QR CodeQR Code

عربی نیٹو، ممکن یا ناممکن؟

19 Aug 2018 01:08

اسلام ٹائمز: مختلف ممالک کے درمیان ایک اتحاد تشکیل پانے کیلئے ان کے درمیان مشترکہ اہداف، مفادات اور پالیسیاں ہونا ضروری ہیں۔ لیکن آج جبکہ اکثر عرب ممالک نے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے ہیں ایسے ممکنہ اتحاد کی تشکیل مشترکہ مفادات اور پالیسیاں نہ ہونے کے پیش نظر ناممکن نظر آتا ہے۔


تحریر: بہارہ سلطان پور

مصر کے شہر شرم الشیخ میں منعقدہ عرب لیگ کے 26 ویں اجلاس میں پہلی بار نیٹو طرز پر عرب ممالک کے درمیان فوجی اتحاد تشکیل دینے کا تصور پیش کیا گیا۔ متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، یمن، لیبیا، اردن اور مراکش نے اس اتحاد کی تشکیل کی حمایت کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد مفید اور موثر واقع نہیں ہو گا۔ روس میں دین اور سیاست کی انجمن کے صدر الیگزینڈر ایگناٹینکو اس بارے میں اظہار رائے کرتے ہوئے کہتے ہیں: "ایسے پروٹوکول پر دستخط کا مطلب آپس کے اچھے تعلقات کا اظہار اور عرب ممالک میں اتحاد کا تصور پیش کرنے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو گا کیونکہ خلیج فارس میں دو حریف عرب بلاکس موجود ہیں؛ ایک طرف سعودی عرب، بحرین اور کویت ہیں جبکہ ان کے مدمقابل قطر، متحدہ عرب امارات اور عمان قرار پائے ہیں۔ لہذا ان دو حریف عرب بلاکس کی موجودگی میں مشترکہ عرب فوج تشکیل دینے کیلئے قابل اعتماد وسائل فراہم ہونا ممکن نہیں ہو گا۔"
 
دوسری طرف مشرق وسطی کے ممالک کا بنیادی مسئلہ ان کی اپنی داخلہ پالیسی اور ایکدوسرے سے اتفاق رائے نہ ہونا ہے۔ مثال کے طور پر خلیج تعاون کونسل کی تشکیل کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ 1980ء میں تشکیل پانے والی خلیج تعاون کونسل عرب ممالک کے غیر موثر اتحادوں کی ایک مثال ہے۔ اس کونسل کے رکن عرب ممالک ایک مشترکہ کرنسی نکالنا چاہتے ہیں جس میں وہ اب تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ یہ بذات خود ان کے درمیان اتحاد اور باہمی تعاون کے فقدن کی واضح مثال ہے۔ سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کے خصوصی مشیر ڈاگ برانڈو جو کاٹو انسٹی ٹیوٹ میں محقق اور ماہر بھی ہیں اس بارے میں کہتے ہیں: "مشرق وسطی میں نیٹو طرز پر عرب اتحاد کے قیام کا تصور بنیادی طور پر غلط ہے۔ خلیج عرب ریاستوں کو درپیش مشکلات اور مسائل کا حقیقی منشا ان کے اندر سے ہے نہ ایران۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عرب حکومت سیاسی جواز نہیں رکھتی۔"
 
عربی نیٹو کی تشکیل سے متعلق زیر بحث اہم ترین مسائل میں سے ایک اس اتحاد کے اخراجات کا مسئلہ ہے۔ قوی امکان یہ ہے کہ عرب ممالک فوجی مدد کیلئے امریکی حکومت سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن کیا ڈونلڈ ٹرمپ اس پر راضی ہوں گے؟ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی الیکشن مہم کے دوران بارہا اس بات پر زور دیا تھا کہ وہ صرف اور صرف امریکی مفادات کو مدنظر رکھیں گے۔ ایسے مفادات جن کا خطرے سے دوچار ہو جانے کی صورت میں امریکی حکومت عجیب و غریب قسم کے اقدامات کرنا شروع کر دیتی ہے جس کی ایک مثال پیرس معاہدے سے دستبرداری ہے۔

عربی نیٹو نامی تنظیم کا اصل مقصد ایران کا مقابلہ اور ایران فوبیا کی ترویج ہے لیکن ممکن ہے یہ اتحاد مشرق وسطی کے کمزور ممالک کیلئے خطرناک ثابت ہو۔ مثال کے طور پر اس اتحاد میں زیادہ تر سنی ممالک شامل ہونے کے ناطے ممکن ہے مشرق وسطی کے شیعہ عرب ممالک جیسے عراق اور لبنان کیلئے خطرہ تصور کیا جائے۔ عرب نیٹو کی سربراہی کیلئے سعودی عرب سب سے زیادہ کوشاں ہے تاکہ اس طرح شام، لبنان اور خاص طور پر فلسطین سے متعلق مسائل پر ایران سے برتری حاصل کر سکے۔ اب تک ان ایشوز میں ایران کو سعودی عرب پر واضح برتری حاصل ہے۔
 
ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران مخالف پالیسیوں کے باعث سعودی حکام عربی نیٹو تشکیل دینے کے بارے میں سوچنے لگے۔ اگرچہ اس اتحاد کے اعلان شدہ اہداف میں میزائل ڈیفنس، فوجی ٹریننگ، دہشت گردی کے خلاف جنگ وغیرہ جیسے موضوعات شامل ہیں لیکن عربی نیٹو کی تشکیل کا بنیادی مقصد خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کا مقابلہ کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عربی نیٹو دراصل سعودی عرب، امریکہ اور اسرائیل کا اتحاد ہے۔ مختلف ممالک کے درمیان ایک اتحاد تشکیل پانے کیلئے ان کے درمیان مشترکہ اہداف، مفادات اور پالیسیاں ہونا ضروری ہیں۔ لیکن آج جبکہ اکثر عرب ممالک نے قطر سے اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر رکھے ہیں ایسے ممکنہ اتحاد کی تشکیل مشترکہ مفادات اور پالیسیاں نہ ہونے کے پیش نظر ناممکن نظر آتا ہے۔
 
فلسطین کے معروف تجزیہ کار اور صحافی خالد الجیوسی عربی نیٹو کی تشکیل کی وجوہات اور نتائج کے بارے میں کہتے ہیں: "اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف نیٹو طرز پر مبینہ عرب اتحاد میں شمولیت اختیار کرنے والے عرب ممالک کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک کے درمیان ایک سیاسی اور حقیقی ہم آہنگی موجود ہونی چاہئے کیونکہ ان عرب ممالک کو فوجی اتحاد تشکیل دینے سے پہلے ایران سے مقابلے کیلئے امریکہ کے پرچم تلے جمع ہونا پڑے گا۔" وہ مزید کہتے ہیں: "اگر ہم ان عرب ممالک کے درمیان پائے جانے والے تعلقات کا بغور جائزہ لیں تو پہلی نظر میں دیکھیں گے کہ ان کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مثال کے طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات شدید تناو کا شکار ہیں کیونکہ متحدہ عرب امارات کے حکام اعلان کر چکے ہیں کہ وہ سعودی سربراہی میں موجود اتحاد سے باہر نکلنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مزید برآں، یمن کے جیلوں میں اماراتی افسران کی جانب سے قیدیوں پر تشدد کے اسکینڈل میں متحدہ عرب امارات دباو کا شکار ہے۔"
 
مغربی ایشیا سے متعلق امور کے ماہر سید ہادی سید افقہی عربی نیٹو کے بارے میں کہتے ہیں: "عربی نیٹو کی تشکیل کا تصور پیش کرنے والا امریکہ ہے جو اس طریقے سے خطے میں اپنے اہداف حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔" وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی بنیاد اس نظریے پر استوار ہے کہ خطے کے ممالک کو توڑ کر چھوٹے ممالک میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ ان ممالک کی مسلح افواج بھی چھوٹی چھوٹی فوجوں میں تقسیم ہو جائیں۔ اس منصوبے کا مقصد اسرائیل کی قومی سلامتی یو یقینی بنانا ہے کیونکہ جب خطے کے ممالک اور افواج کمزور ہوں گی تو اسرائیل خطے میں سب سے زیادہ اقتدار، استحکام، اثرورسوخ اور فوجی اور سکیورٹی طاقت کا حامل ہو سکے گا۔ سید ہادی سید افقہی کہتے ہیں کہ اس وقت امریکہ خطے میں 49 فضائی، بری اور بحری فوجی بیسز کا مالک ہے جن میں سے زیادہ تر جنوبی خلیج فارس، افغانستان، پاکستان، کرغزستان وغیرہ میں واقع ہیں۔
 
لہذا امریکی حکام جن اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں ان میں خطے میں موجود خام تیل اور قدرتی ذخائر کی لوٹ مار بھی شامل ہے۔ اسی وجہ سے ٹرمپ نے واضح طور پر کہا ہے کہ عراق کا تیل امریکہ کی ملکیت ہے۔ سید ہادی سید افقہی کہتے ہیں: "امریکہ خطے میں اسلامی بیداری اور اس کے مرکز یعنی اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنا چاہتا ہے لہذا دنیا والے دیکھ رہے ہیں کہ اس نے کس طرح ایران کے خلاف عراق کو جنگ پر اکسایا، اس کے بعد نرم جنگ شروع کی اور اب اقتصادی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ مختصر یہ کہ خطے میں ہونے والے اس کھیل کے پیچھے اصل ہاتھ امریکی حکومت کا ہے۔"


خبر کا کوڈ: 745292

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/745292/عربی-نیٹو-ممکن-یا-ناممکن

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org