QR CodeQR Code

پومپیو کا دورہ، پاکستان و امریکہ تعلقات کی از سرنو ترتیب

6 Sep 2018 04:15

اسلام ٹائمز: ایک بات طے ہے کہ معاملہ صرف افغانستان و طالبان تک محدود نہیں ہے، چین، ایران و روس کے تعلقات کو بھی حد میں رکھنے کی ڈکٹیشن کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کو اسکے کوٹہ سے زیادہ قرضہ دینے پر آمادہ ہوگیا تو سمجھیں کہ پومپیو کا دورہ پاکستان چند گھنٹوں پر محیط سہی، لیکن نتیجہ بخش تھا۔ بظاہر یہ قرضہ پاکستان کے حق میں محسوس ہوگا، لیکن مزید خدمات کی انجام دہی کی شرط منوائے بغیر امریکہ آئی ایم ایف سے دباؤ کیوں ہٹائے گا؟ عمران خان کی انصافین حکومت سے کم از کم مجھے تو یہ توقع نہیں ہے کہ یہ امریکہ کو ناراض کریگی۔


تحریر: عرفان علی
 
امریکہ کے وزیر خارجہ کی حیثیت سے مائیکل عرف مائیک پومپیو نے پہلی مرتبہ پاکستان کا چند گھنٹوں پر مشتمل دورہ 5 ستمبر بروز بدھ کیا۔ اصل دورہ تو وہ بھارت کا کر رہے ہیں، جس کا رسمی آغاز 6 ستمبر کو ہو رہا ہے کہ جب پاکستانی قوم بھارت کی جانب سے سال 1965ء میں پاکستان پر مسلط کردہ جنگ کو پاک فوج کی جانب سے ناکام بنانے کی یاد میں یوم دفاع منا رہی ہے۔ پومپیو کا کہنا ہے کہ چونکہ پاکستان میں ایک نئی حکومت قائم ہوچکی ہے، اس لئے اس کی شروعات میں ہی دونوں ملکوں کے تعلقات کی از سرنو ترتیب کی کوشش کرلی جائے۔ انہوں نے کہا کہ سی آئی اے کے سربراہ کی حیثیت سے وہ (یعنی انکا ادارہ سی آئی اے) پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرچکے ہیں۔ پومپیو نے کہا کہ امریکی و پاکستانی ٹیمیں ایک طویل عرصے تک ساتھ مل کر کام کرتی رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے مابین بہت سے چیلنجز بھی ہیں، لیکن انہیں امید ہے کہ (پاکستان کی) نئی قیادت کے ساتھ مشترک بنیاد تلاش کرلیں گے اور ایسے مسائل جن میں دونوں ممالک حصے دار ہیں، ان(کے حل) پر مل کر کام شروع کر دیں گے۔ پومپیو نے کہا کہ پاکستان نے ایسا کرنے میں اپنی نیک نیتی اور اچھے ارادے کا اظہار بھی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس دورے میں امریکہ کی مسلح افواج کے سربراہ (یعنی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف) جنرل ڈنفورڈ بھی انکے ساتھ ہیں جبکہ بھارت کے دورے میں وزیر دفاع جمیز میٹس انکے ساتھ ہیں۔
 
یہ دورہ ایک زاویے سے امریکہ کی جانب سے نئی حکومت کے دور میں اب تک اعلیٰ ترین سطح کا پہلا دورہ ہے، لیکن دوسرے زاویے سے دیکھیں تو یہ بھارت جاتے ہوئے ایک مختصر اسٹاپ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے، یعنی کوئی باقاعدہ دورہ جس میں پاکستان کو اہمیت دی گئی ہو، اسکی کوئی جھلک نظر نہیں آئی۔ امریکی مسلح افواج کے سربراہ کی آفیشل ویب سائٹ پر اس دورے سے متعلق جو خبر جاری کی گئی ہے، اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ امریکی و پاکستانی رہنماؤں نے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دینے پر اتفاق ظاہر کیا ہے۔ پومپیو نے خبرنگاران کو بتایا کہ بات چیت میں اقتصادی، تجارتی تعلقات پر بھی بات چیت ہوئی ہے، لیکن وہ کام جو ہم سب (یعنی دونوں ملکوں) کو کرنے کی ضرورت ہے، وہ افغانستان کے مسئلے کے پرامن حل کے لئے کوششیں ہیں۔ انکی وزیر اعظم عمران خان، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقاتیں ہوئیں جبکہ دفتر خارجہ میں وفد سطح کے مذاکرات بھی ہوئے۔

شاہ محمود قریشی نے دفتر خارجہ میں انکا استقبال کیا اور کہا کہ پاکستان امریکہ سے باہمی اعتماد و احترام کی بنیاد پر پائیدار تعلقات چاہتا ہے۔ اس موقع پر ڈیوڈ ہیل بھی انکے ساتھ تھے، جو حال ہی میں پاکستان کے لئے امریکی سفیر کے عہدے سے ترقی پاکر امریکی محکمہ خارجہ کے انڈر سیکریٹری برائے سیاسی امور مقرر کئے گئے ہیں۔ ماضی میں وہ ایف، پاک کے لئے امریکی صدر کے خصوصی نمائندے ہوا کرتے تھے، یعنی وہ اس خطے اور پاکستان و افغانستان و امریکہ کے معاملات سے مکمل طور آگاہ فرد ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ 67 سالہ افغان نژاد زلمے خلیل زاد کو امریکی حکومت نے افغانستان کے معاملات نمٹانے کی ذمے داری بھی دے دی ہے۔

اس دورے میں امریکی مسلح افواج کے سربراہ کی آفیشل ویب سائٹ پر جو خبر ہے، وہ دنیا کو یہ بتا رہی ہے کہ پاکستان سے امریکہ وہی کچھ چاہتا ہے، جو صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیاء کے بارے میں حکمت عملی کے عنوان کے تحت پچھلے سال بیان کر دیا تھا اور وقتاً فوقتاً ٹرمپ سمیت امریکی حکومتی عہدیداران دہراتے رہتے ہیں کہ پاکستان افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے، اسے مفاہمت پر مجبور کرے اور نہ مانے تو اسکے خلاف کارروائی کرے۔ امریکی حملے میں ملا منصور کی پاکستان میں ہلاکت اور افغان حکومت اور طالبان کے مابین پاکستان، چین اور امریکہ کے نمائندگان کی موجودگی میں مذاکرات بھی جولائی 2015ء میں پاکستان میں مری کے مقام پر ہوئے تھے۔ افغانستان کے معاملات پر پاکستان اور امریکی حکومت کے درمیان تعلقات و شراکت داری جنرل ضیاء کی مارشل لاء حکومت کے دور سے ہیں اور دونوں ہی ایک دوسرے کے بارے میں بہت اچھی طرح جانتے ہیں۔ دونوں ممالک کے انٹیلی جنس اداروں کے مابین بھی بہت اچھے تعلقات کے تذکروں سے سابق سی آئی اے افسران کی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

جلال الدین حقانی کے گروپ کو حقانی نیٹ ورک کے عنوان سے شناخت کرنے والے امریکہ کو صرف ملا منصور کا ہی پتہ نہیں تھا بلکہ اس نے پاکستانی طالبان کے سرکردہ افراد کو بھی پاکستان کی حدود میں مارا اور تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ بیت اللہ محسود اسکی ایک مثال ہے۔ جون 2018ء میں پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کے دورہ افغانستان کے دو تین روز بعد افغان شمال مشرقی صوبے کنڑ میں پاکستانی طالبان کا سربراہ ملا فضل اللہ بھی ساتھیوں سمیت امریکی حملے میں مارا گیا۔ یہ سب کچھ اعتماد سازی کے لئے ہی کیا جاتا ہے اور بعض یکطرفہ کارروائیاں پیغام ہوتی ہیں کہ ہمیں سب معلوم ہے کون کہاں چھپا ہوا ہے، کہاں سے گذر رہا ہے!

مذکورہ بالا چند مثالیں اس لئے دی ہیں کہ ایک عام آدمی بھی سمجھ سکے کہ طالبان کو بھارت کے کھاتے میں ڈالنا محض ایک مفروضے یا الزام کے طور پر تو پیش کیا جاسکتا ہے، لیکن جہاں انکی کھلی موجودگی کی زندہ مثالیں ماضی میں موجود رہی ہوں، اس ملک کے لئے اپنے آپ کو اس الزام سے بچانا ممکن نہیں رہتا۔ طالبان قطر میں دفتر کھول کر بیٹھے ہیں، لیکن امریکی حکومت قطر سے کچھ نہیں کہتے۔ تو اصل سوال یہ کیا جانا چاہئے کہ امریکی حکومت افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ بھی ہے؟ اسکی موجودگی میں افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکا، اسکی موجودگی میں افغانستان پاکستان کو مطلوب پاکستانی طالبان دہشت گردوں کی پناہگاہ اور داعش دہشت گردوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔

امریکی و اتحادی افواج کی مشترکہ جنگ اور نئی حکومت کے قیام کے بعد سے وہاں مسلسل موجودگی کے باوجود وہاں امن کا عدم قیام درحقیقت امریکی ناکامی ہے، لیکن ناکامی بھی اس صورت میں کہ اگر امریکہ کو افغانستان کے عوام سے مخلص مان لیا جائے تب، ورنہ ہوسکتا ہے کہ امریکی ایجنڈا ہی یہی ہو کہ یہاں طویل المدت قیام کے لئے ناامنی و طالبان و داعش کی موجودگی اور کاررائیوں کو بہانے یا جواز کے طور پیش کیا جاتا رہے۔ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کو بڑے بھائی کا کردار دے رکھا ہے جبکہ بھارت کی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی اور امریکہ جانتا ہے کہ پاکستان کو یہاں بھارتی اثر و نفوذ پر اعتراض ہے۔ امریکہ پاکستان کو شراکت دار یا نان نیٹو اتحادی کہتا ہے تو پھر عمل سے بھی ثابت کرے۔ بندے مریں پاکستانی، سرزمین استعمال ہو پاکستانی اور فیضیاب ہوں بھارتی، کیا پاکستان کی خدمات و قربانیوں کا یہ صلہ ملنا چاہئے تھا۔؟

پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کی بعض شکایات جائز ہیں، اس لئے مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو امریکہ نے ہمیشہ پاکستان کو اپنے مفاد میں استعمال کیا ہے اور ہمیشہ بھارت کو پاکستان پر ترجیح و فوقیت دے کر اسے نوازا ہے۔ اب بھارت بحر ہند کے پورے خطے میں بحر الکاہل تک امریکہ کا سب سے بڑا اعلانیہ و رسمی دفاعی و تزویراتی شراکت دار اور اتحادی ہے۔ بھارت ہر طرف سے مزے میں ہے۔ چین کے ساتھ کشیدگی کے باوجود برکس میں چین کے ساتھ اتحادی ہے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم میں بھی پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی مکمل رکنیت مل چکی ہے۔ جب پاکستان اپنے اتنے بڑے اتحادی و شراکت دار چین کو ہی بھارت سے دور رہنے پر مجبور نہیں کرسکا، جب پاکستان خلیجی عرب ممالک خاص طور سعودی عرب کو بھارت سے دور نہیں کرسکا تو امریکہ سے کیسے اپنا یہ مطالبہ منوا سکتا ہے کہ وہ پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔

بھارت کے مزے دیکھئے کہ ایک طرف امریکہ نے اپنی پوری کمانڈ کا نام ہی انڈو پیسیفک رکھ دیا ہے تو دوسری طرف بھارت روس اور ایران کے ساتھ مل کر بین الاقوامی شمال و جنوب نقل و حمل کی راہداری کے منصوبے میں بھی شراکت دار ہے۔ یعنی بھارت کی بندرگاہ سے ایرانی بندرگاہ تک سمندری، پھر ایران میں سڑک اور ریل کے ذریعے بحیرہ خضر تک اور اطراف کے ممالک یعنی وسطی ایشیائی ممالک، آذربائیجان و آرمینیا، ترکی اور روس کو ملاتا ہوا شمالی یورپ تک کا رابطہ، خلیج فارس میں عمان اور براستہ بحر متوسط شام کو خلیج فارس سے ملانے کا رابطہ یہ طویل راہداری، اس کے مقابلے میں پاکستان و چین کی اقتصادی راہداری یعنی سی پیک تو ننھا منھا بچہ نظر آتی ہے۔ یہ بھارت نہیں ہے، جو تنہائی کا شکار ہے بلکہ یہ ہمارا ملک ہے، جس کی اب اتنی بھی اہمیت نہیں کہ سارک سربراہی کانفرنس یہاں منعقد ہوسکے، کیونکہ بھارت اس پر رضامند نہیں ہے۔

پاکستان امریکہ تعلقات کو اس مجموعی صورتحال کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی فوجی امداد اور کوالیشن سپورٹ فنڈ وغیرہ کی ادائیگی ٹرمپ حکومت نے جنوری میں ہی معطل کر دی تھی۔ پومپیو کے دورے سے قبل اس مد میں رکھی گئی رقم کی (ری پروگرامنگ کے عنوان سے) کسی اور مد میں منتقلی جو کہ جون جولائی میں کرنی تھی اور جس کے لئے امریکی کانگریس کی اجازت کی باضابطہ درخواست دی جاچکی ہے، اسکی خبر چلوائی گئی، تاکہ پاکستان پر دباؤ کا تاثر دیا جاسکے، لیکن اس کے بعد وضاحت آئی کہ یہ معطلی تو جنوری سے چلی آرہی ہے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات پی پی پی حکومت کے دور میں ہی کشیدہ ہوچکے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ، میمو گیٹ اسکینڈل، ایبٹ آباد حملہ، شکیل آفریدی کی گرفتاری کے بعد ان تعلقات میں بچا ہی کیا تھا۔ سی آئی اے کے اسٹیشن چیف کو پاکستان چھوڑ کر جانا پڑگیا تھا، (باالفاظ دیگر فرار پر مجبور ہوگیا تھا)۔

حتیٰ کہ امریکہ کے مشہور و معروف سینیئر صحافی بوب ووڈورڈس نے اپنی کتاب بعنوان ’’اوبامہ کی جنگیں ‘‘ میں یہاں تک لکھا کہ اس وقت کے صدر آصف زرداری نے دورہ واشنگٹن میں صدر باراک اوبامہ اور دیگر حکومتی عہدیداران بشمول زلمے خلیل زاد یہ مسئلہ اٹھایا کہ پاکستان میں عام تاثر یہ ہے کہ(پاکستان و افغانستان میں) دہشت گردی میں امریکہ ملوث ہے۔ پھر نواز دور حکومت میں بھی معاملات فوٹو سیشن سے آگے نہ بڑھ سکے اور یہ پی ایم ایل این کا ہی دور حکومت تھا، جب امریکی حکومت نے پاکستان کی امداد معطل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ٹیلیفونک رابطہ پینٹاگون اور جی ایچ کیو کے مابین برقرار رہا۔ لیکن امریکیوں کی فرمائشات پر امریکی توقعات کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔ تاحال امریکہ کی شکایت برقرار ہے لیکن پومپیو کا کہنا ہے کہ وہ پرامید ہے کہ ’’ہم نے آج جو بنیاد رکھی ہے، یہ مسلسل کامیابی کے حالات مرتب کر دے گی۔‘‘ وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ وہ تو پیدائشی پرامید شخص ہیں۔ ایک کھلاڑی (اسپورٹس مین) ہمیشہ پرامید ہوتا، وہ میدان میں اترتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ وہی جیتے گا۔

امریکہ کے لب و لہجے کی تبدیلی بتا رہی ہے کہ اندرون خانہ کچھ نہ کچھ طے پاچکا ہے، جو آن ریکارڈ بیان نہیں کیا جا رہا۔ بھارت کے ساتھ تمام تر قربتوں کے باوجود امریکہ بھارت کو چین، روس اور ایران کے خلاف استعمال کرنا چاہے گا۔ نومبر تک پتہ چل جائے گا کہ بھارت امریکہ کے کہنے پر ایران سے تیل کی خریداری ختم کرتا ہے یا نہیں؟ بھارت کو حد میں رکھنے کے لئے توازن کے طور پر پاکستان ہی کو استعمال کرنا چاہے گا، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اس لئے امریکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو مکمل طور ختم نہیں کرے گا۔ جو معاملات درون خانہ طے ہونگے، ان پر عمل کی صورت میں امریکہ پاکستان کی معطل شدہ ادائیگیاں بحال کر دے گا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ معاملہ صرف افغانستان و طالبان تک محدود نہیں ہے، چین، ایران و روس کے تعلقات کو بھی حد میں رکھنے کی ڈکٹیشن کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اگر آئی ایم ایف پاکستان کو اسکے کوٹہ سے زیادہ قرضہ دینے پر آمادہ ہوگیا تو سمجھیں کہ پومپیو کا دورہ پاکستان چند گھنٹوں پر محیط سہی، لیکن نتیجہ بخش تھا۔ بظاہر یہ قرضہ پاکستان کے حق میں محسوس ہوگا، لیکن مزید خدمات کی انجام دہی کی شرط منوائے بغیر امریکہ آئی ایم ایف سے دباؤ کیوں ہٹائے گا؟ عمران خان کی انصافین حکومت سے کم از کم مجھے تو یہ توقع نہیں ہے کہ یہ امریکہ کو ناراض کرے گی۔


خبر کا کوڈ: 748368

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/748368/پومپیو-کا-دورہ-پاکستان-امریکہ-تعلقات-کی-سرنو-ترتیب

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org