذریعہ علم ہے جتنا زیادہ علم سیکھیں گے اتنی عقل استعمال ہوگی۔ اس کی مثال گاڑی اور پیٹرول کی ہے، پیٹرول کے بغیر گاڑی نہیں چلے گی۔ عقل کو استعمال کرنے یا چلانے کیلئے علم درکار ہے، علم نہ ہو تو عقل رہ جاتی ہے، علم جس طرح کا ہوگا اس طرح کا شعور وجود میں آئے گا۔

جہاں پہ بھی علمی تحریک کم ہے یا صحیح سمت میں نہیں ہے تو قوموں کا شعور کم ہے، غلط علم غلط فیصلہ، صحیح علم صحیح فیصلہ۔ امام حسن علیہ السلام کا فرمان ہے کہ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ رات کو جب لوگ کھانا کھاتے ہیں تو چراغ روشن کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کے زہریلی غذا تو استعمال نہیں کر رہے مگر جب علم حاصل کر رہا ہے تو عقل کا چراغ روشن نہیں کرتا کہ یہ علم فائدہ مند ہے یا نقصان دہ۔ جس قوم میں علم نہیں ہوگا یا صحیح علم نہیں ہوگا وہ شعور میں پیچھے ہو گی۔ قائد صحیح علم دے کر ملت کے شعور کو بیدار کرتا ہے اور باشعور ملت بناتا ہے۔ رسول اکرم مبعوث ہوئے تو عرب کا شعور کم تھا، بت پرستی تھی، دولت کی عزت تھی، رسول اکرم (ص) کی تحریک علم کی تحریک تھی۔ علم کی تحریک قائد کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے تاکہ ملت کا شعور بڑھے تو  فائدہ اور نقصان اور دوست اور دشمن  کی پہچان ہوسکے۔ شہید حسینی کی قیادت اعلٰی درجے کی قیادت تھی۔ شہید نے 4 برس ملت کی قیادت کی، شہید نے سب سے پہلے علم و شعور پر کام کیا۔ اس وقت بھی قوم دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے ایک علم و شعور والا طبقہ اور دوسرا خطابت والا۔ اس دور میں شعور والا طبقہ بہت کم تھا۔ خطابت  والا طبقہ شہید کا مخالف تھا۔ خطابت پسند طبقے نے شہید کیلئے مشہور کردیا تھا کہ وہ  وہابی ہیں۔ شہید نے قیادت کے دو برس بعد انٹرویو میں کہا کہ میں ابھی تک یہ ثابت نہیں کرسکا کہ میں بھی شیعہ ہوں۔

پہلے جو کوئی بھی نماز، روزہ، نیکی اور اچھائی کیطرف دعوت دیتا تھا ان کی تعداد  کم تھی اب اس میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں رمضان المبارک میں خمسہ نزول قرآن کا  آغاز شہید نے کروایا۔ سنجیدہ پروگرام ہونا شروع ہوئے۔ شہید نے قومی شعور دیا،
قوم چاہتی ہے کہ قائد قوم کو متحد رکھے، اتحاد دے،  شہید سے پہلے قوم مربوط نہیں تھی، چاروں صوبوں کی افراد کو ایک جگہ جمع کیا گیا۔ شہید کے زمانے میں ہر سال تنظیم کا کنونشن ہوتا تھا، جس سے ملکی سطح پر روابط کو فروغ ملتا تھا۔ تحریک کا ایک کنونشن حیدرآباد میں ہوا جس میں رجسٹریشن میں ملک کے تمام اضلاع سے شرکت ہوئی تھی۔ شہید نے قوم کو متحد کیا اور متحد رکھا اور اس میں کمی آنے نہیں دی۔ شہید نے قوم میں تحرک رکھا، جس قیادت میں ملت سست ہو جائے اس کا مطلب ہے وہ قیادت ہی نہیں۔ قیادت کا کام ریل کے انجن جیسا ہوتا ہے جو  سب کو تحرک میں رکھے۔ قوم کے افراد مختلف اسباب کیوجہ سست ہوتے ہیں مگر قائد ان کو تحرک میں رکھتا ہے۔ شہید ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی پہنچتے تھے، شہید کی شخصیت کی بہت کشش اور ایک عجیب طرح کی روحانیت تھی،
 
خبر کا کوڈ : 744265
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش