0
Monday 10 Sep 2018 10:27

شہدائے کربلا کی یاد منانے کا بنیادی مقصد

کربلا رزم و بزم نہیں، کربلا ایک پیکار، جنگ اور نبرد کا نام ہے، ظلم کیخلاف کھڑے ہونے کا نام ہے۔
شہدائے کربلا کی یاد منانے کا بنیادی مقصد
تحریر: سید ماجد رضوی ماگام

شہادت انسان کی زندگی کا بہترین معاملہ ہے جو وہ خدا کے ساتھ انجام دیتا ہے حقیقی طور انسان اپنی جان اعلٰی مقصد کی حصولیابی کے لئے دے دیتا ہے اور بدلے میں جنّت کا حقدار ہوتا ہے۔ دین کے حقیقی پیروکار ایسی روح اور ایسے جذبے کے مالک ہوتے ہیں اسلئے وہ راہ اسلام میں اپنی جان کی قربانی دینے سے نہیں کتراتے ہیں۔ عاشورہ کے واقعہ میں امام حسینؑ کے باوفا ساتھیوں نے کربلا کے میدان میں اسی بلند مقصد کو پانے کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور خود امام حسین ؑ اس کا واضح نمونہ ہیں۔ امام حسینؑ کی ذات گرامی ایسی ہے جو تعارف کی محتاج نہیں ہے یہ وہ حسین ؑ ہے جنہوں نے سسکتی ہوئی انسانیت کو نجات دلا کر صراط مستقیم پر گامزن کرکے جینے کا سلیقہ سکھایا اور اس کے ساتھ عزت، صداقت، عفت، مروت، عدالت، شجاعت و کرامت کے درس سے بھی بنی نوع انسان کو نوازا۔ یہ وہ حسینؑ ہے جنہوں نے اپنے خون سے اسلام ناب محمدیؐ کی آبیاری کی اور اس کو تمام بدعتوں، شبہات، خرافات، اور توہمات سے پاک کیا۔ یہ وہ حسینؑ ہے جنہوں نے ہمیں آزادی کا حقیقی درس دیا۔ یہ وہ حسینؑ ہے جنہوں نے ظلم و جور اور استبداد کو رہتی دنیا تک قلع و قمع کر دیا اور مردہ انسانیت کو آب حیات پلا کر زندہ و بیدار کر دیا۔ شہدائے کربلا نے دنیا کو ایک ایسا چراغ دیا جو قیامت تک لوگوں کو منور کرتا رہے گا۔

شخصیت جس قدر اہم ہوتی ہے اس کی یاد آوری اور تذکرہ بھی اتنا ہی اہم ہوتا ہے، چنانچہ آفاقی شخصیت کا تذکرہ بھی آفاقی ہوتا ہے۔ احسان شناس قوم اپنے محسنوں اور شہیدوں کے ایثار و قربانی کو کبھی فراموش نہیں کرتی اور اپنی اور زندگی کی ہر سانس کو ان کی مرہونِ منّت جانتی ہے چنانچہ اس کا تذکرہ ہمیشہ باقی رکھتی ہے اور یہ تذکرہ کسی خاص قوم و مذہب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس کا سرچشمہ انسان کی پاکیزہ فطرت ہے جو محسنوں کی یاد منانے کا تقاضا کرتی ہے حضرت امام حسینؑ نے دینِ حق کو قائم کرنے اور باطل کو مٹانے کی خاطر جو عظیم کارنامہ انجام دیا اس کی مثال تاریخ عالم انسانیت میں نظر نہیں آتی ہے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے دین اسلام کو منہدم کرنے کی جو منظم سازش تیار کی تھی جو ایک منظم منصوبے کے تحت یزید کی شکل میں نمایاں ہوئی تھی۔ امام حسین ؑ نے اپنے قیام سے اس سازش کے سارے تار و پود اس طرح بکھیر دیئے کہ خود یزید کے محل سے اذان کی آواز آنے لگی۔ امام حسینؑ کا تذکرہ ایک صدا ہے، ایک آواز ہے جو انسان کو اس حقیقت کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے۔ ہوشیار رہنا دشمنوں کے نقشوں سے غافل نہ رہنا اور کبھی بھی ان کو اپنے منصوبوں میں کامیاب نہ ہونے دینا چاہیئے اس کی خاطر تم کو بہت بڑی قربانی کیوں نہ دینا پڑے۔

شہدائے کربلا کی عزاداری خدا و رسول ؐ کے دشمنوں سے بیزاری اور نبی و اہلبیتؑ سے اظہارِ محبت و عقیدت کا بہترین ذریعہ ہے ذکر شہدائے کربلاؑ دلوں کو حرارت بخشتا ہے انسان کو حقیقی مجاہد بنا کر باطل سے لڑنے کا حوصلہ بخشتا ہے۔ حسینیؑ باطل کے آگے سر نہیں جھکاتا کیونکہ حسین ؑ کا ذکر کرنے سے عزاداری کی روح روحِ حسینؑ سے متصل ہوتی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے ایک شخص نبیؐ اور اہلبیتؑ کی محبت میں غرق ہو اور آل نبی کے مصائب سے متاثر نہ ہو ان کے فضائل و مناقب سن کر خوش نہ ہو۔ امام حسینؑ کا قیام حق کی زندگی اور باطل کی موت کی خاطر تھا لہٰذا جہاں بھی یہ تذکرہ ہوگا وہاں حق کی زندگی اور باطل کی موت کا تذکرہ ہوگا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جیسے اہم فریضہ کا مقصد ہی اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کا خاتمہ ہے۔ اگر ہم امام حسینؑ کے کلمات کا مطالعہ کریں تو ہمیں قدم قدم پر ملے گا کہ امام حسینؑ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے قیام کیا حق سے بڑھ کر کوئی اچھائی نہیں اور باطل سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں۔ اس بنا پر عزاداری سید الشہداء ؑ مسلسل حق اور اہل حق کی حمایت و نصرت اور باطل سے نفرت و بیزاری کا اعلان ہے۔ اس تذکرہ میں اخلاق اور انسانیت کے وہ اعلٰی نمونے نظر آتے ہیں جس کی کوئی مثال نہیں۔ قرآن کریم نے یاد دہانیوں پر کافی زور دیا ہے۔ یاد دہانیوں سے بڑے فائدے ہیں اگر ان پر کوئی فوری طور پر عمل پیرا نہ بھی ہوا پھر بھی اتنے فائدے سے تو کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اعلٰی صفات و کردار کے فضائل و مناقب ذہن میں باقی رہتے ہیں اور اس کی تازگی کی مہک اسے دعوت عمل دیتی رہتی ہے۔

شہدائے کربلا کے تذکرہ کے ذریعہ نہ صرف کربلا کا واقعہ تازہ رہتا ہے بلکہ پوری تاریخ کو اور خاص کر تاریخ اسلام کو تازگی ملتی ہے اگر عزاداری نہ ہوتی تو دشمنانِ اہلبیت ؑ اور غارت گرانِ اسلام اب تک یزید اور اس کے پیشروں کو ’’مقدس مآب‘‘بنا چکے ہوتے اور اسلام کی تاریخ کو مسخ کر چکے ہوتے اس وقت جو تاریخ میں سچے واقعات نظر آ رہے ہیں اس میں عزاداری کا بہت بڑا رول ہے جب انسان اس واقعہ کو پڑھتا یا سنتا ہے تو اس کو ظلم اور ظالم دونوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور اس طرح کے واقعات جو اسکو ظلم پر آمادہ کرتے ہوں ان سے دامن کش ہو جاتا ہے۔ جب تک انسان عزاداری میں لگا رہتا ہے بہت سی برائیوں و منکرات سے محفوظ رہتا ہے، باطل کے اجتماعات اور گناہ کی محفل سے دور ہو جاتا ہے۔ یہ مختصر سی دوری بھی بہت غنیمت ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا دل پوری طرح مردہ نہیں ہوا ہے حیات کے کچھ اثرات ضرور باقی ہیں بلکہ وہ اتنے طاقتور بھی ہیں کہ وہ انسان کو گناہ کی محفلوں سے نکال کر عزاداری کی مجلسوں میں شریک کر دیتے ہیں یعنی یہ جذبہ خیر اگر ذرا نم ہو جائے تو بڑا ذرخیز ثابت ہوگا۔ اسلئے کہ یہی وہ جگہ ہے جہاں توفیقات خداوندی اور آئمہ معصومینؑ کی عنایتوں کے کارواں اترتے ہیں یہاں اگر وہ جذبہ رکھنے والا حرؑ کے کردار کے آئینہ میں اپنے کردار کا محاسبہ کرے اور یہ ٹھان لے کہ حرؑ کی طرح آیا ہے تو حرؑ کی طرح ثابت قدم بھی رہوں گا۔ شہدائے کربلاؑ کی یاد فقط اس حد تک نہیں ہے کہ اسے منبروں سے پڑھا جائے اور بیان کیا جائے اور لوگوں کے احساسات متاثر ہوں بلکہ یہ حادثہ پوری تاریخ میں عظیم انقلابوں کا سر چشمہ رہا ہے اور یزیدِ وقت کے خلاف ایک آواز ہے، ظالم کے خلاف ایک آواز ہے۔

سیدالشہداء ؑ نے جس مقصد کے لئے قربانی دی، وہ مقصد کتنا عظیم تھا جس کیلئے امام حسین ؑ نے سب کچھ قربان کردیا۔ دولت بھی دی اولاد بھی دی، جان عزیز بھی دی، جناب زینب ؑ کی ردا بھی دی غرض سب کچھ دیا۔ امام حسین ؑ نے جس مقصد کیلئے قربانی دی اسی کے تسلسل کا نام عزاداری ہے۔ عزارادی رسم آباء و اجداد و بزم شعراء نہیں ہے جبکہ ہم نے عزاداری کو رسم و بزم بنا دیا ہے، درحقیقت عزاداری تسلسل عاشورا ہے۔ عاشورا رزم کا نام ہے کربلا رزم کا نام ہے، کربلا ایک پیکار کا نام ہے، کربلا ایک جنگ کا نام ہے، کربلا ایک نبرد کا نام ہے۔ عزاداری اسی چیز کا پیغام دیتی ہے آپ اس سرزمین میں رہتے ہوئے اپنے دائیں بائیں دیکھو کہ کہیں تمہاری زمین میں یزید جیسے کردار والا انسان ہے اس کے خلاف اٹھو، یہی مقصد حسینی ؑ ہے۔’’کل یوم عاشورا کل ارض کربلا‘‘ کا یہی پیغام ہے۔ امام حسین ؑ کو ہماری ہمدردی نہیں چاہیئے، حسین ؑ کو ہم سے کچھ اور چاہیئے، حسین ؑ ہم سے نصرت مانگ رہے ہیں، حسین ؑ ہم سے پیروی مانگ رہے ہیں کہ میری سیرت اپناؤ۔ حسین ؑ نے روز عاشورا ’’ھل من ناصر‘‘ کی ندا لگائی وہ آج بھی گونج رہی ہے، حسینی آج اسی آواز پہ لبیک کہہ رہے ہیں، وہی آواز آج وقت کا حسین ؑ بھی دے رہا ہے، آج کا حسین ؑ رھبر معظم سید علی حسینی خامنہ ای مدظلہ ہے جو اس کی آواز پر لبیک کہے وہی حسین ؑ کو لبیک کہہ رہا ہے۔ جنہوں نے کربلا کو رسم و بزم سمجھا وہ آج بھی رسموں، رواجوں، خانقاہوں میں اُلجھے ہوئے ہیں اور جنہوں نے آئین زندگی سمجھا وہ آج بھی یزید وقت کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔

عزاداری ایک ایسی فکری، ثقافتی اور سیاسی میراث جس سے تمام عالم انسانیت کو فیضیاب ہونا چاہیئے۔ کربلا ایک واقعہ تھا جناب زینب ؑ نے اس کو تحریک بنایا اور آئمہ معصومین ؑ نے اس کو مکتب بنایا۔ عزاداری برپا کرنے سے پہلے ہمیں مقصد کربلا کو سمجھنا چاہیئے۔ مرثیہ خوانی، نوحہ خوانی، مداح خوانی بامقصد ہونی چاہیئے۔ عزا خانوں میں مقصد کربلا بیان ہونا چاہیئے۔ عزاداری کو رسم و بزم تک محدود مت رکھو مرثیہ، نوحہ وغیرہ یہ مقصد نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذریعہ ہے مقصد تک پہنچے کا۔ ہماری عزاداری زینبی ؑ عزاداری ہونی چاہیئے جس سے وقت کا یزید لرز اٹھے۔
کربلا ہے آج بھی ظالم کی ایذاء آج بھی
چاہیئے زمانے کو شبیرؑ کا کردار آج بھی
ذکر کربلا دردِ دل کی دوا ہے یارو
فِکر کربلا روح دین کی بقاء ہے یارو

 
خبر کا کوڈ : 749182
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش