0
Wednesday 5 Sep 2018 15:30

مولانا فضل الرحمٰن، مزاحیہ صدارتی پروگرام

مولانا فضل الرحمٰن، مزاحیہ صدارتی پروگرام
تحریر: ڈاکٹر عبداللہ حجازی
 
مولانا فضل الرحمٰن بظاہر صدارتی انتخاب تو ہار گئے لیکن اس سارے میلے ٹھیلے میں جو مزاحیہ پروگرام جاری رہا، وہ ایک عرصے تک پاکستانیوں کو گدگداتا رہے گا۔ مولانا کا خیال آئے گا تو کئی لوگوں کی باچھیں کھل جائیں گی اور مسکرائے بغیر تو شاید کوئی بھی نہ رہے۔ عام انتخابات میں مولانا قومی اسمبلی کے دو حلقوں سے انتخابات ہار گئے لیکن وہ ہار ماننے والے نہ تھے، انہوں نے کسی اور راستے سے ہار پہننے کا فیصلہ کیا۔ شروع شروع کے دنوں میں تو وہ بہت غصے میں تھے۔ انہوں نے اے پی سی بلائی اور پھر میڈیا کے سامنے سب کی طرف سے حلف نہ اٹھانے کا اعلان کر دیا۔ شہباز شریف بہت سیانے ہیں، انہیں پتہ ہے کہ حلف نہ اٹھانے کا کیا مطلب ہے۔ لہٰذا انہوں نے مولانا کے سامنے ہی یہ کہہ دیا کہ ہم ابھی اس سلسلے میں مشورہ کرکے فیصلہ کریں گے۔ سیاست کے شعبے میں جب کوئی کسی اجتماعی فیصلے کے موقع پر مشورہ کرکے فیصلہ کرنے کی بات کرتا ہے تو سمجھ لیں کہ وہ اس فیصلے میں شریک نہیں ہے۔ احباب کو یاد ہوگا کہ مولانا فضل الرحمٰن کو کراچی میں ایم کیو ایم کے خالد مقبول صدیقی نے بھی صدارتی ووٹ کے حوالے سے یہی جواب دیا تھا کہ وہ رابطہ کمیٹی سے مشورہ کرکے جواب دیں گے، گویا وہ کہہ رہے تھے کہ ووٹ نہیں دیں گے۔ جی ڈی اے نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کی۔
 
مولانا کا غصہ ٹھنڈا کرنے میں ان کے جگری یار زرداری نے بہت زبردست کردار ادا کیا۔ پہلے تو انہوں نے اے پی سی میں نہ آنے کا فیصلہ کیا اور بعد میں مولانا کو قائل کیا کہ ہم اسمبلیوں میں جا کر دھاندلی زدہ الیکشن کے خلاف مہم چلائیں گے۔ ہم انتخابات کے نتائج کو قبول نہیں کرتے، لیکن یہ بات ہم حلف اٹھانے کے بعد کہیں گے۔ مولوی حضرات سادہ ہوتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن کے بارے میں اگرچہ ہماری یہ بات کوئی ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ وہ بھی ایک سادہ سے مولوی ہیں، لیکن اگر باریک بینی سے گذشتہ چند ہفتوں میں ان کے سیاسی دوستوں نے ان کے ساتھ جو ہاتھ کئے ہیں، انہیں دیکھا جائے تو مولانا کے بارے میں آپ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم سیاسی دوستوں کے مقابلے میں وہ ضرور سادہ ہیں۔ صدارتی انتخاب کے بارے میں یہ کوئی گورکھ دھندہ نہ تھا کہ انتخاب کون جیتے گا، کیونکہ سادہ حسابات کے مطابق تحریک انصاف ہی کا نمائندہ کامیاب ہونا تھا، لیکن کسی کے دل میں جوت جگا دینا اور امید کا دیا جلا دینا اچھے سیاستدانوں کا وطیرہ ہے تو کیوں نہ اس کے لئے مولانا فضل الرحمٰن کی حوصلہ افزائی کی جاتی۔
 
آپ غور کیجئے، وہی مولانا جو انتخابات کے بعد پہلی اے پی سی میں حلف نہ اٹھانے پر بضد تھے، انہیں انہی انتخابات میں کامیاب ہونے والے نمائندوں کے سامنے صدارتی امیدوار بنا کر کھڑا کر دیا۔ جہاں انہیں قومی اسمبلی ہی نہیں بلکہ چاروں صوبائی اسمبلیوں سے ووٹ مانگنا تھا بلکہ ایک ایک کے پاس جا کر ووٹ کی درخواست کرنا تھی، اگر ان کا انتخاب ہی صحیح نہ تھا اور وہ جعلی اور دھاندلی زدہ انتخابات کے ذریعے کامیاب ہوئے تھے تو پھر مولانا کس منہ سے ان سے ووٹ مانگ رہے تھے۔ پھر بفرض محال اگر وہ کامیاب بھی ہو جاتے تو کیا وہ دھاندلی زدہ انتخابات میں کامیاب ہونے والوں کے منتخب صدر ہوتے؟ کیا ان صدارتی انتخاب کا مرحلہ گزرنے کے بعد مولانا یہ کہنے کے قابل ہیں کہ انتخابات دھاندلی زدہ تھے؟ اب جس کی مرضی ہے مولانا کو بہت عقلمند اور دانشمند کہہ لے، ہم تو ان کو ایک سادہ دل درویش ہی کہہ سکتے ہیں۔
 
بات یہیں کب ختم ہو جاتی ہے، مولانا کے ساتھ یار لوگوں نے وہ وہ جگتیں کیں کہ سننے والے ابھی تک لوٹ پوٹ ہو رہے ہیں اور ہم استغفراللہ استغفراللہ کہہ رہے ہیں۔ شاید سب سے پہلے ایم کیو ایم کی خوشبخت شجاعت نے یہ کہا کہ مولانا کی حالت تو یہ ہے کہ رشتہ کروانے گئے تھے اور اپنا نکاح پڑھوا کر آ گئے۔ شیری رحمان بھی پیچھے نہ رہیں حالانکہ انہی دنوں میں وہ ان کے پہلو میں اٹھتے بیٹھتے کتنی تصویریں بنوا چکی تھیں۔ انہوں نے بھی چٹکی لی اور کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نکاح پڑھانے گئے تھے اور خود نکاح کروا کر آگئے۔ یہی بات اعتزاز احسن نے ایک انٹرویو میں کہی، پھر تو جتنے منہ اتنی باتیں، اللہ دے اور بندہ لے۔ مولانا نے بھی خوشگوار موڈ میں اعتزاز احسن پر پھبتی کسی اور کہا کہ طنزیہ باتیں نہ کی جائیں کہ رشتہ لے کر گئے دولہا بن کر آگئے کیونکہ اعتزاز احسن ایسا دولہا ہیں جسے نہ گھر والے مان رہے ہیں نہ سسرال والے، اس لئے کیوں نہ ایسے دولہا پر اتفاق کر لیا جائے جسے سب مان رہے ہیں۔ بہرحال اپوزیشن کے دونوں دولہے آپس میں لڑتے رہے اور ایک دوسرے کے لتے لیتے رہے اور دل والے دلہنیا لے گئے، صدارت کسی اور کی ہوگئی۔
 
پروگرام صرف مزاحیہ نہ رہا بلکہ مزاح میں کچھ کچھ اڑیل سنجیدگی بھی اپنا منہ بسورے جلوہ گر ہوتی رہی۔ پیپلز پارٹی کے قمرالزمان کائرہ نے کہا کہ صدارتی انتخاب میں مولانا فضل الرحمٰن کا رویہ انتہائی نامناسب رہا۔ مولانا بھی اس ہنگامہ ہاو ہو میں جواب آں غزل سے نہ چونکے ایک موقع پر کہنے لگے کہ پیپلز پارٹی صدارتی انتخاب کا ووٹ نہ دے کر نظریہ پاکستان اور اسلامی ریاست قائم کرنے والوں کی مخالفت کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کے بعض راہنماﺅں نے تو یہاں تک کہا کہ ہم مولانا فضل الرحمٰن کو صدارتی انتخاب میں کیسے ووٹ دے سکتے ہیں، ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ایک اور سیاستدان نے ہنستے ہنستے کہا کہ آپ ہی سوچیں کہ اگر خدانخواستہ خدا نخواستہ مولانا فضل الرحمٰن صدر بن گئے تو ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اب سب اپنا سا منہ لے کر بیٹھے ہیں اور ہم مولانا کی طرف سے کہہ رہے ہیں کہ اب جاﺅ سب اپنا یہی منہ دنیا کو دکھا لو۔ اس میں نہ سہی اگلی اسمبلی میں، میں تمھیں پھر دیکھ لوں گا۔
 اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!
خبر کا کوڈ : 748248
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش