0
Monday 20 Aug 2018 21:12

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی

زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک فقیر اپنی کٹیا میں سر جھکائے گہری سوچ میں ڈوبا ہوا ہے، درختوں میں گھرا اس کا مسکن خاموشی کا گہوارہ ہے، جسے وقفے وقفے سے پرندے کے چہکنے کی آواز مزید خوبصورت بنا دیتی ہے۔ دنیا کی رنجشوں، نفرتوں، حد سے بڑھتی خواہشات سے دور ایک وقت کی روٹی کھا کر مطمئن زندگی گذارنے والے اس فقیر کی کل کائنات ایک کاسہ اور یہی کٹیا ہے۔ ایسے میں کہیں دور سے گھنٹیوں کے بجنے کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہیں، آہستہ آہستہ یہ آوازیں فقیر کی کٹیا کے پاس پہنچ جاتی ہیں۔ قافلہ والے ایک فقیر کو اس ویرانے میں دیکھ کر اپنی تھکاوٹ اتارنے کے لئے رک جاتے ہیں اور اسے کھانے پینے کی کچھ چیزیں بھی دان کر دیتے ہیں۔ فقیر پوچھتا ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ قافلے والے بتاتے ہیں ہم حج کے لئے جا رہے ہیں اور وہاں سے روضہ رسولﷺ کی زیارت کے لئے مدینہ جائیں گے۔ بیت اللہ اور مدینہ کا سن کر فقیر کے دل میں لگی عشق کی آگ مزید تیز ہوگئی اور اس نے قافلہ والے سے درخواست کرنا شروع کر دی کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں، قافلہ والوں نے کافی سمجھایا کہ لمبا سفر ہے اور تمہاری تیاری نہیں، رہنے دو مگر فقیر نہیں مانا۔

قافلے کے سربراہ نے ترس کھا کر ساتھ لے لیا۔ اس فقیر کا قافلے والوں کے ساتھ عجیب طرز عمل تھا۔ بہت کم سوتا، عبادت بھی برائے نام کرتا،   ہر وقت قافلے والوں کی مدد میں لگا رہتا۔ مسلسل ایک ماہ چلنے کے بعد ایک بڑے صحرا میں پہنچ گئے، اس میں سفر کرتے ہوئے کیا دیکھتے ہیں کہ جنگلی بھینسوں کا ایک پیاسا ریوڑ ادھر ادھر دوڑ رہا ہے، جب اس ریوڑ نے قافلے والوں کو دیکھا تو  قافلے والوں کے ساتھ دوڑنا شروع کر دیا، کافی دیر ساتھ دوڑنے کے بعد سامنے پانی کا ایک بڑا تالاب نظر آگیا، ریوڑ  پیاسا تو تھا ہی، پانی دیکھتے ہی دیوانہ وار پانی کی طرف دوڑا اور پانی پینا شروع کر دیا۔ بھینسوں نے کافی دیر پانی پیا اور پھر حسبِ عادت پانی میں نہانا شروع کر دیا، اس سے پانی گندا ہونے لگا، تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ بھینسوں نے اس پانی میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ فقیر یہ منظر غور سے دیکھ رہا تھا، جیسے ہی بھینسوں نے پیشاب کرنا شروع کیا اس نے چلانا شروع کر دیا، میں واپس جاوں گا، میں واپس جاوں گا اور یہ کہہ کر واپس چلنے لگا قافلوں والوں نے اسے پکڑا اور کہا یہاں سے خانہ خدا دور نہیں ہے اور روضہ رسولﷺ بھی نزدیک ہے، اتنی مشکلات برداشت کرکے یہاں آگئے ہو تو آگے چلو کیوں واپس ہو رہے ہو؟

فقیر نے کہا میں نہیں چاہتا کہ میرا حال بھی انہی بھینسوں والا ہو؟ قافلہ والوں نے پوچھا وہ کیسے؟ اس پر فقیر نے کہا ان بھینسوں کو پانی کی بڑی طلب تھی، یہ اس کی تلاش میں مری جا رہی تھیں، انہوں نے پانی کی طلب میں ایک لمبا سفر طے کیا اور آخرکار اس کو پا لیا اور جب پا لیا تو پہلے پیا جو اچھی بات ہے، پھر پانی کو گندا کیا اور آخر میں اس میں پیشاب کر دیا۔ میں نہیں چاہتا کہ میری طلب کا بھی یہی حال ہو۔ تمام مشکلات برداشت کرکے جب در خدا اور روضہ حبیبِ خدا پر پہنچوں تو کہیں ایسی گستاخی نہ کر بیٹھوں، جس سے دنیا و آخرت خراب ہو جائے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی سے منسوب یہ حکایت بہت عرصہ پہلے سنی تھی، آج بھی اس کا پیغام تازہ ہے، حج کرنا بہت آسان ہوگیا مگر حج کے تقاضے پورے کرنا بہت مشکل ہے۔ موسم حج آگیا ہے، اللہ کے مہمان پوری دنیا سے اس کے گھر پہنچ چکے ہیں، مکہ کی رونقیں عروج پر ہیں۔ قومی ریاست کے بیانیے نے امت کا تصور دھندلا کر دیا ہے، ہم مسلمان بعد میں اور کسی ریاست کے شہری پہلے ہیں، پر ہماری تربیت ہوئی ہے۔

حج وہ واحد بین الاقوامی سرگرمی ہے، جس کے ذریعے امت کا تصور زندہ ہے اور ہر سال تقویت پاتا ہے۔ جب بھی حج پر کچھ تحریر کرنے لگتا ہوں تو حضرت ابراہیمؑ یاد آجاتے ہیں کہ کس طرح خلیل خدا ایک بے آب و گیاہ جگہ پر اپنے لخت جگر کو خدا کے حوالے کرکے جا رہے ہیں اور اللہ پر یقین ہے کہ یہ جگہ مرکز بنے گی، جہاں خدا کی عبادت ہوگی، قرآن نے اس کو بڑے خوبصورت اسلوب میں بیان کیا ہے: رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ"اے ہمارے رب! بیشک میں نے اپنی اولاد (اسماعیل علیہ السلام) کو (مکہ کی) بے آب و گیاہ وادی میں تیرے حرمت والے گھر کے پاس بسا دیا ہے، اے ہمارے رب! تاکہ وہ نماز قائم رکھیں، پس تو لوگوں کے دلوں کو ایسا کر دے کہ وہ شوق و محبت کے ساتھ ان کی طرف مائل رہیں اور انہیں (ہر طرح کے) پھلوں کا رزق عطا فرما، تاکہ وہ شکر بجا لاتے رہیں۔"

حضرت ابرہیمؑ نے لوگوں کے دلوں کو مکہ کی طرف موڑنے کی دعا کی تھی، اللہ نے اپنے خلیلؑ کی دعا ایسے قبول کی کہ اس دور سے لیکر آج تک ذوالحجہ میں انسان اس طرح سرزمین مکہ کی طرف جاتے ہیں، جیسے شہد کی مکھیاں اپنے چھتوں کی طرف پلٹتی ہیں۔ ہر رنگ، نسل اور زبان کا آدمی آپ کو الہی رنگ میں ڈھلا مِل جائے گا۔ اللہ نے اہل مکہ کو کئی عظمتوں سے نوازا ہے، جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی دعا میں بھی ہے کہ ان لوگوں کو پھلوں کا رزق عطا فرما۔ اہل مکہ ہمیشہ آسودگی میں رہے ہیں، سورہ قریش میں اللہ تعالٰی نے اہل مکہ کی اسی آسودگی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:الَّذِي أَطْعَمَهُم مِّن جُوعٍ وَآمَنَهُم مِّنْ خَوْفٍ"جس نے انہیں بھوک (یعنی فقر و فاقہ کے حالات) میں کھانا دیا (یعنی رِزق فراہم کیا) اور (دشمنوں کے) خوف سے امن بخشا (یعنی محفوظ و مامون زندگی سے نوازا)۔"

یہاں بھی اللہ نے اہل مکہ سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے تمہیں دو نعمتیں عطا کی ہیں، ایک رزق اور دوسرا امن۔ امن اور رزق کا چولی دامن کا ساتھ ہے، جہاں امن ہوگا، وہاں رزق ہوگا، جہاں امن نہیں ہوگا، وہاں کی زمینیں بنجر، کنویں خشک ہو جائیں گے اور وہاں کے بسنے والے ایک ایک نوالے کے محتاج ہو جائیں گے۔ بے شمار مثالیں ہے، لیبیا  ایک امیر ترین مسلمان ملک تھا، بدامنی نے اسے تباہ کر دیا، اب اس کے رہنے والے پوری دنیا میں پناہ مانگتے پھر رہے ہیں۔ کشمیر و فلسطین جنت نظیر تھے، امن نہ ہونے کی وجہ سے برباد ہو رہے ہیں۔ بدامنی ایک ناسور ہے، جس کے اثرات پورے معاشرے پر ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ  معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔

حج سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟ حج کے بے شمار  دروس فوائد ہیں بلکہ حج تو تمام اسلامی احکام کی عملی تربیت کا نام ہے، آپ اسے تربیت گاہ کہہ سکتے ہیں۔ حج سے انسان وقت کی پابندی سیکھتا ہے، حج مخصوص وقت میں مخصوص اعمال سرانجام دینے کا نام ہے، جہاں رات گزارنی ہے، وہاں دس دن بھی گزاریں گے تو کافی نہیں ہیں، اسی طرح ہر عمل ایک مخصوص دن میں انجام دینا، اس کے علاوہ کسی دن میں انجام دیں گے تو کافی نہیں ہے۔ حج سے انسان کو برابری کا درس ملتا ہے، کیونکہ اس میں ہر وہ چیز جس سے انسان کسی پر فخر کرتا ہے، وہ امتیازات ختم کر دیئے جاتے ہیں۔ لباس الگ پہچان اور امتیاز کا ایک ذریعہ ہے، اس کو ختم کرکے سب کو ایک رنگ کا لباس پہننے کا حکم دیا  گیا، زبان الگ تعارف کی وجہ بنتی ہے، اس کی جگہ سب کا کہا گیا کہ تلبیہ سے اپنی زبانوں کو معطر رکھیں اور ہر وقت لبیک اللھم لبیک کی صدائیں زبان سے آرہی ہوتی ہیں۔ انسان حج میں ظالم اور جابر سے نفرت سیکھ کر آتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان چھوٹے درمیانے اور بڑے شیطان کو کنکریاں مارتا ہے تو اس کے دل میں ہر طاغوت سے نفرت پیدا ہوتی ہے۔

جب انسان حجر اسود کا بوسہ لیتا ہے تو یہ اصل میں اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ میں ہر اس چیز سے محبت کرتا ہوں، جو اللہ کی طرف سے آئی ہے۔ جب انسان صفا و مروہ کے درمیان سعی کر رہا ہوتا ہے تو اس وقت انسان کی دل میں خاندان کی عزت و عظمت واضح ہو رہی ہوتی ہے۔ ہر ماں کو اپنے بچے کی پرورش میں مشکلات برداشت کرنا پڑتی ہیں، ان کی مشکلات اگر اللہ کے لئے ہوں تو اس کو اللہ حج کا ایک اہم رکن بنا دیتا ہے۔ میں یہ پڑھ کر حیران ہوا کہ اللہ کو ایک ماں کا اپنے بیٹے کے لئے دوڑنا اس قدر پسند آیا کہ اللہ نے قیامت تک کے آنے والے حجاج کے لئے یہ دوڑنا ضروری قرار دے دیا، تاکہ یہ بات واضح ہو جائے کہ اللہ کو ماں کی اولاد سے محبت بہت عزیز ہے اور یہ محبت ہی ہے، جو خاندان کی بنیاد بنتی ہے۔

حاجی ایک عہدے کا نام ہے، اس لئے ضروری ہے کہ حاجی جب حج کرکے آئے تو وہ مساوات کا نشاں ہو، ظالم کی نفرت اس کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہو، وقت کی پابندی ہو، خاندان میں اصلاح کا امین ہو، رزق حلال کی قدر کرتا ہو، ایک ایسا توبہ کرنے والے ہو، جس کے بعد انسان گناہ نہیں کرتا، اللہ کے احکام کا پابند ہو، غریبوں اور مجبوروں کا دوست ہو۔ حج کے بعد اگر انسان میں یہ تبدیلیاں آئی ہیں تو اس نے حقیقی حج کیا ہے۔ علامہ اقبال کو جب حجاج ملنے آتے تو زم زم کا مقدس پانی تحفے کے طور پر لاتے تھے۔ اقبال کے لئے سب سے بڑا تحفہ وہ پیغام تھا، جو محمدﷺ نے خدا کے حکم سے اس حج میں پنہاں کر دیا تھا، اس پیغام کے نہ ملنے کا شکوہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:
زائران کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ بھی نہیں
خبر کا کوڈ : 745667
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش