0
Friday 7 Sep 2018 20:59

امریکہ اور اسرائیل ایشیاء کے دوست نہیں ہیں

امریکہ اور اسرائیل ایشیاء کے دوست نہیں ہیں
تحریر: سید اسد عباس

امریکہ ایک طویل عرصے تک پاکستان کا دوست اور اتحادی رہا، ہماری دوستی کا آغاز وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے زمانے سے ہوا اور پھر اچانک 65ء کی جنگ میں ہمیں علم ہوا کہ امریکہ کو یہ جنگ ناگوار گزری ہے۔ اس جنگ کے دوران میں امریکی کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی فوجی امداد بند کر دی گئی اور فلاحی کاموں کے لِئے دی جانے والی مدد پر بھی پابندیاں لگا دی گئیں۔ 71ء کی جنگ میں بھی ہمیں امریکہ نے فوجی، سفارتی اور اخلاقی محاذوں پر پشت دکھائی۔ پھر افغانستان میں سوویت افواج کے داخلے کے بعد ہم امریکہ کے لاڈلے ہوگئے۔ ریاستی مشینری کو سوویت جہاد کے لئے بھرپور طریقے سے استعمال میں لایا گیا۔ مسلک، مذہب، اداروں، معاشرے، تنظیموں غرضیکہ ہر چیز کو سوویت جنگ میں جھونک دیا گیا۔ لاکھوں کی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کا بوجھ بھی پاکستان پر آن پڑا۔ ایک دہائی تک لڑی جانے والی اس جنگ میں جب سوویت یونین کو ناکامی ہوئی تو اچانک وسائل بند کر دیئے گئے اور پاکستان کو اس جنگ کے مسائل اور اثرات سے نمٹنے کے لئے تن تنہا چھوڑ دیا گیا۔

ہمارا پورا معاشرہ اس جنگ کی لپیٹ میں آیا۔ مساجد، مدارس فوجی چھاؤنیاں بن گئیں، کچھ خاص مکاتب کو اس بڑی مقدار میں امداد ہوئی کہ وہ اقلیت سے اکثریت کا روپ دھار گئے، ان کی منظم جماعتیں جہاد کے ساتھ ساتھ امور مملکت حتی کہ قانون سازی اور پالیسی سازی کے عمل میں دخیل ہوگئیں۔ کلاشنکوف کلچر جہاد کے نام پر ملک میں عام ہوا، اسی طرح منشیات کا پھیلاؤ غرضیکہ ملک کا پورے کا پورا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا گیا۔ ایسے میں فرقہ واریت کو بھی ہوا ملی۔ پاکستانی معاشرہ آج تک اس مسلط کردہ معاشرتی بگاڑ کے اثرات کو بھگت رہا ہے۔ گیارہ ستمر جسے نائن الیون بھی کہا جاتا ہے، کے بعد امریکہ کو ایک مرتبہ پھر خیال آیا کہ پاکستان میں تو انتہا پسندی بہت بڑھ چکی ہے۔ جہاد دہشت گردی ہوگیا۔ اپنے ہی بنائے ہوئے جہادیوں کے خاتمے کے لئے افغانستان پر حملوں کا آغاز ہوا اور پاکستانی ریاست کو ایک بار پھر اس جنگ کا حصہ بنا دیا گیا۔ ملک میں موجود فوجی سربراہ مرتا کیا نہ کرتا، چار و ناچار اس جنگ کا حصہ بن گیا۔ ہم ایک مرتبہ پھر امریکہ کے اتحادی ہوگئے اور ہمیں اس اتحاد میں شمولیت کے پیسے بھی ملنے لگ پڑے۔ اب ہم نے جہادیوں کے خلاف ملک میں بھی جنگ چھیڑ دی۔ جہادی کلچر، جہادی تنظیموں، مساجد، مدارس پر گھیرا تنگ کیا جانے لگا۔

معاشرتی ڈھانچے یوں تھوڑی بدلتے ہیں کہ ایک دن ارادہ کیا کہ ایک خاص طبقے کو بڑھاوا دینا ہے اور اگلے روز ارادہ کر لیا کہ اب انہیں روکنا ہے۔ ہم نے امریکہ کے اس ارادے کی جو قیمت ادا کی ہے، وہ ہم ہی جانتے ہیں۔ اسی ہزار سے زیادہ جانیں، قومی املاک اور ریاستی وسائل کا نقصان، معیشت کا نقصان، اداروں کی تباہی جس سے ہمارا ملک گذشتہ چند برسوں سے گزر رہا ہے، یہ سب اسی امریکی ارادے کا شاخصانہ ہے، جو اس نے شاید اچانک بنایا۔ میری نظر میں امریکہ نے یہ ارادہ اچانک نہیں بنایا ہے، سوویت جنگ کے دوران ہی انہوں نے سوچ لیا ہوگا کہ ان جہادیوں اور ان کے سہولت کاروں کے ساتھ کیا کرنا ہے، کیونکہ یہ کوئی ڈسپوزبل کپ تو تھے نہیں کہ استعمال کیا اور پھینک دیا۔ اس ملبے کو ڈسپوز کرنے کے لئے حکمت عملی کی ضرورت تھی۔ امریکہ ان جہادیوں کی بحالی کے لئے بھی کوشش کر سکتا تھا، پاکستان کو کہا جاسکتا تھا کہ اب چونکہ جنگ ختم ہوگئی، اب معاملات کو نارمل کیا جائے، بحالی کا کام ہو، تاہم امریکہ نے جان بوجھ کر معاملات کو جوں کا توں چھوڑ دیا، تاکہ دوبارہ اس خطے میں آنے کا موقع حاصل کیا جاسکے۔

درج بالا حقائق کی روشنی میں کون ہے جو امریکہ کو پاکستان کا دوست یا اتحادی قرار دے سکے۔ ہم سے یقیناً بے وقوفی ہوئی کہ ہم ہندوستان کے مقابلے میں دنیا کی دوسری سپر طاقت کے پاس گئے، شاید اس کے سوا چارہ ہی کوئی نہ تھا۔ بہرحال ہمارا یہ اتحاد انتہائی غیر فطری تھا۔ امریکہ خطے میں اپنے فطری اتحادی تک پہنچ چکا ہے۔ طالبان اور القاعدہ کے خلاف جنگ میں امریکہ نے پاکستان کی نسبت بھارت پر زیادہ انحصار کیا ہے۔ بھارت، امریکہ اور اسرائیل تینوں مل کر خطے کی سیاست میں ایک اتحاد کی صورت میں ابھرتے نظر آتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے امریکہ اور اسرائیل چین، روس، ایران، پاکستان اور خطے کی دیگر ریاستوں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ہندوستان پر انحصار کر رہے ہیں۔

اس سلسلے میں تینوں ممالک کے مابین توانائی، زراعت، سائنس، دفاع اور دیگر شعبہ جات میں متعدد معاہدے ہوچکے ہیں۔ حال میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھارت گئے، جہاں انہوں ٹو-پلس-ٹو مذاکرات کے بعد ایک دفاعی معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس کے تحت عسکری ماہرین کے مطابق انڈین فوج کے لئے حساس نوعیت کے امریکی فوجی ساز و سامان اور ڈرون طیارے حاصل کرنے کے راستے کھل جائیں گے۔ نیویارک ٹائمز سمیت مقتدر عالمی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق یہ معاہدہ نئی دہلی کے لئے نہ صرف انتہائی جدید امریکی ہتھیاروں کی خریداری کی راہ ہموار کر دے گا بلکہ انڈین فوج انتہائی حساس نوعیت کی امریکی فوجی ٹیکنالوجی بھی مشترکہ طور پر استعمال کرسکے گی۔ اسرائیل سے بھی میزائل ٹیکنالوجی اور بحری ساز و سامان کی خریداری کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ معلومات کے تبادلے میں معاہدے کیے جاچکے ہیں، جو یقیناً خطے کے تمام ممالک کے لئے انتہائی تشویشناک ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ انڈیا کا ستر فیصد دفاعی ساز و سامان اب بھی روس سے آتا ہے۔ انڈیا میں تیل کی ایک بڑی مقدار ایران سے حاصل کی جاتی ہے۔ امریکہ اس حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود انڈیا پر نظر کرم کر رہا ہے۔ یہ ایک نہایت خطرناک کھیل ہے۔ جس کا حقیقی مقصد چین، روس، پاکستان اور ایران کا راستہ روکنا ہے، یعنی وہی کام جو 1979ء میں پاکستان سے لیا گیا تھا، اس کے لئے اب انڈیا کو منتخب کیا گیا ہے۔ انڈیا کا ہدف معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک قوت کے طور پر ابھرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایشیاء دوسروں کے کہنے پر ایک مرتبہ پھر ہتھیاروں کی اس دوڑ میں شریک ہوکر اپنی برتری کو منواتا ہے یا مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر مل جل کر ترقی کی منازل کو طے کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ اللہ کریم ایشیاء کے سیاسی قائدین کو معاملات کو سیاسی انداز سے سلجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 748672
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش