0
Wednesday 12 Sep 2018 09:45

کڑا احتساب، تجاویز اور حکومتی اقدامات

کڑا احتساب، تجاویز اور حکومتی اقدامات
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

لوٹی گئی پاکستانی دولت کو واپس لانے کے لئے سپریم کورٹ کے حکم سے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی نے اپنا دائرہ ٔ کار وضع کر لیا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر کی سربراہی میں قائم یہ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی ہے، جس میں وفاقی سیکرٹری خزانہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سیکرٹری داخلہ، ڈپٹی چیئرمین نیب، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے، چیئرمین ایس ای سی پی اور وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شامل ہیں۔ پانامہ، بھاماس اور پیراڈائز پیپرز جیسے ہولناک انکشافات کے باوجود اُس وقت کی حکومت کا پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں اور ٹیکسوں میں ہیر پھیر کے غیر معمولی واقعات پر تساہل کا رویہ عدالت عظمیٰ کے اس از خود نوٹس کا محرک ثابت ہوا۔ گذشتہ ماہ کے شروع میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اس خصوصی کمیٹی کو حکم دیا گیا کہ بیرون ملک سے پاکستانی دولت واپس لانے کے لئے حکمت عملی کے بارے رپورٹ پیش کی جائے۔ چنانچہ یکم ستمبر کو یہ رپورٹ پیش کر دی گئی، جس میں ایف آئی اے، نیب اور ایف بی آر کے نمائندگان پر مشتمل جوائنٹ ٹاسک فورس تشکیل دیئے جانے کی تجویز پیش ہے، جو متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی خفیہ دولت کی چھان بین سے اپنے کام کا آغاز کرے گی۔

کمیٹی پاکستانی شہریوں کی برطانیہ میں جائیدادوں کے حوالے سے ایف بی آر کو دستیاب معلومات کی بھی پڑتال کرے گی۔ جوائنٹ ٹاسک فورس، کمیٹی کی جانب سے نامزد کئے گئے افراد کو طلب کرے گی اور جائیداد کی ملکیت اور مالی وسائل کے بارے بوچھ گچھ کی جائے گی۔ جہاں ٹیکس چھپانے کا معاملہ ہوا، وہاں ایف بی آر ٹیکس نافذ اور وصول کرے گی اور جہاں منی ٹریل کے سوالات ہوں گے، وہاں ایف آئی اے، نیب یا دیگر متعلقہ ادارے کارروائی کریں گے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے زیر حکم تشکیل پانے والا، لوٹی گئی دولت کی واپسی کا یہ نظام، موجودہ حکومت کے عزائم کے عین مطابق ہے۔ چنانچہ امید پیدا ہوتی ہے کہ یہ خصوصی کمیٹی اور ٹاسک فورس حکومت کے انسدادِ بدعنوانی، لوٹ مار کی دولت کی واپسی، ٹیکس نظام میں بہتری اور جامع احتساب کے ارادوں کو تقویت فراہم کریں گے۔ یہ کمیٹی اگرچہ سپریم کورٹ کے ماتحت ہے، لوٹی گئی دولت کے خلاف موجودہ حکومت کاعزم بھی پختہ ہے، اس لئے کرپشن، منشیات، اسمگلنگ اور ٹیکس چوری سے جمع کی گئی دولت کے خلاف حکومت بھی ہر لحاظ سے عدالت عظمیٰ کی توقعات پر پورا اترے گی اور جب سپریم کورٹ اور حکومت لوٹی ہوئی دولت کی واپسی اور ٹیکسوں میں ہیر پھیر کے واقعات کے سدباب میں یکسو ہوں گے تو یقیناً کام کی رفتار اور نتائج کی یافت قابل ذکر حد تک بڑھ جائے گی۔

چھپائے گئے اثاثوں اور ٹیکس چوری کرنے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے ہمارے ہاں ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کا رواج رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں اس قسم کی چار سکیمیں متعارف کروائیں۔ تازہ ترین سکیم جو اس سال 31 جولائی تک جاری رہی، میں صرف پانچ فیصد کی شرح سے ٹیکس دے کر چھپائے گئے اثاثوں کو قانونی بنانے کی سہولت دی گئی۔ اس سکیم پر تنقید کی جاتی ہے کہ اس کے تحت ٹیکس کی لاگو شرح، جو کہ سات سے 35 فیصد ہے،  سے بھی کم ٹیکس کی وصولی، یوں تھا گویا چور کو چوری کے جرم کی سزا نہیں دی گئی، الٹا مال کی وصولی میں بھی رعایت کر دی گئی۔ حالیہ برسوں میں امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور جرمنی سمیت کئی ممالک میں ٹیکس چوروں اور بیرونی اثاثے رکھنے والوں کے لئے ایمنسٹی سکیموں کا اعلان کیا گیا، مگر وہاں پورا ٹیکس ہی وصول کیا گیا، صرف جیل نہ بھیجنے کی رعایت دی گئی۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اس قسم کی ٹیکس ایمنسٹی سکیموں کی اصولی مخالف ہے، مگر اس موقع پر حکومت ریونیو بڑھانے اور ٹیکس سسٹم کے مسائل اور دولت کی سمگلنگ جیسے مسائل کے حل کے لئے یقیناً مختلف منصوبوں پر غور کر رہی ہوگی۔ چنانچہ حالیہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کا پھر سے جائزہ لیا جا سکتا ہے، ممکن ہے اس کی کوئی بدلی ہوئی صورت مستقبل میں مفید نتائج فراہم کرسکے۔

31 جولائی کو ختم ہونے والی ٹیکس ایمنسٹی سکیم میں اَسی ہزار سے زائد افراد نے اپنے اثاثے ڈکلیئر کئے، جن میں انیس سو ارب روپے کے غیر ملکی اور قریب پندرہ سو ارب روپے کے ملکی اثاثے شامل تھے اور اثاثے ڈکلیئر کرنے والوں نے مجموعی طور پر 123 ارب روپے ٹیکس ادا کیا۔ تحریک انصاف کی حکومت چھپائی گئی دولت کی واپسی کے لئے کیا راستہ اختیار کرتی ہے، یہ حکومت کے ریونیو، معیشت اور قانون کے ماہرین کی صلاحیتوں کا امتحان ہے۔ اگر حکومت ٹیکس چوری اور غیر قانونی اثاثوں کے خلاف سخت قانونی جارہ جوئی کرنا چاہے تو بے شک یہ بھی حکومت کے لئے ممکن ہے، مگر یہ طویل اور صبر آزما کوشش ہوگی اور نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر کو اس کے لئے یقیناً لمبی چوڑی محنت کرنا پڑے گی۔ بے شک حکومت کو ٹیکس چوروں اور لوٹ مار کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے، مگر ان سخت اقدامات کے ساتھ اگر حکومت ایمنسٹی سکیم بھی جاری کر دے تو عین ممکن ہے کہ سخت پوچھ گچھ اور تفتیش کے مراحل سے بچنے کے لئے بہت سے ٹیکس چور اور لوٹ مار کرنے والے اپنی دولت کا کچھ حصہ دے کر جان بخشی کروانے کی طرف مائل ہوں۔ مناسب شرائط کے ساتھ اس قسم کی سکیمیں دنیا بھر میں مروج ہیں، اس سے ریونیو میں بھی اضافہ ہوگا، مگر اس کا مستقبل میں فائدہ یہ ہوگا کہ ٹیکس کے نظام کے سقم اور رخنے دور کرنے میں مدد ملے گی۔

دوسری طرف وزیراعظم کے پختہ عزائم پر کوئی شک نہیں۔ وہ احتساب کو کتنی اہمیت دیتے ہیں؟ وہ اس بارے جو کہتے ہیں، سو فیصد سچ ہے۔ ان کی قائم کردہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو وعدے کے مطابق کام کر دکھانے کا جائز اور مناسب موقع ملنا چاہیئے۔ یہ بالکل درست ہے اور یہ موقع دیئے بغیر تنقید نہ کرنا چاہیئے۔ عمران خان اور ان کے ساتھی اپنے مشاہدے، تجربے اور رجحانات کی روشنی میں فیصلے کر رہے ہیں یا ہوسکتا ہے کہ ان کی روشنی میں چند فیصلے نہیں کر رہے یا توقف کے بعد کرتے ہیں۔ ان کے مقاصد، اہداف، عزائم سے اختلاف نہیں۔ جب تفصیل میں جاتے ہیں یا عملدرآمد دیکھتے ہیں تو نقطہ نظر میں فرق ہوسکتا ہے۔ بعض ماہرین اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ انہیں اپنے مقاصد اور ترجیحات پر عملدرآمد کے لئے کچھ اور کرنا چاہیے یا مختلف طریقے سے کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت بھی مدنظر رہنی چاہیے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی اپنی اپنی مجبوریوں کے اسیر ہیں۔ اس وقت عمران خان کے طفیل احتساب کا موسم طاری ہے۔ یہ اُن کی بدولت ہے کہ پاکستان میں یوم حساب کی بات ہر کس و ناکس کی زبان پر ہے۔ یقیناً جو لوگ اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کے مجرم ہیں، اُن کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیئے۔ اُن کی سختی سے پکڑ ہونی چاہیے اور ملک کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانی چاہیئے۔ ساری قوم اس عمل میں عمران خان کا بازو بننے کی خواہش رکھتی ہے۔ عام آدمی ان کی کامیابی کو اپنی خواہشات اور تمنائوں کی تکمیل سمجھتا ہے۔

 مبصرین کے نزدیک چند امور کو ملحوظ رکھنا موجودہ حکام کیلئے ازبس ضروری ہے، اوّل یہ کہ اپنے اہداف مناسب اور متوازن رکھیں، ایسا نہیں ہونا چاہیئے کہ حکومت کے ادارے اِن کا بوجھ اٹھانے کے اہل نہ ہوں یا ان کے بوجھ تلے دب جائیں۔ دوسری یہ کہ اہم اور غیر اہم میں تمیز دانشمندی کا اولین تقاضا ہے، اہم شخصیات اور بڑی بڑی بے قاعدگیوں پر توجہ مرکوز رکھیں، بڑی مچھلیوں سے فارغ ہونے کے بعد چھوٹی بے قاعدگیوں اور چھوٹے مجرموں سے نمٹیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ احتساب کے موجودہ ادارے، بات سب اداروں کی ہے، کی صلاحیت اور اہلیت پر گہری نظر ڈالیے۔ پچھلے 30 سال یا اس سے کچھ کم یا زیادہ کے دوران، یہ تو دیکھ لیں کہ انہوں نے کتنے معاملات از خود یا کسی کی اطلاع پر اٹھائے اور اس لمبے عرصہ کے دوران ان میں سے ہر معاملے کو کہاں پہنچایا۔ ابھی ہو شربا انکشافات ہوں گے اور دیکھنے اور سننے والے دیکھتے رہ جائیں گے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ محتسب کا بھی احتساب ہو، اس لئے کہ آئندہ کام کے لئے محتسب کی اہلیت اور صلاحیت کو بہترین اسی طرح بنایا جا سکتا ہے، تاکہ وہ اپنی ذمے داری کماحقہ پوری کرسکے۔

موجودہ میکنزم میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا ادارہ احتساب کے میدان میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ مالی بے قاعدگیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف یہ ادارہ ہماری پہلی لائن آف کنڑول ہے۔ خدارا اس کی طرف توجہ فرمائیں۔ چالیس ہزار سے زیادہ محکموں، اداروں اور دفاتر کے مالی معاملات کا آڈٹ اس آئینی ادارے کی آئینی ذمہ داری ہے۔ کیا جناب وزیراعظم کو بتایا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اپنی آئینی عملداری میں موجود 40 ہزار سے زائد دفاتر میں سے صرف دس سے بارہ فیصد اداروں یا محکموں کا سالانہ آڈٹ کر پاتا ہے؟ دوسری افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ جن مذکورہ دس سے بارہ فیصد اداروں کا آڈیٹر جنرل آف پاکستان آڈٹ کر پاتا ہے، وہ بھی سیمپل آڈٹ ہوتا ہے اور سیمپل بھی بہت چھوٹا یعنی کل مالی معاملات کے تقریباً 25 فیصد کا۔ وزیراعظم سب سے پہلے اس پہلی لائن آف کنٹرول کی طرف توجہ دیں اور اسے مؤثر بنائیں۔ دوسری لائن آف کنٹرول قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی پبلک اکائونٹس کمیٹیاں ہیں۔ پہلی مایوس کن بات تویہ ہے کہ آڈٹ کی طرف سے اٹھائے گئے اکثر اعتراضات ان کمیٹیوں میں پہنچنے سے پہلے طے ہو جاتے ہیں۔ کبھی کسی اسمبلی یا کمیٹی نے یہ تکلیف گوارا نہیں کی کہ پوچھے کہ جو اعتراضات طے کر لئے گئے ہیں، وہ کیا تھے اور کیونکر طے ہوئے ہیں۔ اس کے بعد جو اعتراضات کمیٹیوں تک پہنچتے ہیں ان کا کیا بنتا ہے۔

 پچھلے دس سال کے دوران ان کمیٹیوں کی کارروائی اٹھا کر دیکھ لیں، عجیب و غریب صورتحال پائیں گے۔ یہ خود ایک سکینڈل ہے اور پبلک اکائونٹس کمیٹیوں کی کارکردگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان بھی۔ پبلک اکائونٹس کمیٹیوں کے اجلاس میں میڈیا عموماً موجود ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کارگزاری سے متعلق میڈیا پر بھی ذمہ داری کا بھاری بوجھ ہے۔ پبلک اکائونٹس کمیٹیاں اپنی ذمہ داری کو پورا کیوں نہیں کر رہیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اراکین کی ضروری تربیت نہیں۔ وہ اپنے ذمے کام سے بخوبی واقف نہیں۔ انہیں اس کام میں ماہر ہونا چاہیے، جو کہ وہ ہرگز نہیں ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ چیئرمین کمیٹی کا کردار ضرورت سے زیادہ اہم بنا دیا گیا ہے، حالانکہ وہ صرف ایک رکن ہے، جیسے باقی اراکین ہیں اور صرف بعض انتظامی نوعیت کے اختیارات چیئرمین کو حاصل ہیں۔ اسمبلی میں جو آڈٹ رپورٹ پیش کی جاتی ہے، اسے اسمبلی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہونا چاہیئے، تاکہ عام شہری دیکھ سکیں کہ کیا بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں آڈٹ نے رپورٹ کی ہیں۔ کمیٹی کے ہر اجلاس کی مکمل روداد کو بھی ویب سائٹ پر موجود ہونا چاہیئے، تاکہ شہری جان سکیں کہ کیا بدعنوانی تھی اور ان کے نمائندوں نے کن وجوہ کے پیشِ نظر کیا فیصلہ کیا ہے۔ مختصراً یہ کہ جب تک موجودہ انتظامات میں پائے جانے والے سنگین سقم دور نہیں کئے جاتے، اس وقت تک ہمارے تمام مقاصد، چاہے وہ جتنے بھی قابلِ تحسین اور ہمیں عزیز ہوں، ادھورے رہیں گے۔ اﷲ تعالیٰ قوم کو مایوسی سے محفوظ رکھے۔
خبر کا کوڈ : 749530
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش