0
Tuesday 11 Sep 2018 13:44

عجیب غم ہے غموں کا علاج کرتا ہے!

عجیب غم ہے غموں کا علاج کرتا ہے!
تحریر: عظمت علی
Rascov205@gmail.com
        
مشہور کہاوت ہے کہ وقت ہر زخم کا مرہم اور ہر درد کا مداوا ہے۔ کڑیل جوان کے موت کی خبر سنتے ہی ماں ہو ش و حواس کھو بیٹھتی ہے۔ اب ہر وقت آنکھوں کے ساحلوں پر اشکوں کا ہجوم لگا رہتا ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے، ذہن پر فراموشی کی گرد بیٹھتی جاتی ہے اور آنکھوں کی نمی خشکی میں تبدیل ہوتی جاتی ہے اور پھر یوں ہوتا ہے کہ آنکھیں نم ہوئیں اور بس! تجارت میں بھاری نقصان ہوا، اطلاع پہنچتے ہی چہرے پر پژمردگی کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں اور چین و سکون رخصت لیکن جوں جوں حالات  کروٹیں لیتے ہیں، ناامیدی و شکستگی کے آثار رفتہ رفتہ مدہم پڑتے جاتے ہیں اور ایک مدت بعد طاق نسیاں کے حوالہ ہو جاتے ہیں۔ بنی نوع آدم کی تاریخ میں ایسے بے شمار دلخراش واقعات نے جنم لیا مگر چند برس بعد ہی فراموشی کی نذر ہو گئے، صرف کربلا ایک ایسا واقعہ ہے جو آج بھی اسی شان و شوکت سے زندہ ہے اور اسلام محافظ اور حق و باطل کا معیار بنا ہوا ہے۔ اس کی انفرادیت یہ ہے کہ زمانے کی ستم ظریفی کے باوجود اس میں دن بدن نکھار پیدا ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی مختصر سی داستان یہ ہے کہ معاویہ کا انتقال ہوتا ہے اور یزید  عنان حکومت سنبھال لیتا ہے۔ وہ یزید جو شراب نوش کیا کرتا تھا۔ جس کے دربار میں ہر لمحہ رقص و سرور کا سماں ہوتا تھا۔ شراب خور، کتوں اور بندوں سے کھیلنے والا، آل رسول کا دشمن جانشین مصطفٰی اور خلیفۃ المسلین ہونے کا دعویدار بن بیٹھا۔ اس نے اپنی باطل حکومت اور اپنی صفات رذیلہ کی یوں ترجمانی کی ہے۔

لیت اشاخی ببدر شھدوا
جزع الخزرج من وقع الاسل
لاھلوا واستھلوا فرحا
ثم قال یا یزید لاتشل
قد قتلنا القوم من ساداتھم
وعدلنا ببدر فاعتدل
لعبت بنی ھاشم بالملک فلا
خبر جاء ولا وحی نزل

کاش کہ! آج میرے وہ بزرگ ہوتے جو جنگ بدر میں مارے گئے، تو خوش ہوتے اور مجھ کو دعا دیتے کہ اے یزید! تیرے ہاتھ شل نہ ہو۔ میں نے ان کے چنندہ بزرگوں اور سادات بنی ہاشم کا قتل کیا اور جنگ بدر کا انتقام لیا تو بدلہ بھی پورا ہو گیا۔ دراصل! بنی ہاشم نے ملک گیری کا ایک ڈھونگ رچا تھا۔ نہ ان کے پاس کے پاس کوئی فرشتہ آیا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوئی۔ (1) ان اشعار کے مطالعہ سے ہر صاحب بصیرت کی یہی متفقہ رائے ہوگی کہ وہ تو مسلمان کہلائے جانے کے لائق نہ تھا چہ برسد خلیفۃ المسلمین۔۔۔! دور حاضر میں کچھ ایسے اسلام دشمن مسلمان ہیں جنہوں نے یزید کو رضی اللہ کے لقب سے پکارا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن مجید ارشاد فرماتاہے، "صم بکم عمی فھم لا یبصرون"۔ یہ سب بہرے، گونگے اور اندھے ہو گئے ہیں۔ (سور ہ بقرہ 18)۔

یزید نے حکومت کی باگ دوڑ سنبھالتے ہی اسلام کی نامور شخصیتوں کے پاس پیغامات بھیجے اور ان سے مطالبہ بیعت کیا۔ اسی مقصد کے تحت ایک خط مدینہ کے حاکم کو بھی لکھا اور اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ امام حسین سے بھی بیعت لے لی جائے اور اگر وہ انکار بیعت کریں تو انہیں قتل کردیا جائے۔ حاکم مدینہ نے یہ خبر امام حسین علیہ السلام تک پہنچا دی اور جواب کا مطالبہ کیا۔ امام علیہ السلام نے ارشاد فرمایا، "انا للہ و انا الیہ راجعون و علی الاسلام السلام اذا بلیت الامۃ براع مثل یزید" جس وقت حکومت اسلامی کی مسند پر یزید جیسا آدمی تخت نشین ہو جائے تو اس وقت اسلام کا بس خدا حافظ!۔ (2) جب خاندان عصمت و طہارت نے دیکھاکہ پانی سر سے گزر رہا ہے اور دین اسلام خطرے میں پڑگیا ہے تو 28 رجب المرجب 60ھ میں مدینہ کو الوداع کہہ دیا۔ امام علیہ السلام  محو سفر تھے کہ اچانک ایک صحابی نے تکبیر بلند کی۔ امام نے سوال کیا، تم نے تکبیر کیوں کہی؟ صحابی نے عرض کی، میں نخلستان دیکھ رہا ہوں۔ اصحاب  نے عرض کی، ہم نے اب تک اس جگہ پر کوئی نخلستان نہیں دیکھا! امام نے فرمایا،پس تم کیا دیکھ رہے ہو؟ عرض کی، بخدا قسم! گھوڑے کے کان دکھائی دے رہے ہیں۔ امام نے فرمایا، میں بھی یہی دیکھ رہا ہوں۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ مکمل طور پر حر ابن یزید ریاحی اپنے لشکر سمیت نظر آنے لگا۔ (3)

امام  علیہ السلام جس مقام سے روانہ ہوئے تھے (وہاں سے) پانی کا ذخیرہ کرلیا تھا۔ راستہ میں آپ سے ایک قافلہ آملا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا، ساری گفتگو بعد میں پہلے یہ بتاؤ کہ چہرے پر پژمردگی اور تھکاوٹ کاسبب کیا ہے؟ عرض کیا، پیاسے ہیں۔
امام نے اپنے اصحاب کو پانی پلانے کا حکم دیا۔ ایک ہزار کے لشکر کو سیراب کیا گیا اور حکم امام علیہ السلام کے مطابق جانوروں کو کئی بار (جب تک انہوں نے خود سے منھ نہیں ہٹا لیا) پانی پلایا گیا۔ حر کے سپاہیوں میں سے ایک شخص کا بیان ہے کہ میرے اوپر پیاس کی اتنی شدت تھی کہ گھبراہٹ کے سبب میں پانی نہیں پی پا رہا تھا۔ ایسے عالم میں حسین خود تشریف لائے اور مجھے سیراب کیا۔ امام حسین علیہ السلام کے اس اخلاق کو ملاحظہ کیجئے اور پھر اس نظریہ پر ایک نگاہ ڈالیں  کہ کیا آپ نے بغاوت کی تھی اور جنگ کے لئے نکل پڑے تھے؟! دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ آپ جنگ کی خاطر نہیں نکلے تھے ورنہ دشمن کو اپنے ہاتھوں سے پانی پلانا اور ان کی خاطر داری کرنا، جنگ کی نشانی ہے یا انسانیت کی معراج ۔۔۔؟! دوسری محرم الحرام کو یہ قافلہ وارد کربلا ہوا۔ امام  نے سوال کیا کہ یہ کون سے سرزمین ہے ؟ لوگوں نے بتایا، یہ کربلا ہے۔ امام نے فرمایا، "اللھم انی اعوذ بک من الکرب والبلاء" میرے اللہ! تجھ سے ہر کرب و بلا سے پناہ چاہتا ہوں۔ (4)

تسبیح و تہلیل میں شب و روز بسر ہوتے رہے یہاں تک کہ شب عاشور آئی۔ امام نے تمام اصحاب و انصار کو جمع کیا اور ایک خطبہ ارشاد فرمایا، میں تم سے اپنی بیعت کا قلادہ اٹھائے لیتا ہوں۔ جنت کی بھی ضمانت لیتا ہوں، اب جسے جانا ہے وہ جائے۔ آپ نے چراغ بھی گل کر دیا پھر بھی کوئی پروانہ شمع امامت سے دور نہ ہوا۔ امام نے چراغ بجھا کے یہ بتایا کہ دیکھو یہ ہیرے ہیں انہیں رات کی تاریکیوں میں ہی پر کھا جا سکتا ہے۔ میدان کربلا میں ایک طرف تاحد نگاہ لشکر تھا جو شمشیروں، نیزوں، کمانوں اور بھالوں سے لیس تھا مگر دوسری طرف نصرت خدا، حصار امامت، عزم محکم، ثبات قدمی، جذبہ ایثار و فداکاری اور راہ خدا میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کا ولولہ تھا۔ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے اصحاب کے پاس اسلحوں کا فقدان ظاہر کرتا ہے کہ وہ  جنگ کے لئے نہیں بلکہ اپنے لہو سے دین کی آبیاری کرنے آئے تھے۔ امام علیہ السلام کسی بھی صورت میں آمادہ برسر پیکار نہ تھے بلکہ ہمیشہ صلح و مصالحت کے حامی رہے تھے۔ مگر دشمن پر دولت و حکومت کا نشہ چڑھا تھا اس لئے اس نے جنگ کا آغاز کردیا۔ امام علیہ السلام  کے اعزاء و اقارب راہ خدا میں مر کے امر ہوگئے اور یہ پیغام دے گئے کہ "ولا تحسبن الذین قتلوا فی سبیل اللہ امواتا بل احیاء عند ربھم یرزقون" اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پا رہے ہیں۔ (سورہ آل عمران 169)۔ کربلا کے مہمانوں نے ہر درد کو خرید کر جان کا سودا کیا۔ انہیں کا صدقہ ہے کہ "اسلام زندہ ہوتاہے ہر کربلا کے بعد"۔ کروڑوں سلام ان جیالوں پر جن کے زخم امت کے زخموں کا مرہم بنے اور جن کا غم لوگوں کے غموں کا علاج بنا!

منابع:
(لہوف،سید ابن طاؤوس، صفحہ 234، ناشر، انتشارات نبوغ، نوبت چاپ، بیستم 1393چاپخانہ باقری، سیرت ابن ہشام جلد 3، صفحہ 143، تاریخ طبری جلد 7 صفحہ 383 اور بحارالانوار، جلد 45، صفحہ 132)۔
(رہبران معصوم، صفحہ 256، دوسرا ایڈیشن اور مقتل خوارزمی، جلد ، 1صفحہ 184)۔
(زندگانی چہاردہ معصوم، ص824، طبع، خیابان خاکفرج، کوچہ 75 انتشارات آئین دانش، قم، ایران)۔
(لہوف، مؤلف سید ابن طاؤوس، صفحہ 110، ناشر، انتشارات نبوغ، نوبت چاپ، بیستم، 1393چاپخانہ باقری)۔
 
خبر کا کوڈ : 749291
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش