1
Sunday 19 Aug 2018 17:49

قربانی کے جانور اور پاکستانی عوام

قربانی کے جانور اور پاکستانی عوام
تحریر: ساجد مطہری

جوں ہی عیدالضحی کا  دن قریب آتا ہے مال مویشی کی قیمتوں میں کئی گنااضافہ ھو جاتا ھے، کل میرا گزر شہر کے مرکزی بازار سے ھوا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا ہوگئی کہ وہاں پر دوسرے روزمرہ کی خرید و فروخت کی آشیاء کے بجائے مال مویشی باندھے گئے ہیں، دور دور کی پہاڑیوں اور کھیتوں سے من پسند گھاس کاٹ کر مویشیوں کے سامنے ڈالے گئے ہیں اور مویشی یہ گھاس انتہائی دلچسپی اور شوق و رغبت سے کھانے میں مشغول ہیں اور سر اٹھانے کا نام ہی نہیں لے رہے، ایسا معلوم ھو رھا تھا کہ وھاں پر باندھے جانور یہ نایاب اور کمیاب گھاس پہلی دفعہ تناول کر رہے ہوں۔

مجھے ان جانوروں پر اس وقت ترس آیا جب میں نے دیکھا کہ یہاں پر باندھے جانور اس پرتکلف کھانے پر اظہار تشکر کے طور پر اپنے مالکوں کی طرف معصومانہ اور محبت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں، بیچارے جانوروں کو اس بات کا قطعی علم نہیں تھا کہ وہ صرف چند دنوں کے مہمان ہیں اور قصاب کی چھری اس کے انتظار میں ہے اور یہ سب کچھ اسے اس لیے کھلایا پلایا جا رہا ہے کہ یہ جانور پھلے پوسے اور پھر وہ نہ صرف اسکی گوشت سے اپنے پیٹ بھر  سکیں بلکہ انکی چمڑی اور کھال نکال کر بازاروں میں بیچ کر منہ مانگی قیمت وصول کریں۔

یہ حالت دیکھ کر مجھے حالیہ انتحابات میں سیاست دانوں کی حالیہ انتخابی مہم یاد آئی جس میں سیاستدان ووٹ کے بدلے پیسوں کے ڈھیر لگاتے تھے، پرتکلف کھانوں اور عیش و نوش کی محفلیں سجاتے تھے اور عوام کو دھوکہ دینے کے لیے ان سے جھوٹے وعدے کرتے تھے۔

ان پاکستانی عوام کا اللہ بھلا کرے جو ظاہربین اور سیاسی شعور سے عاری چند نوٹوں اور بریانی کی چند پلیٹوں کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کرکے کرپٹ اور نااہل سیاست دانوں کو پارلیمینٹ بھیجتے ہیں، جو بعد میں ان بیچارے عوام کی کھال نکال دیتے ہیں اور انتخابی مہم کے دوران خرچ کی گئی رقم سے کئی زیادہ رقم وہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص شدہ فنڈ سے وصول کرتے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ان کرپٹ سیاست دانوں کو اپنا مسیحا تصور کرنے والے یہ کرپٹ سیاست دان ترقیاتی کاموں کے لیے منظور شدہ فنڈ کا دسواں حصہ منصوبے پر لگا کر اوپر اپنے نام کی تختی لگا دیتے ہیں، گویا یہ سارا منصوبہ اس نے اپنی جیب سے مکمل کیا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی سیاست دان جو انتخابات سے پہلے ایک ایک ووٹ کے لیے عوام کے قدم چومتے تھے، انتخابات میں کامیابی کے بعد اسلام آباد کو اپنا بصیرا بنا لیتے ہیں اور اگلے انتخابات تک اپنے علاقے کا رخ ہی نہیں کرتے، عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں انے والے یہ سیاست دان عوام کی کمائی سے اگلے انتخابات تک اسلام آباد اور بیرونی ممالک میں عیاشیوں میں صرف کرتے ہیں، ان کا دل عوام کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے نہیں دھڑکتا، انہیں فکر ہوتی ہے تو صرف اپنی کرسی اور اقتدار کی۔

غرض! پاکستانی عوام کو بھی قربانی جانوروں کی طرح نہیں معلوم کہ انتخابی مہم میں بریانی کا پلیٹ کھلا کر انہیں کس مقصد کے لیے استعمال کیا جا رھا ھے، تو بھلا ایسی قوم سے کیونکر امید رکھی جا سکتی ہے کہ یہ قوم غلامی کی زنجیریں توڑ کر حقیقی آزادی حاصل کر لے گی۔
 
خبر کا کوڈ : 745413
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش