1
0
Sunday 9 Sep 2018 23:16

کراچی، سرکاری محکموں میں کرپشن خطرناک حد تک بڑھ گئی، بلدیہ عظمیٰ کے کئی محکمے غیر فعال

کراچی، سرکاری محکموں میں کرپشن خطرناک حد تک بڑھ گئی، بلدیہ عظمیٰ کے کئی محکمے غیر فعال
رپورٹ: ایس حیدر

شہر قائد کے سرکاری اداروں بلخصوص بلدیہ عظمیٰ، ضلعی بلدیات، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کی جانب سے کرپشن کرنا اور قوانین کی دھجیاں اُڑانا معمول بن چکا ہے، جس کی سب سے بڑی وجہ بدعنوان عناصر کیخلاف کارروائیاں نہ ہونا ہے، اسی وجہ سے بدعنوان عناصر میں تحقیقاتی اداروں کی کارروائیوں کا خوف ختم ہونے لگا ہے، شکایات کے باوجود تحقیقاتی اداروں کی جانب سے بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائیاں نہ ہونے کی وجہ سے سرکاری محکموں میں کرپشن کی سطح میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے، دوسری جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ریکوری سے متعلق محکموں نے بلدیہ عظمی کراچی کیلئے مشکلات بڑھا رکھی ہیں، ریکوری اہداف نہ حاصل ہونے اور کم او زیڈ ٹی فنڈ کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کراچی کے 26 محکموں میں سے کئی غیر فعال ہو چکے ہیں، کے ڈی اے کے معاملات میں نیب کی کارکردگی پر پہلے ہی کئی سوالات اٹھ چکے ہیں۔

میڈیا رپورٹس و دیگر اطلاعات کے مطابق کراچی کے سرکاری اداروں میں بدعنوان عناصر کیخلاف تحقیقاتی اداروں کی خاموشی کے باعث کرپشن میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے، جبکہ افسران نے تحقیقاتی اداروں کے افسران کی ناقص کارکردگی کا فائدہ اُٹھا کر کے ایم سی، ڈی ایم سیز، کے ڈی اے اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے اپنی جیبیں بھرنے میں مصروف ہیں، کے ایم سی کے محکمہ لینڈ، اینٹی انکروچمنٹ، چارجڈ پارکنگ کے افسران نے اپنے اداروں کے اعلیٰ حکام سے ملی بھگت کرکے شہر کو تجاوزات، بچت بازاروں اور چارجڈ پارکنگ کے جنگل میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ تجاوزات کی مد میں ماہانہ وصولی دو کروڑ ہے، چارجڈ پارکنگ سے 20 لاکھ روپے سے 25 لاکھ روپے نذرانے طور پر وصول کیے جاتے ہیں، جبکہ ادارہ ترقیات کراچی کے افسران تحقیقاتی اداروں کے افسران کی خاموشی کا فائدہ اُٹھا کر ناصرف شہریوں سے پلاٹوں، مکان کی منتقلی کی آڑ میں کھلے عام شہریوں سے منہ مانگی رشوت وصول کرنے میں مصروف ہیں، بلکہ بھاری نذرانوں کے عیوض کراچی کے مختلف علاقوں میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کرنے والی مافیا کے مددگار بن چکے ہیں۔

جس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے احکامات کے باوجود کے ڈی اے تاحال سرکاری زمین قبضہ مافیا سے واگذار کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران لاکھوں روپے نذرانہ وصول کرکے عدالتی احکامات کے برخلاف کراچی کے مختلف علاقوں بلخصوص نارتھ کراچی، گلشن اقبال، جمشید ٹاون میں کھلے عام رہائشی پلاٹوں پر کثیر المنزلہ عمارتوں کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہیں، جس کی وجہ سے ایک طرف کراچی کا انفرا اسٹرکچر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایس بی سی اے کے افسران کے خلاف نیب اور اینٹی کرپشن کے پاس درجنوں شکایات موجود ہیں، کئی افسران کے خلاف تحقیقات بھی کی جا چکی ہیں، تاہم کی جانے والی تحقیقات اپنے منطقی انجام پر پہنچنے سے پہلے ہی سرد خانوں کی نذر ہو جاتی ہے۔

سپریم کورٹ کے احکامات سے بغاوت کرتے ہوئے نارتھ ناظم آباد اور گلستان جوہر میں پارک پر قبضے اور ان پر قائم کی جانے والی تجاوزات کو تحفظ فراہم کرکے توہین عدالت کے ساتھ ساتھ کے ڈی اے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی بھر میں پارکس پر قبضے اور ان پر موجود ہر قسم کی تجاوزات کو مندم کرکے پارکس کی اراضی واگزار کروانے کے احکامات کو کے ڈی اے حکام نے تسلیم کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں کے ڈی اے حکام پر الزام ہے کہ انہوں نے خود اپنے ہی ادارے (کے ڈی اے) کی جانب سے لگ بھگ 20 سال قبل گلستان جوہر بلاک 15 میں واقع پلاٹ نمبر ST-32 پر تعمیر کئے جانے والے شاندار پبلک پارک کی جگہ پر قبضہ مافیا کے ذریعہ قبضہ کروا کے یہاں بڑے پیمانے پر مکانات اور دیگر کمرشل تعمیرات کروا کر کے ڈی اے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ کے ڈی اے حکام پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے اسی طرح نارتھ ناظم آباد بلاک ڈی میں واقع” نورتن باغ “نامی پلاٹ نمبر ST-2 پر سینکڑوں فلیٹس اور دکانوں پر مشتمل غیر قانونی پروجیکٹ ”ہل ویو اپارٹمنٹس“ کو بھی سپریم کورٹ کے واضح احکامات کے باوجود منہدم کرکے کروڑوں روپے مالیت کا پارک واگزار کروانے کیلئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔

دوسری جانب بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ریکوری سے متعلق محکموں نے بلدیہ عظمیٰ کیلئے مشکلات بڑھا رکھی ہیں، ریکوری اہداف نہ حاصل ہونے اور کم او زیڈ ٹی فنڈ کی وجہ سے بلدیہ عظمیٰ کے 26 محکموں میں سے کئی غیر فعال ہو چکے ہیں، جبکہ تنخواہوں کی ادائیگی بلدیہ عظمیٰ کیلئے علیحدہ درد سر بنی ہوئی ہے۔ غیر فعال محکموں میں محکمہ باغات، نفاذ اردو، فوڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول، ہیلتھ میونسپل سروسز، جبکہ ٹرانسپورٹ و کمیونیکیشن اور سٹی انسٹی ٹیوٹ آف امیج مینجمنٹ مکمل طور پر غیر فعال ہو چکے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ غیر فعال محکموں کے افسران و ملازمین بغیر کام کئے تنخواہیں اور مراعات حاصل کر رہے ہیں، اسطرح بلدیہ عظمیٰ غیر فعال محکموں کے افسران و ملازمین کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہے۔ اس سارے عمل میں ریکوری پر معمور محکموں کا اہم کردار ہے، جس میں بیش تر محکموں میں نااہل اور پیسے بٹورنے میں ماہر افسران تعینات ہیں، جن کو پیسے بٹورنے پر معمور کر دیا جائے، تو ایک ارب کی ریکوری کو دو ارب میں تبدیل کر دیں۔

بلدیہ عظمیٰ کراچی کا گزشتہ سال آمدنی کا کل ہدف 15 ارب 80 کروڑ 85 لاکھ روپے تھا، مگر آمدنی صرف 10 ارب 17 کروڑ 36 لاکھ روپے رہی، اب اس سال آمدنی کا ہدف 16 ارب 72 کروڑ 21 لاکھ روپے رکھا گیا ہے، جو ادارہ پہلے ہی آمدنی کے لحاظ سے 5 ارب 44 کروڑ 49 لاکھ روپے خسارے میں ہے، اس سے کس طرح امید کی جا سکتی ہے کہ وہ آئندہ بھی اہداف حاصل کر لے گا، سب سے بڑا خطرہ بلدیہ عظمیٰ کراچی کے ماتحت چلنے والے واحد میڈیکل کالج کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا ہے، جہاں گزشتہ کئی ماہ سے تنخواہوں کی ادائیگی نہیں ہو سکی ہے۔ عددی ہیر پھیر نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کو بیساکھیوں تک پہنچا دیا ہے، جس تیزی سے محکمے غیر فعال ہوتے جا رہے ہیں، مستقبل میں خدشہ ہے کہ کرپشن، بے ضابطگیوں، ہیر پھیر کی سطح میں خطرناک حد تک اضافے کے باعث آئندہ مزید اہم سرکاری محکمے غیر فعالیت کی جانب نہ گامزن ہو جائیں۔
خبر کا کوڈ : 749089
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نور خان
Pakistan
میری رائے یہ ہے کہ آج کل لوگ ون پلس ون کے لئے درخواست دیتے ہیں اور اور پھر چار منزلہ عمارت بناتے ہیں، جو بلڈرز مافیا ہے اور یہ کام نیا گولیمار رضویہ سوسائٹی میں زوروشور سے جاری ہے، اس کے خلاف کارروائی کی جائے، ابھی کل ہی کی بات ہے، ہمارے کھجی گراٗئونڈ میں صالح نامی جو کے الیکٹرک میں کام کرتا ہے، اس نے گھر بنایا ہے، اس کو چیک کیا جائے سب پتہ لگ جائے گا۔
ہماری پیشکش