0
Monday 20 Aug 2018 15:53

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے

نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
تحریر: سید اسد عباس

اہل وطن کو نیا پاکستان اور امیدوں بھری عید قربان مبارک ہو۔ امید بہت بڑی نعمت ہے، جس کے مقابلے میں مایوسی بہت بڑی لعنت۔ بہت سے مسائل کا آغاز اسی ناامیدی اور مایوسی سے ہوتا ہے اور بہت سے اچھے کام اسی امید کے سبب ہیں۔ جب کوئی انسان ناامید ہو جائے تو اس کی نیز اس کے ارد گرد رہنے والوں کی زندگی مایوسی کے سبب ایک جہنم کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اگر امید کا دیا روشن ہو تو اس کے سبب کئی ایسے معجزے سامنے آتے ہیں، جن کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔ فرد کے بجائے اگر اقوام ناامید ہو جائیں تو اس کے اثرات معاشروں اور ملکوں پر پڑتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال نے اپنے ایک شعر میں اسی اہم عنصر کی جانب متوجہ کیا، جسے آج بھی ہم امید کے حصول کے لئے دہراتے ہیں:
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی


گذشتہ ستر برسوں میں پاکستانی ریاست، اس کے ادارے، حکمران اور نظام مملکت جس نہج پر پہنچ چکا تھا، اس کا سب سے بڑا نقصان ہماری اجتماعی مایوسی تھی۔ ملک کی اکثریت کو کہتے سنا گیا کہ کچھ ٹھیک ہونے والا نہیں ہے، یہ پاکستان ہے ایسے ہی چلے گا وغیرہ وغیرہ۔ اس مایوسی کا ایک اثر یہ تھا کہ جہاں جس کا داؤ چلتا تھا، اپنا کام نکالتا تھا۔ یہ ناامیدی جو ریاستی امور کے بارے میں عوام میں عام ہوئی، اس نے ہمارے اداروں کو تباہ و برباد کر دیا، ریاست بیرونی وسائل سے چل رہی تھی۔ کرپشن، اقرباپروری، رشوت ستانی، سفارش اور اسی قسم کے دیگر مسائل جو کسی بھی عادلانہ معاشرے کے لئے زہر قاتل ہیں، ہمارے معاشرے میں عام تھے۔ صحت، تعلیم، انصاف، روزگار، فلاح، بہبود غرضیکہ زندگی کا ہر شعبہ ابتری کا شکار تھا۔

وسائل کا حامل طبقہ زندگی کی تمام تر رعنائیوں سے مستفید ہو رہا تھا جبکہ غریب انگشت بدنداں تھا اور آسمان کی جانب دیکھتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں اکثریت کی زندگی موت سے بھی بدتر ہے۔ جرائم، خودکشی، زنا اور ایسے ہی قبیح افعال ہمارے معاشرے میں عام  ہیں۔ یہ سب ہماری مایوسی کے اثرات ہیں۔ کھانے پینے کی اشیاء میں ملاوٹ، کسی بھی ذریعے سے دولت جمع کرنے کی کوشش، دوسروں کا حق مارنا، کمزور کو زیر تسلط رکھنا اس سب کا ایک بنیادی سبب مایوسی ہی ہے، جو ریاستی نظام کے بارے ذہنوں میں جاگزیں ہوئی۔ جس کے پاس طاقت اور اقتدار تھا، اس نے اس اجتماعی مایوسی میں جینے، جسے مار دھاڑ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا، کا کوئی راستہ نکال لیا اور جو کمزور و مستضعف تھا وہ کمزور تر ہوتا گیا۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین اور اب مملکت عزیز پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے قومی خطاب میں اسی اجتماعی مایوسی کو امید سے بدل دیا۔ اگرچہ ہم پر اس کا زنگ اس قدر پختہ ہوچکا ہے کہ ہمیں اب بھی شکوک و شبہات ہیں، تاہم پھر بھی ایسا نہیں کہ اب پاکستانی قوم مایوسی کے اندھیروں میں ہے۔ عمران نے پاکستان کے حقیقی مسائل پر ایک ایک کرکے اس انداز سے بات کی جیسے وہ نہیں بلکہ لوگوں کے مسائل زبان حال سے اپنا درد بیان کر رہے ہوں۔ یہ نہایت امید افزاء چیز ہے جو اہل پاکستان کو ایک بڑے عرصے کے بعد میسر آئی ہے۔ بہت سے ذہن اب بھی مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ہیں، وہ اب بھی ہر چیز کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ اس میں ان کا قصور نہیں، حالات کے اثرات اس قدر گہرے ہوئے ہیں کہ وہ انسان کو اپنی حالت و کیفیت سے باہر نہیں نکلنے دیتے، ایسے فرد پر کسی پر بھی اعتماد کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یقیناً اندھا اعتماد کیا بھی نہیں چاہیے۔

میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کا اقتدار میں آنا وطن عزیز کے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ عمران خان کے خطاب کے بارے میں مختلف شخصیات کے تاثرات کو سنا، تقریباً سبھی حلقے مطمئن ہیں سوائے چند ایک کے، جو اب بھی یہ یقین نہیں کرنا چاہتے کہ سورج طلوع ہوچکا ہے یا شاید کچھ مزید عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ عمران خان نے اپنے پہلے ہی خطاب میں وطن کو درپیش مسائل کا کوئی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا، جس پر بات نہ کی ہو۔ بیوہ، یتیم مساکین، تعلیم، صحت، قانون کی بالادستی، کرپشن کا خاتمہ، عوامی پیسے کی حفاظت، فوری انصاف، روزگار، ماحولیات سے لے کر ملک کے بڑے معاشی مسائل، خارجہ تعلقات، بیوروکریسی کی اصلاح ہر ایک پر عمران خان نے اپنا درد دل بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ قانون کا مقصد ہی کمزور کو طاقتور کے ظلم سے بچانا ہے، یہاں دو مختلف قوانین ہیں، ایک امیر کے لئے اور ایک غریب کے لئے۔ انہوں نے مدینہ کی فلاحی ریاست کے بنیادی اصول بیان کئے اور کہا کہ ہمیں بھی ان اصولوں پر چلنا ہے، تاکہ ملک اپنا کھویا ہوا عزت و وقار حاصل کرسکے۔

قانون کی حکمرانی، کمزوروں کی داد رسی، سچائی، احتساب، ملکی وسائل میں امانت، سادگی، مساوات، صحت و تعلیم کی فراہمی یہ وہ تمام جیزیں ہیں، جو ہمارے معاشرے سے مسدود ہوچکی ہیں۔ اگر ہماری ریاست ان سنہری اصولوں پر کاربند ہوتی ہے اور عوام کو یقین ہو جاتا ہے کہ ملک پر حاکم افراد ان کے ساتھ مخلص ہیں تو یہ ایک بہت بڑی تبدیلی ہے، جس کے بعد امید کی جاسکتی ہے کہ وطن عزیز اس ڈگر پر چل پڑے گا، جو ترقی اور خوشحالی اور فلاحی معاشرے کی جانب جاتی ہے۔ عمران کا وژن کہ پاکستان ایک ایسا ملک بن جائے جہاں زکوۃ لینے والا کوئی نہ ملے اور ہم دوسروں کی مدد کریں، یہ سب باتیں ایک مصلح کی باتیں ہیں۔ مجھے تو عمران کے خلوص پر کوئی شک نہیں، میں دیگر محب وطن پاکستانیوں سے بھی گزارش کروں گا کہ عمران کو نہ صرف اپنی کہی ہوئی باتوں پر عمل کا موقع دیں بلکہ اس سلسلے میں اس کی مدد بھی کریں، کیونکہ قدرت کی جانب سے قوموں کو اصلاح احوال کے سنہری موقعے بار بار میسر نہیں آتے۔ ہمیں تو کم از از یہ موقع کئی ایک دہائیوں کے بعد میسر آیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 745599
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش