0
Saturday 1 Sep 2018 22:38

عقیدے کی بنیاد پر ہزارہ کا ایک صدی سے جاری قتل عام

عقیدے کی بنیاد پر ہزارہ کا ایک صدی سے جاری قتل عام
تحریر: سعید علی پٹھان

 ہزارہ نسل کے آباو اجداد اصل میں منگولیا سے تعلق رکھتے ہیں، جنہوں نے چینگیز خان کی قیادت میں دنیا میں فتوحات کیں۔ منگولیا مشرقی ایشیا میں واقع ملک جو چاروں طرف سے زمین سے گھرا ہو ہے، جس طرح جزیرہ زمین کے اس حصے کو کہتے ہیں، جو چاروں طرف پانی سے گہرا ہو۔ منگولیا کے دو پڑوسی ملک ہیں ایک چین اور دوسرا روس۔ چینگیز خان کی جنگوں کے بعد یہ نسل افغانستان، پاکستان، ایران، آسٹریلیا، یورپ اور انڈونیشیا میں آباد ہیں۔ افغانستان میں 30 لاکھ، پاکستان میں 10 لاکھ، ایران میں 5 لاکھ، آسٹریلیا میں ڈیڑہ لاکھ اور یورپ میں 18 ہزار اور کینیڈا میں 4 ہزار آباد ہیں۔ افغانستان کی آبادی کا 10 فیصد ہزارہ ہیں۔ طالبان کے دور حکومت میں ہزارہ جات کی جب بامیان اور مزار شریف میں نسل کشی شروع ہوئی تو 50 ہزار افراد پاکستان نقل مکانی کرکے آئے۔  ان کی اکثریت 12 امامی یا اثناء عشری ہیں جبکہ کچھ اسماعیلی اور سنی بھی ہیں۔

ہزارہ لفظ فارسی لفظ ہزار سے نکلا ہے، کیونکہ منگولیا میں منگ لفظ کی معنی ہے ایک ہزار افراد کا فوجی دستہ۔ اب پاکستان، افغانستان اور ایران میں منگولیا نسل کے لوگوں کی ہزارہ سے پہچان ہوتی ہے، ان کو ایران میں خاوری بھی بولا جاتا ہے۔ 16ویں صدی کی آخر میں ایران پر شاہ عباس صفوی کی پہلی ایرانی شیعہ حکومت کی کوششوں سے ہزارہ نے شیعہ اسلام قبول کیا۔ ہزارہ کا قتل عام عقیدے کی بنیاد پر ایک صدی سے جاری ہے۔ ہزارہ افغانستان میں 13 وین صدی سے آباد ہیں، مگر انہوں نے ہمیشہ امتیازی سلوک کا سامنا کیا ہے، کوئٹہ اور کابل میں ان کا خودکش حملوں کی صورت میں "اجتماعی قتل عام"  ہوتا رہا ہے۔ یہ  مختلف اوقات میں نام نہاد "جھاد" کا ایندھن بھی بنتے رہے ہیں، ان کیخلاف 1880ء سے 1901ء تک افغانستان میں امیر عبدالرحمان کی حکومت میں قتل عام کیا گیا، 1970ء سے افغانستان میں ہزارہ کے قتل کو جنت کی چابی جیسے فتوی دیئے گئے۔

1988ء میں ہزارہ نے افغانستان میں حزب وحدت نامی پارٹی کی بنیاد رکھی، 1992ء میں افغان صدر برہان الدن ربانی کے کہنے پر احمد شاہ مسعود نے ہزارہ کا بے رحمانہ قتل عام کرکے ان کی عورتوں سے زیادتی کی۔ 1992ء میں عبدالعلی مزاری جو کہ ہزارہ کے سرکردہ رہنما تھے، انہوں نے عالمی طور پر اس قتل عام پر آواز اٹھائی اور طالبان کے ساتھ امن کا معاہدہ کیا، مگر انہیں 1995ء میں شہید دیا گیا۔ اس کے بعد حزب  وحدت عبدالرشید دوستم کی شورایٰ عالی دفاع کا حصہ بن گئی، جو آگے چل کی شمالی اتحاد کے نام سے مشہور ہوا۔ 1996ء سے 2001ء تک طالبان کی حکومت میں ہزارہ کا قتل عام کیا جاتا رہا۔ طالبان نے ہزارہ کے ثقافتی ورثہ کو تہس نہس کیا اور 21 مارچ کو منائے جانے والے دن "جشن نوروز" پر پابندی عائد کردی۔ 2001ء میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہوں نے سکھ کا سانس لیا اور ان کو آبادی کے تناسب سے پارلیمینٹ میں 61 نشتیں دی گئیں اور اس وقت سے ان کے حالات زندگی میں بہتری آنا شروع ہوئی۔ پارلیامینٹ کے 25 فیصد ممبران ہزارہ ہیں۔ افغانستان کی پہلی میئر عورت عذرا جعفری بھی ہزارہ ہے۔ ہزارہ کمیونٹی میں عورتوں کو باقاعدہ پڑھانے کا رواج ہے۔


شام میں داعش کی ناکامی کے بعد ان کیلئے افغانستان محفوظ ٹھکانہ بنا ہوا ہے، جہاں پر وقفہ وقفہ سے ہزارہ پر خودکش حملوں کا سلسلہ جاری ہے، جس میں کافی ہزارہ شہید ہوئے ہیں۔ مساجد، اسکول،  ثقافتی مراکز خودکش حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ کابل کا علاقہ "دشت بارچی" کوئٹہ کی ہزارہ ٹائون یا مھر آباد ہے، جہاں پر  ایک تعلیمی ادارے کو خودکش بمبار نے نشانہ بنایا، جس میں 40 کے قریب طلباء جو مھدی موعود اکیڈمی میں اعلیٰ تعلیم کی تیاری میں مصروف تھے، انہوں نے جام شھادت نوش کیا ہے۔ بمبار نے ان طلباء کو جو علم کے حصول میں مصروف تھے، انہیں نشانہ بنا کر اپنی جاہلیت کا ثبوت دیا ہے۔ علم کے دشمن جنت کی جھوٹی لالچ میں معصوم انسانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ ثقافتی اور تعلیمی مراکز پر حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ جاہلیت کا دور ختم نہیں ہوا۔

گذشتہ دو سال میں فقط کابل میں شیعہ مساجد، اسکولوں اور ثقافتی مراکز پر 13 حملے کئے گئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ادارے دہشتگردوں کا آسان ہدف ہیں اور حساس ادارے اور سکیورٹی فورسز ایک علاقے کو سنبھالنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دشمن ہزارہ کی علمی، مذہبی اور کھیل و کود کی ترقی سے خائف ہے، ہزارہ نے عالمی مقابلوں میں افغانستان کی نمائندگی کرتے ہوئے کافی گولڈ میڈل جیتے ہیں۔ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کیخلاف جنگ سے دشمن کے ذہنی اپاہج پن کا پتہ چلتا ہے۔ افٖغانستان میں داعش، تکفیری اور انتہا پسند عناصر کو شکست دینے اور جان چھڑانے کیلئے موثر حمکت عملی کی ضرورت ہے۔
 
خبر کا کوڈ : 747510
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش