0
Wednesday 29 Aug 2018 22:36

عمران خان عوام سے دور نہ ہوں

عمران خان عوام سے دور نہ ہوں
تحریر: سید اسد عباس
 
جب سے عمران خان نے الیکشن جیتا ہے اور ان کی پارٹی کے حکومت میں آنے کے امکانات زیادہ ہوئے ہیں، اس وقت سے ایک چیز جو مجھے محسوس ہوئی، وہ عمران خان کا عوام سے دور ہو جانا ہے۔ 25 جولائی کو انتخابات میں کامیابی کے بعد سے تادم تحریر عمران خان نے دو دفعہ عوام سے خطاب کیا ہے۔ ایک خطاب ان کی وکٹری سپیچ تھا اور دوسرا خطاب بطور وزیراعظم قوم سے خطاب۔ یہ دونوں خطاب بہترین تھے، جن سے عوام کو امید کی ایک نئی کرن ملی، تاہم میڈیا اور عوامی محافل سے یوں دور ہو جانا نہایت عجیب ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی ان کے بہت سے وزراء بھی عوام سے اپنے رابطوں کو کھو چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان اور ان کے وزراء ایسا کس لئے اور کس کے کہنے پر کر رہے ہیں۔؟ یقیناً ان کی حکومتی مصروفیات کافی زیادہ ہوں گی، تاہم عوامی نمائندے کی عوام سے دوری ایک طرح کی خلیج کو جنم دیتی ہے، جس سے مختلف طبقات استفادہ کرتے ہیں۔
 
گذشتہ چند دنوں میں کئی ایک ایسے واقعات سامنے آئے، جن میں اگر وزیراعظم عمران خان خود کوئی وضاحت دے دیتے یا اس کی تحقیق کا حکم دیتے تو مسئلہ اس حد تک نہ پہنچتا۔ خاور مانیکا کی شکایت پر پاکپتن کے ڈی پی او کا تبادلہ، ہیلی کاپٹر کا استعمال، پاکپتن کا دورہ، پنجاب کے وزیراعلیٰ اور گورنر سندھ کے لئے پروٹوکول کا استعمال۔ یہ مسائل اگرچہ اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ ان کو وجہ نزاع بنا کر اس پر ڈھنڈورا پیٹا جائے، تاہم حزب اختلاف اور ان کے حامیوں کو کچھ تو کرنا ہے، لہذا اب وہ اسی کام پر جتے ہوئے ہیں، یعنی کوئی بھی چھوٹی سی اونچ نیچ دیکھی نہیں اور حکومت پر چڑھائی شروع کر دی۔ ہیلی کا خرچہ پچاس روپے ہے یا ہزار روپے، ڈی پی او مانیکا کے کہنے پر بدلہ گیا یا معاملہ کوئی اور تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور گورنر سندھ نے پروٹوکول خود لیا یا انہیں دے دیا گیا۔ یہ سب وہ باتیں ہیں، جو انتہائی سطحی ہیں، تاہم ان افعال سے یہ تاثر پیدا کیا جاسکتا ہے بلکہ کیا جا رہا ہے کہ حکومت کے سادگی، کرپشن فری سوسائٹی، سیاسی مداخلت کے دعوے فقط انتخابی نعرے ہی تھے۔
 
تبدیلی کا نعرہ گذشتہ حکومتوں کے خوبصورت نعروں کی مانند ایک انتخابی نعرہ ہی تھا، جو حکومت کے پہلے ہی ایام میں کھل کر سامنے آگیا ہے۔ میری ذاتی رائے میں بہت سے مسائل سکیورٹی اور نقل و حمل کی دیگر ضروریات سے متعلق ہیں، جیسا کہ وزیراعظم کو سکیورٹی خدشات کے تحت کم از کم دو گاڑیاں رکھنے پر راضی کر لیا گیا، اسی طرح وزیراعظم ہاؤس سے باہر ملٹری سیکرٹری کی رہائش گاہ کو بطور اقامت گاہ منتخب کروایا گیا، جبکہ عمران خان ایسا کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ مجھے اس بات کی نہیں سمجھ آتی کہ ہم کیوں یہ توقع لگا بیٹھے ہیں کہ عمران خان اور ان کے وزراء اب ہمیں میٹرو سٹیشن پر قطار میں کھڑے نظر آئیں گے یا کسی سڑک پر ان کی کلٹس یا مہران میں زیارت ہو جائے گی۔ عمران خان اور ان کی کابینہ کے اراکین کا سادگی اپنانے نیز پروٹوکول نہ لینے کا عزم اپنی جگہ، تاہم ہمیں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ہم پاکستان میں رہ رہے ہیں، جہاں گذشتہ تین دہائیوں میں ہزاروں افراد دہشت گردی کے واقعات میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ملک کے دو وزیراعظم دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں اور صدور نیز وزراء پر جان لیوا حملے ہوئے ہیں۔ الیکشن میں ہونے والے خودکش دھماکے زیادہ دور کی بات نہیں۔ ایسی صورتحال میں ملک کے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داریوں سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی ذمہ داریوں سے آنکھ چرا سکتے ہیں۔
 
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے کہ ملک کا وزیراعظم کسی مغربی ملک کے وزیراعظم کی مانند موٹر سائیکل یا میٹرو میں سفر کرتا نظر آئے گا۔ اس خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچنے کے لئے ابھی وقت درکار ہے۔ فی الحال تو ملک کے وزیراعظم اور اس کے وزراء کی جانب سے سادگی اپنانے اور پروٹوکول نہ لینے کے عزم کو ہی غنیمت جاننا چاہیے، کیونکہ اس سے قبل ایسا بھی نہیں کیا گیا۔ میڈیا پر یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ عمران خان کی مختلف تعیناتیوں اور نامزدگیوں پر بھی خاصی لے دے ہو رہی ہے، کابینہ کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ سب پرانے اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کے بارے میں میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ بالکل نیا یعنی ناتجربہ کار ہے۔ اب کوئی بندہ پوچھے کہ نہ پرانا ہو اور نہ نیا تو پھر کیسا ہو؟ اور اگر وزیراعظم نے آپ سے ہی پوچھ کر سب تعیناتیاں کرنی ہیں تو پھر ان کی کیا ضرورت ہے، میڈیا کے مہا جوتشی ہی ملک کی باگ دوڑ سنبھال لیں اور جسے مناسب سمجھیں، اسے تعینات و معزول کرتے رہیں۔
 
یقیناً میڈیا کا حق ہے کہ وہ سوال اٹھائے، اعتراض کرے، تاکہ حکومت اپنے اقدامات کے بارے میں وضاحت پیش کرے، تاہم میڈیا کو شاید وضاحت کی ضرورت نہیں ہے۔ خاور مانیکا کے مسئلہ کو ہی لے لیجیے، مختلف چینلز کی جانب سے گھنٹوں کی ٹرانسمیشن اس بات پر چلائی گئی کہ خاتون اول کے کہنے پر ڈی پی او کا تبادلہ ہوا ہے، کسی میڈیا چینل نے خاور مانیکا کا موقف یا پنجاب کے آئی جی سید کلیم امام کا موقف نہیں پیش کیا اور نہ ہی وزیراعظم سے براہ راست سوال کیا کہ آپ کی ذات اور گھر پر اتنا بڑا الزام لگ رہا ہے، آپ اس سلسلے میں کیا موقف رکھتے ہیں۔ وزیراعظم اس کو تعینات کر رہے ہیں، وہ کرپشن کے کیسز میں نیب کو مطلوب ہے، گورنر بلوچستان یہ کیسے ہوسکتا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب اسے کیسے لگائیں گے۔ جتنے منہ یعنی چینل اتنی باتیں۔ حکومت بنے دس دن نہیں ہوئے اور میڈیا چینلز لٹھ لے کر حکومت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

تنقید کریں، مثبت تنقید، مسائل کی جانب متوجہ کرنا نہایت ضروری ہے، تاہم جو کچھ ہو رہا ہے، یہ مثبت تنقید نہیں بلکہ ہجوم کرنا ہے۔ یہ ایک طرح سے حکومت اور اس کی وزارتوں کو فرعی مسائل میں الجھانا ہے، یا حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کہ آپ کو ایسے چھوٹے چھوٹے مسائل پر میڈیا ٹرائل کا سامنا کرنا ہوگا۔ امید ہے عمران خان اور ان کے وزراء ان مسائل میں الجھنے کے بجائے پاکستانی عوام کے حقیقی مسائل کی جانب توجہ دیں گے۔ ملک سے بے روزگاری کا خاتمہ، معیشت کا استحکام، اقتصاد کی بہتری، مہنگائی کا خاتمہ، دہشتگردی پر قابو، داخلی اور خارجی مسائل میں آزادنہ پالیسی، قرضوں کے بوجھ سے آزادی، معاشرے میں عدل و انصاف کی فراہمی، قانون کی بالادستی، غریب و پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود، کرپشن پر قابو، اداروں کی بحالی اور اس جیسے دسیوں مسائل گذشتہ کئی دہایوں سے ملک کو کھوکھلا کر رہے ہیں۔

 
میرے خیال میں وزیراعظم پاکستان عمران خان اور ان کے سبھی وزراء کو عوام اور اپنے مابین پیدا ہوتی ہوئی غیر محسوس خلیج کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ مصروفیات جس قدر ہوں، عوام جب اپنے لیڈر کی زبان سے کوئی بات سن لیتے ہیں تو کسی قسم کا شبہ نہیں رہتا اور نہ ہی ڈھول پیٹنے والوں کو معاشرے میں بے چینی کو جنم دینے کا موقع ملتا ہے۔ عمران ریاست مدینہ کی مثال دیتے ہیں، اس ریاست کا حاکم پانچ وقت عوام کے مابین ہوتا تھا، جس کے سبب عوام اور حاکم کے مابین ایک اعتماد کا رشتہ موجود تھا، اسی اعتماد کے سبب سازشی عناصر کو سازشیں کرنے کا موقع میسر نہیں آتا تھا۔ عمران خان کو بھی ایسے اقدامات کرنے چاہیں کہ ان سمیت ان کی مکمل کابینہ کا رابطہ عوام سے بدستور قائم رہے بلکہ مضبوط ہو۔ یہ کلیہ بہت سے مسائل کا حل ہے۔ جس نے بھی دور رہنے کو کہا ہے، غلط کہا ہے، کیونکہ آپ کی طاقت کا سرچشمہ بہرحال عوام ہی ہیں۔
خبر کا کوڈ : 746994
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش