0
Thursday 30 Aug 2018 15:10

پاراچنار، مرکز میں اسلحہ حوالگی کے حوالے سے قومی نمائندہ اجلاس(1)

پاراچنار، مرکز میں اسلحہ حوالگی کے حوالے سے قومی نمائندہ اجلاس(1)
رپورٹ: روح اللہ طوری

کل 29 اگست کو مرکزی امام بارگاہ پاراچنار میں اسلحہ کی حوالگی کے حوالے سے انجمن حسینیہ کے زیر اہتمام ایک اہم اجلاس کا انعقاد ہوا، جس میں طوری بنگش قبائل کی آٹھ اقوام (بنگش، حمزہ خیل، مستوخیل، علی زئی، غُنڈیخیل، دوپرزئی، ہزارہ و خوشی اور لیسانی و بڈا خیل) کے عمائدین سمیت تحریک حسینی کے رہنماؤن نے بھی بھرپور شرکت کی۔ اجلاس کا باقاعدہ آغاز سید صادق حسین نے قرآن مجید کی تلاوت سے کیا۔ اسکے بعد سٹیج سیکرٹری صوبیدار شبیر حسین نے حاجی نور محمد کو میٹنگ کا ایجنڈا پیش کرنے کی دعوت دی۔ سیکریٹری انجمن حسینیہ حاجی نور محمد نے میٹنگ کا ایجنڈا پیش کرتے ہوئے پچھلے دن بریگیڈیئر جناب اختر علیم کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انہوں نے بھاری اسلحہ کو جمع کرکے لسٹ حاصل کرنے، نیز بارود، انٹی ٹینک اور پرسونل مائنز کو فوری طور پر حوالے کرنے کی بات کی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے عمائدین سے اپنا موقف بیان کرنے نیز اس حوالے سے ایک قومی فیصلہ کرنے کی درخواست کی۔ ضمناً انہوں نے یہ بھی کہا کہ اہلیان صدہ میں سے کچھ کے علاوہ اکثر اپنے علاقوں میں جانے کو تیار نہیں، چنانچہ انہیں قومی سطح پر آمادہ کرکے صدہ میں آباد کرایا جائے۔

حاجی نور محمد کے بعد صوبیدار شبیر حسین نے بنگش قوم کے نمائندے سابق پرنسپل ریٹائرڈ گل اکبر کو دعوت دی۔ سابق سیکرٹری انجمن حسینیہ گل اکبر نے اپنے خطاب میں کہا کہ یہ مسئلہ ان کے دور میں بھی اٹھایا گیا تھا۔ خرلاچی پوسٹ میں میٹنگ کے دوران کرنل اجمل نے ہم سے کہا کہ آپ اپنا اسلحہ ہمارے حوالے کر دیں، ضرورت پڑنے پر ہم آپکو دوبارہ فراہم کرینگے، تاہم ہم نے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ اس کے بعد مذاکرات در مذاکرات ہوئے جو بالآخر اس بات پر منتج ہوئے کہ ہر علاقے سے قومی اسلحہ کے انچارج کا نام دیا جائے، تاکہ یہ اسلحہ کسی دوسری جگہ شفٹ یا بِک نہ پائے۔ انہوں نے کہا کہ اب جبکہ اس مسئلے نے دوبارہ سر اٹھایا ہے تو ساری قوم کو اتفاق میں رہنا چاہئے، کیونکہ اتفاق و اتحاد کے ساتھ اگر کوئی غلط فیصلہ بھی ہو جائے تو وہ قدر و قیمت کے قابل ہوتا ہے، جبکہ بے اتفاقی اور نفاق میں صحیح فیصلہ بھی کوئی قدر و قیمت نہیں رکھتا۔

انہوں نے کہا کہ خبردار یہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ آج نہیں تو کل یہ دوبارہ سر اٹھائے گا، کیونکہ اب تو ایجنسی ایجنسی نہیں رہی بلکہ ضلع بن گئی ہے۔ چنانچہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اس کا مستقل حل ڈھونڈا جائے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے یہ بات بار بار کی ہے جو کہ ایک حقیقت بھی ہے کہ ہر قوم کی دیگر ممالک میں جگہ ہے، تاہم تین اقوام کیلئے دیگر مقامات میں کوئی گنجائش نہیں، وہ اقوام انڈین، اسرائیل اور اہلیان پاراچنار ہیں۔ جن کے لئے کہیں اور کوئی گنجائش نہیں۔ چنانچہ ہمارے لئے پاراچنار کے علاوہ کہیں اور کوئی گنجائش نہیں، ہمیں پاراچنار ہی میں رہنا ہوگا، خواہ کچھ بھی ہو جائے۔ یہاں سے نکلنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد قوم (قبیلہ) دوپرزئی کے نمائندے حاجی ضامن کو دعوت دی گئی۔

سابق سیکرٹری حاجی ضامن حسین نے کہا کہ اس سے قبل 2002ء میں انور (المعروف انوری) سیکرٹری کے زمانے میں بھی اس وقت کے پی اے ظہیر الاسلام نے ہتھیار حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہم نے قومی سطح پر جگہ جگہ کچھ ہتھیار جمع کرکے حکومت کے حوالے کئے تھے۔ انہوں نے گل اکبر کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے زمانے میں بھی اس مسئلے کے حوالے سے ہم خرلاچی پوسٹ میں کرنل اجمل سے ملے، وہ پورے کرم خاص طور پر خرلاچی اور بوڑکی سے ہتھیار جمع کرنے پر اصرار کر رہے تھے۔ بالآخر ان کے ساتھ یہ طے پایا کہ ہر گاؤں سے ان ذمہ دار افراد کی لسٹ مہیا کی جائے، جنکے پاس قومی ہتھیار موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ ذمہ دار افراد کو حکومت پر واضح کرنا چاہئے کہ ہمارا اسلحہ کب سرکار کے خلاف استعمال ہوا ہے، یا ہم نے کب غیر شرعی کام کیا ہے۔ کب ہم نے دھماکہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بارودی مواد کے ہم بھی خلاف ہیں، تاہم گرنیڈ کبھی دہشتگردی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ یہ تو محاذ کی ایک اہم ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ارد گرد دشمن پڑا ہے، جب تک ہمیں ارد گرد دشمن سے تحفظ کی ضمانت نہیں ملتی، اس وقت تک اسلحہ کی حوالگی کی بات معاندانہ ہے۔

اسکے بعد غونڈی خیل قبیلے کی نمائندگی کرتے ہوئے کیپٹن علی اکبر نے کہا کہ اسلحے کے بغیر بیرونی دشمن تو کیا، ہم اندرونی چوروں سے بھی خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں ماضی سے عبرت حاصل کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ مرکز کو مضبوط کیا جائے۔ مرکز کے بغیر ہمارے فیصلوں کا حل ممکن نہیں۔ تاہم اسلحہ کے بل بوتے پر ہم زندہ ہیں، ورنہ آج ہم بھی دوسری ایجنسیوں کے قبائل کی طرح طالبان اور داعش کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوکر رہ جاتے۔ حاجی حامد حسین نے مستوخیل قوم کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے کے لئے پہلے ہی ایک 45 رکنی کمیٹی بنائی جاچکی ہے۔ وہ لوگ جو فیصلہ کریں، اپنی قوم کے لئے جوابدہ ہون گے۔ اسکے علاوہ ان افراد کا اپنے قبیلے پر اثرورسوخ چلتا ہے، وہ کہیں تو سب کچھ جمع کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صدہ و پاراچنار میں آبادکاری کا مسئلہ برابری کے اصول پر حل کرایا جائے۔ دونوں مقامات پر متاثرین کو بیک وقت اور برابر تعداد میں آباد کرایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ پوری قوم سیکرٹری کے ساتھ کھڑی ہے، تاہم ہمیں حکومت پر واضح کرنا چاہئے کہ بالشخیل کا مسئلہ فوراً حل کیا جائے۔ وہاں غیر قانونی آبادی پر اسی ڈی سی بصیر خان وزیر کی جانب سے مسماری کے احکامات صادر کئے جاچکے ہیں، مگر مسماری تو کیا وہاں آبادی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی کی املاک غصب نہیں کرتے، نہ ہی ہمیں شریعت اجازت دیتی ہے۔ چنانچہ کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ نہیں کرینگے، تاہم کسی دوسرے کو ہماری زمین پر قبضہ کرنے کا بھی کوئی حق نہیں۔ خیال رہے کہ 2010ء میں بالش خیل کی اسی اراضی پر ناجائز قبضے کے خلاف علامہ عابد حسینی کی جانب سے ایک طویل تحریک چلی، تو اس ڈی سی محمد بصیر، جو اس زمانے میں پی اے تھے، نے ان غیر قانونی گھروں کو مسمار کرنے کے احکامات صادر کئے تھے، تاہم بقول محمد بصیر کے حاجی حامد حسین ہی نے بعض سیاسی مصلحتوں کے تحت انہیں ان گھروں کو مسمار کرنے سے روکا تھا۔

اسکے بعد حاجی سید علی اکبر نے حمزہ خیل قبیلے کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ اس مسئلے پر سب کا اتفاق ہے کہ اسلحہ ہم نہیں دے سکتے، جبکہ خطرناک مواد کا استعمال شریعت کے لحاظ سے بھی حرام اور ناجائز ہے، تاہم ہمارے پاس تو سوائے چھوٹے ہتھیار کے کچھ ہے ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرحدوں کی حفاظت حکومتی اہلکار تنخواہ لیکر ایسی نہیں کرسکتے، جس طرح ہم بغیر تنخواہ کے کر رہے ہیں۔ چنانچہ انہیں ایسا مطالبہ سرے سے کرنا ہی نہیں چاہیئے۔ ہاں خطرناک مواد کے حوالے سے ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ یہ مواد لاکر سیکرٹری کے پاس جمع کرائیں، جو انہیں نام بتائے بغیر حکومت کے حوالے کر دے گا۔ انکے بعد علی زئی قوم کی نمائندگی پیواڑ کے رہائشی حاجی سلطان حسن نے کی۔ انہوں نے کہا کہ ان پر کیوں اتنا وقت ضائع کر رہے ہو۔ نمائندہ کمیٹی بیٹھ کر متفقہ ایک فیصلہ کرلے، وہی قوم کا فیصلہ ہوگا۔ لسیانی اور بڈاخیل کی نمائندگی کرتے ہوئے صوبیدار شُندی گل نے کہا کہ آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا حماقت ہے۔ ہم نے حکومت کو باربار آزمایا ہے۔ انکی موجودگی میں ہمارے کانوائے لوٹے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک قوم کے حقوق بحال نہیں کئے جاتے، کسی بات پر مذاکرات نہیں کرنا چاہیئے۔ صدہ کے حوالے سے کہا کہ قوم کی طاقت سے اہلیان صدہ کو زبردستی نکال کر اپنے اپنے مقامات تک پہنچایا جائے۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
خبر کا کوڈ : 747059
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش