2
Monday 13 Aug 2018 20:46

برطانوی سیاستدان کو یمن و فلسطین کی حمایت مہنگی پڑگئی

برطانوی سیاستدان کو یمن و فلسطین کی حمایت مہنگی پڑگئی
تحریر : عرفان علی 

جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں تو برطانیہ سمیت د نیا بھر میں نسل پرست یہودی ایک کہنہ مشق برطانوی سیاستدان اورلیبر پارٹی یعنی موجودہ حزب اختلاف کے سربراہ جیریمی کوربن کی مخالفت و مذمت پر مبنی مہم میں شدت کے ساتھ مصروف ہیں تو سفید فام نسل پرست گروہ موجودہ حکمران کنزرویٹو پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر خارجہ (الیگزینڈر ) بورس جونسن کے حق میں یکجا ہوچکے ہیں۔ جیریمی کوربن کا تیونس میں فلسطینی شہداء کی قبور پر حاضری دینا اور یمن میں سعودی فوجی اتحاد کی بمباری اور نہتے یمنی شہریوں کے قتل عام کے خلاف برطانوی حکومت پر شدید تنقید کرنا ، نسل پرستوں کو ایک آنکھ نہیں بھایا ہے۔ یمن کے معصوم طالب علم بچوں کی سعودی بمباری میں شہادتوں پر لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر انکا مختصر بیان یہ ہے کہ These children were slaughtered travelling back to school after a picnic. .It is the latest atrocity in the Saudi-led war in Yemen, armed and backed by the UK government. UK support for this conflict, and the humanitarian crisis it unleashed, must end.

ساتھ ہی انہوں نے حکمران جماعت کی داخلی ناکامی و نااہلی کو بھی بے نقاب کیا کہ برطانیہ میں بے گھر بچوں کی تعداد میں اس دور حکومت میں سو فیصد اضافہ ہوگیا ہے جبکہ گلیوں ، سڑکوں پر سونے پر مجبور افراد کا مسئلہ حل کرنے کے لئے 2027ع کی ڈیڈ لائن بھی بے معنی ہوچکی ہے کیونکہ کوئی اضافی رقم اس مد میں نہیں رکھی گئی ہے اور مختص شدہ پرانا بجٹ ناکافی ہے جبکہ برطانوی حکومت نے سعودی عرب سے دیگر غریب ممالک میں انفراسٹرکچر کے شعبے میں تعاون کے لئے ایک سو ملین یا دس کروڑ پونڈ مالیت کا معاہدہ کیا ہے جو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ لندن کے دوران مارچ 2018ع میں طے پایا تھا۔ اسی دورے کے دوران سعودی افواج کو اسلحہ ساز کمپنی بی اے ای کی جانب سے 48 ٹائفون فائٹرز (طیاروں) کی فروخت کا معطل معاملہ بھی حل کیا گیا جبکہ سعودی عرب کو پہلے ہی 72ٹائفون فائٹرز دیئے جاچکے تھے ۔یہ معاملہ یہیں تک محدود نہیں بلکہ ’’ اسلحے کی تجارت کے خلاف مہم ‘‘ نامی تنظیم کے مطابق سال 2015ع یعنی جب یمن پر سعودی بادشاہت نے اتحادیوں کے ساتھ مل کر یکطرفہ طور جنگ مسلط کی تھی تب سے اب تک سعودی حکومت کو برطانیہ نے 4.7بلین پونڈ یعنی چار ارب ستر کروڑ پونڈ مالیت کا جنگی ساز و سامان فروخت کیاہے جس میں 2.7بلین پونڈ مالیت کے جنگی طیاروں، ہیلی کاپٹرز اور ڈرون اور 1.9بلین پونڈ مالیت کے میزائل، بم، گرینیڈ وغیرہ کی فروخت بھی شامل ہے۔ 

برطانیہ میں یمن جنگ کی وجہ سے سعودی عرب کی مخالفت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ سعودی و اتحادی افواج کے حملوں میں بے گناہ انسانی جانوں کے نقصانات، مارکیٹوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، اسپتالوں، مساجد پر بمباری جیسے انسانیت سوز ناقابل معافی جرائم پر دنیا کے دیگر ممالک کی طرح برطانوی عوام و خواص اور خاص طور سیاستدانوں اور حقوق انسانی کے شعبے سے منسلک فعال کارکنوں نے کھل کر سعودی حکومت اور اسکا ساتھ دینے والے اتحادی ممالک کی حکومتوں پر کھل کر تنقید کی ہے۔ جب سعودی ولی عہد نے مارچ2018ع میں لندن کا دورہ کیا تھا تب بھی لندن میں شدید احتجاج دیکھنے میں آیا تھا۔ اور جب اس دورے کے دوران ایک سو ملین پونڈ کا معاہدہ ہوا اور اسے دو ممالک کے مابین طویل المدت نئی شراکت داری قرار دیا گیا تو اسے برطانیہ میں نیشنل ڈسگریس یعنی قومی ذلت قرار دیا کیونکہ یمن میں سعودی جنگی مظالم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی وجہ سے توقع یہ کی جارہی تھی کہ وزیر اعظم تھریزامے سعودی ولی عہد پر دباؤ ڈالے گی کہ یمن کی جنگ روکی جائے، انسانی امداد کو نہ روکا جائے وغیرہ لیکن ایسا کچھ نہیں ہوسکا۔

شیڈو گورنمنٹ کی (شیڈو) خاتون وزیر برائے بین الاقوامی ترقی کیٹ اوسامور نے اس پر رد عمل کا اظہار کیا۔ سیاہ فام خاتون سیاستدان نے کہا کہ دو کروڑ بیس لاکھ یمنی شہری مستقل بنیادوں پر اور مکمل طور امداد، غذا اور ایندھن کے محتاج ہیں یعنی دوسروں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں لیکن ٹھریزامے نے سعودی عرب سے یمن کے حق میں کوئی بات منوائے بغیر سعودی حکومت سے معاہدہ کرلیا جبکہ 84لاکھ یمنی شہری ایسے ہیں جو بھوک کی وجہ سے موت کے دہانے پر ہیں۔یہ ایسا موقف تھا کہ جس پر خود موجودہ خاتون وزیر برائے بین الاقوامی ترقی پینی مورڈانٹ ماضی میں کہہ چکی ہیں کہ سعودی عرب کے پاس یمن کی انسانی امداد روکنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے اورلوگوں کی بھوک نزد مرگ کوہتھیار کے طور پر استعمال کرنا انسانی قوانین کے خلاف عمل ہے۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود برطانوی ایوان وزیر اعظم ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کا بیان آیا تھا کہ محمد بن سلمان کے دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین 65بلین پونڈ مالیت کے تجارتی معاہدوں پر اتفاق ہو ا ، یعنی یمن میں سعودی جارحیت اور انسانیت سوز جرائم کوئی ایسا سنگین ایشو ہی نہیں جس پر برطانوی حکومت سعودی ولی عہد کو سرزنش کرتی! 

برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق وہاں کی حکومت کی جانب سے یمن جنگ میں بھرپور طریقے سے جارح سعودی فوجی اتحاد کا ساتھ دیا جارہا ہے۔ برطانوی فوجی افسران نے سعودی عرب کی فضائیہ اور بری فوج کو حملوں کی تربیت فراہم کی ہے جبکہ برطانوی و امریکی فوجی افسران اس جنگی روم میں بنفس نفیس موجود ہیں جہاں سے سعودی و اتحادی افواج حملوں کی آپریشنل منصوبہ بندی اور مانیٹرنگ کرتے ہیں۔ برطانوی حکومت کو اس وقت کئی داخلی چیلنجز کا سامنا ہے ۔ یورپی یونین سے اخراج کا معاملہ اٹکا ہوا ہے اور جنہوں نے پہلے اخراج کی حمایت کی تھی اب تقریباً سو اراکین نے یورپی یونین میں برطانوی رکنیت و شمولیت کو برقرار رکھنے کی حمایت کردی ہے یعنی بریگزٹ کا معاملہ غیر یقینی کا شکار ہے۔ ساتھ ہی اقتصادی و سماجی مسائل ہیں۔ سفید فام نسل پرست انگریز بورس جونسن کے ساتھ ہیں جس نے پچھلے ہفتے ٹیلیگراف اخبار میں مقالے میں برقع پہننے والی مسلمان خواتین لیٹر باکس اور بینک لوٹنے والوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ یک نہ شد دو شد کہ بورس جونسن کے والد نے بیٹے کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ بورس کو چاہئے تھا کہ ساتھ ہی برقع پر پابندی کا مطالبہ بھی کردیتا۔ یعنی ایک نان ایشو کو ایشو بناکر سیاست کی جارہی ہے۔ اطلاعات یہ ہیں کہ سفید فام نسل پرست گروہ اس معاملے کو ہوا دے رہے ہیں اور امریکی صدر ٹرمپ کے سابق مشیر اسٹیو بینون چاہتے ہیں کہ بورس جونسن کے ساتھ مل کر بین الاقوامی سطح پر سفید نسل پرستوں کا کوئی منظم گروہ بنایا جائے۔ 

لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ایک طرف بورس جونسن کی حمایت میں برطانوی شہریوں کا وسیع حلقہ کھڑا ہوگیا ہے۔ دوسری طرف نسل پرست یہودیوں کے گروہ اور ذرایع ابلاغ نے لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن کو نشانہ بنارکھا ہے۔ جیوش لیڈرشپ کاؤنسل نے ان کے خلاف لیبر پارٹی کے نام خط لکھا حالانکہ یہ سیاستدان بارہا کہہ چکے ہیں کہ وہ سامیت مخالف فکر کے خلاف ہیں اور اپنی جماعت کے پلیٹ فارم سے بھی اسکے خلاف موقف پیش کرتے آئے ہیں اور اقدامات بھی کرچکے ہیں۔کوربن کے خلاف نسل پرست اور اسرائیل نواز یہودیوں کی مہم کی ٹائمنگ کتنی اہم ہے کہ مارچ میں انہوں نے بیانات دیئے جبکہ سعودی ولی عہد کا دورہ بھی اسی مہینے تھا اور برطانوی عوام یمن جنگ میں سعودی جارحیت کے خلاف احتجاج کررہی تھی۔ اب ایشو یہ اٹھایا گیا کہ سال 2014ع میں کوربن نے تیونس میں فلسطینی شہداء کی قبور پر حاضری کیوں دی تھی؟ نسل پرست یہودیوں کا دعویٰ ہے کہ 1972ء کے میونخ اولمپک میں اسرائیلی ٹیم کے اراکین کو اغوا کرکے یرغمال بنانے والے اور بعد ازاں مارنے والے بلیک ستمبر گروپ کے فلسطینی دہشت گردوں کی قبروں پر جیریمی کوربن نے حاضری دی۔ 

کوربن نے کہا ہے کہ 1985ء میں اسرائیلی فضائیہ نے تنظیم آزادی فلسطین کے دفاتر پر حملہ کیا تھا اس میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی قبروں پر حاضری دی تھی اور ساتھ ہی 1991ء میں موساد ایجنٹوں کے ہاتھوں پیرس میں قتل کئے جانے والوں کی قبور پر بھی پھولوں کی چادر رکھی تھی۔ ایک برطانوی اخبار کا دعویٰ ہے کہ فلسطینی شہداء کی وہ قبریں بلیک ستمبر گروپ کے افراد کی قبروں سے پندرہ گز دور ہیں اورجیریمی کوربن نے بلیک ستمبر گروپ کے دہشت گردوں کی قبروں پر حاضری دی تھی۔ اور اب جب یہ مہم چل رہی ہے تو جیریمی کوربن نے یمن کے مظلوم شہریوں کے حق میں بیان دیا ہے یا پھر حکمران جماعت پر برطانیہ کے عوام کے مسائل حل نہ کرنے پر تنقید کی ہے۔ یعنی معاملہ واضح ہے کہ اسرائیل نواز نسل پرست یہودی لابی اور سفید فام نسل پرست لابی کو فلسطین و یمن کے حق میں محض بیان دینے والے سیاستدان بھی قبول نہیں ہیں۔ انہیں یمن میں سعودی جارحیت اور اسکے نقصانات پر کوئی تشویش نہیں ہے اور یمن کے عوام کے انسانی حقوق کی پامالی پر بھی خاموش و بے حس ہیں کیونکہ نسل پرست یہودیوں کی قبضہ گیر جعلی ریاست اسرائیل اور سعودی جارحین میں آجکل یارانہ ہے۔ 

برطانیہ میں امریکی سفیر ووڈی جونسن نے بھی برطانوی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ ایران کے خلاف یورپی یونین کی بجائے، ٹرمپ حکومت کا ساتھ دے، اسکے موقف کی حمایت کرے اور اس نیوکلیئر ڈیل کو ختم کردے۔ امریکی سفیر نے متنبہ کیا ہے کہ اگر برطانیہ ٹرمپ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف یورپی یونین و پڑوسی ممالک کا ساتھ دیتا رہا تو پھر تجارت کے شعبے میں اسے شدید نقصان کا سامنا کرنا ہوگا۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ برطانیہ کی موجودہ اپوزیشن یعنی لیبر پارٹی بھی عالمی سیاست میں کوئی انقلابی جماعت کی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ اسکے سابق سربراہان میں ٹونی بلیئر، گورڈن براؤن اور ایڈ ملی بینڈ ، یہ سبھی اسرائیل نواز سیاستدان کی حیثیت سے مشہور ہیں اور امریکی پالیسیوں ہی کے تابع رہے ہیں۔ برطانیہ کی حکمران جماعت کنزرویٹو ہو یا لیبر پارٹی ، اگر انہوں نے زیادہ سے زیادہ کوئی کام کرنا ہے تو وہ فلسطینیوں یا یمنیوں کے حق میں کوئی ہمدردانہ کھوکھلا بیان ہی ہوسکتا ہے۔ نہ یہ مقبوضہ فلسطین کی مکمل آزادی کے لئے جعلی ریاست اسرائیل کو کوئی سزا دینے کے حق میں ہیں اور نہ ہی انکا یمن پر جنگ کی وجہ سے سعودی عرب سے تعلقات ختم کرنے کا کوئی موڈہے۔ جبکہ ایران یا پاکستان کے خلاف انہیں صرف موقع کی تلاش رہتی ہے کہ کس طرح عملی اقدامات کے ذریعے انہیں سزا دیں، وہاں معاملہ بیانات تک محدود نہیں رہتا۔اصل ایشو یہ مائنڈسیٹ ہے جسے تبدیل ہونا چاہئے ۔ برطانیہ کو امریکی و اسرائیلی و سعودی پالیسیوں کا تابع نہیں ہونا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 744413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش