0
Saturday 1 Sep 2018 13:46

امامت و ولایت (6، 7)

امامت و ولایت (6، 7)
تحریر: میجر (ریٹائرڈ) محمد نصیر

غدیر کے مقام پہ اعلان مولائیت کے بعد رسول اعظم نے نہایت خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا، "اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة۔۔۔۔۔۔۔"ترجمہ: میں اللّٰہ کی عظمت و بزرگی بیان کرتا ہوں، تکمیلِ دین، اتمامِ نعمت اور اپنی رسالت اور علی ابن ابی طالب (ع) کی ولایت پر خداوند عالم کی رضامندی کی وجہ سے۔ (مفاتح النجافی مناقب آل العباء بدخشی)۔ اس کے بعد مبارکباد کا سلسلہ شروع ہوا اور غالباً سب سے پہلے حضرت عمر نے آگے بڑھ کر ھدیہ تبریک پیش کیا۔ تفسیر کبیر، ج ۳، صفحہ ۲۳۶ پر مرقوم ہے۔ "فلقیہ عمر فقال ھئیا لک یا ابن ابی طالب اصبحت مولائ و مولٰی کل مومن و مومنة۔۔۔" اے فرزند ابو طالب مبارک ہو مبارک! کہ آپ میرے اور ہر مومن مرد اور مومنہ عورت کے مولا و آقا ہو گئے۔۔۔۔(تاریخِ بغداد، جلد ۸، ص ۲۹۰ میں لفظ ھئیا کی جگہ بخ بخ یابن ابی طالب مذکور ہے۔ حضرت عمر کی مبارکباد کا تذکرہ مسند ابو یعلی و تفسیر ابن جریر، جلد ۳، ص ۴۴۸ اور فصول مہمہ ابن صباغ مالکی، ص ۲۵، سرالعالمین غزائی، ص ۱۱ تذکرہ سبط ابن جوزی، ص ۱۸،طبع ایران پر بھی مذکور ہے۔ بہر حال یہ واقعہ یعنی غدیر والی حدیث شریف صحیح بلکہ متواتر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مابعد لوگوں نے اپنا زیادہ زور اس حدیث کی معنوی تحریف و تاویل پر صرف کیا ہے۔ کسی نے اس حدیث کی صحت و صحیح ہونے کو چیلنج نہیں کیا ہے۔

ہم اس حدیث کے متعلق ایک ایک لفظ قرآن پاک سے اس سے ربط و تعلق کے متعلق، اور واقعہ غدیر کے متعلق ھر ایک پوائنٹ پہ مدلل اور ٹھوس عقلی و نقلی دلائل و برہان رکھتے ہیں اور کسی بھی فورم پہ  یہ دلائل و برھان دینے کیلیے ھر  وقت تیار و آمادہ ہیں الحمدللہ۔ حسان بن ثابت شاعر نے غدیر کے مقام پہ اس وقت جو قصیدہ پڑھا وہ پڑھنے کے لائق ہے، طوالت کی وجہ سے یہاں نقل نہیں کر رہا ان اشعار کو خاصہ و عامہ نے تواتر سے روایت کیا ہے۔ روایت ہے کہ جب حسان یہ اشعار کہہ رہا تھا تو پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا ترجمہ: اے حسان! تو ھمیشہ روح القدس کے ساتھ مؤید رہے گا، جب تک زبان سے ہماری مدد کرتا رہے گا۔ خدا ھم سب کو بھی محمد و آل محمد (ص) کے جانثاروں میں شامل فرمائے اور غدیر کے اھم پیغام کو احسن اور مدلل  انداز اور طریقے سے آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگلی چند قسطوں میں غدیر و ما بعد کے عنوان سے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کی نشاندھی کی جائے گی اور آئمہ اہل بیت (ع) کی امامت و ولایت و خلافت کے متعلق عقلی و نقلی ٹھوس دلائل پیش کیے جائیں گے۔ پروردگار عالم ھمیں شرح صدر عطا فرمائے اور دین فہمی اور دین شناسی عطا فرمائے۔ آمین

قسط نمبر: 7
"اَلْيَوْمَ يَئِـسَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ دِيْنِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُـمْ وَاخْشَوْنِ ۚ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا"۔(سورہ المائدہ ۔ آیت۔ ۳) وَاللّـٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ لَا يَـهْدِى الْقَوْمَ الْكَافِـرِيْنَ ( سورہ مائدہ ۔ ۶۷) يَآ اَيُّـهَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ تفسیر صافی صفحہ۔ ۱۳۹ پر بحوالہ کافی جناب امامِ باقر (ع) سے ایک حدیث منقول ہے کہ علی (ع) کی ولایت کے اعلان کا حکم جمعہ کے دن روز عرفہ بھی آیا   تھا۔ آیت ولایت اسی دن نازل ہوئی تھی اور دین کی تکمیل بھی علی (ع) کے اعلانِ ولایت پر ہی ہوئی تھی۔ رسول (ص) نے خدا تعالٰی سے عرض کی کہ میری امت ابھی ابھی کفر سے اسلام میں داخل ہوئی ہے، اگر میں اپنے ابن عم کے بارے میں اطلاع دوں گا تو کوئی کچھ کہے گا اور کوئی کچھ ۔ آنحضرت (ص) فرماتے ہیں کہ یہ بات میں نے زبان سے نہیں کہی تھی صرف میرے دل میں ایسا خیال گزرا تھا کہ خدا کا دوسرا حکم آ پہنچا، جس میں مجھے ڈرایا گیا تھا کہ اگر میں نے اس حکم کو نہ پہنچایا تو گویا میں نے رسالت کا کوئی کام ہی نہیں کیا اور ساتھ مجھے اللہ نے گارنٹی دی کہ اللّٰہ آپ کو لوگوں سے محفوظ رکھے گا، بے شک اللّٰہ کافروں کی راہنمائی نہیں کرتا

یہاں کفر سے مراد آیت بلغ کے مندرجات سے انکار ہو سکتا ہے۔ سورہ مائدہ رسول اکرم (ص) کی حیات طیبہ کے آخری دنوں میں نازل ہوا۔ اور یہ آیات ۱۸ ذی الحج ۱۰ ھجری، غدیر کے مقام پہ نازل ہوئیں، جہاں رسول (ص) نے تقریب منعقد کی اور اصحاب کے جم غفیر کے سامنے خطبہ غدیر دیا اور علی (ع) کی مولائیت و اولویت کا اعلان فرمایا اور صحابہ کرام سے تسلیم کروایا، بیعت لی اور حکم دیا کہ یہ پیغام جو غائب ہیں حاضر نہیں ہیں ان تک بھی پہنچا دیا جائے اور اعلان غدیر کے فوراََ بعد آیت نازل ھوئی، آج کافر لوگ مایوس ہو چکے اور دین مکمل ہو گیا، نعمت تمام ہو گئی، اگر اس آیت پہ غور و فکر کیا جائے، تو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ اعلان غدیر  سے کفار مایوس ہو گئے مگر منافقین، مشرکین، قاسطین، مارقین، ناکثین اور خوارجین نے اسلام کی دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ رسول اکرم (ص) کے زمانہ میں ساری جنگیں کفار سے لڑیں گئیں اور ایک مومن دس پہ بھاری ثابت ہوتا رہا، علی (ع) کفار کے خلاف ہر جنگ میں فاتح نظر آتے ہیں مگر بعد از رسول (ص) شیر خدا  لافتٰی الا علی لا سیف الا ذوالفقار کے مصداق علی (ع) کے مقابل منافقین و خوارج یعنی نام نہاد مسلمان لڑتے رہے اور جتنا نقصان اسلام کو ان نام نہاد مسلمانوں نے پہنچایا کفار بھی نہ پہنچا سکے۔

رحلت رسول (ص) کے بعد کفار خدا کے ارشاد کے مطابق مایوس ہیں اور اسلام کے مقابل براہ راست آنے سے خائف و خوفزدہ بھی۔ لہٰذا کفار نے منافقین، خوارجین، قاسطین، مارقین و ناکثین کو مسلمانوں کے اندر سے سپورٹ کرنا شروع کر دیا اور ان کے دلوں میں جو اسلام دشمنی نفاق کی شکل میں تھی اس کو اور ابھارا اور تقویت دی اور اس دشمنی کے اثرات رحلت رسول (ص) سے لے کر آج تک ہم بھگت رہے ہیں۔ علی (ع) جیسے مدبر و شجاع، اشجع الناس، شیر خدا  کو  بھی بعد از غدیر منافقین سے پالا پڑا اور علی (ع) اور باقی آئمہ اطہار (ع) ایک ایک کر کے مظلومیت سے شہید کئے جاتے رہے۔ اس کے علاوہ غدیر کے بعد کیا فیکٹر تھے جن کی وجہ سے ھم غدیر کے حقیقی ثمرات حاصل نہ کر پائے، ان پہ اگلی اقساط میں  لکھا جائے گا، انشاءاللہ تعالیٰ۔۔۔دعاء ہے کہ رب تعالٰی  ھمیں علی (ع) اور آئمہ اطہار (ع) کی امام و اولی الامر، ولی، باب الحکمت، باب العلم اور ھادی و راھنماء کی حیثیت سے صحیح معرفت و مؤدت عطا فرمائے اور ان کے سیرت و کردار  پہ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ الہیٰ آمین
(جاری ہے)
 
خبر کا کوڈ : 747394
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش