QR CodeQR Code

عمران خان سعودی عرب جا کر کیا کرینگے

15 Sep 2018 02:26

اسلام ٹائمز: پاکستان کو اقتصادی استحکام کیلئے 2018ء اور 2019ء کیلئے 12.5 ارب ڈالر کا سرمایہ درکار ہوگا جبکہ پہلے ہی اسلام آباد متعدد غیر ملکی قرضوں میں دھنسا ہوا ہے۔ صورتحال کو مزید حقیقت پسندانہ طریقے سے واضح کرنے کیلئے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کی عدم مخالفت کیصورت میں بھی پاکستان کو آئی ایم ایف سے مالی معاونت کیلئے کئی کڑی ضمانتیں دینا ہونگی۔


رپورٹ: ایس ایم عابدی

پاکستانی وزیراعظم عمران خان رواں ماہ سعودی عرب کے مجوزہ دورے پر ملک کے موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر 4 ارب ڈالر کے آسان قرضے پر مذاکرات کریں گے۔ پاکستان نرم شرائط پر قرض کے لئے چین اور دیگر ذرائع سے بھی رابطے میں ہے۔ اسلام آباد کی حتیٰ الوسع کوشش ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے مزید قرض نہ لے، کیونکہ اسے ادھار لینے کے لئے سخت ترین شرائط کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کی بدحال معیشت کی بنیاد پر پاکستان آئی ایم ایف سے صرف 2.85 ارب ڈالر قرض قدرے کم سخت شرائط پر حاصل کرسکتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی استحکام کے لئے 2018ء اور 2019ء کے لئے 12.5 ارب ڈالر کا سرمایہ درکار ہوگا، جبکہ پہلے ہی اسلام آباد متعدد غیر ملکی قرضوں میں دھنسا ہوا ہے۔ صورتحال کو مزید حقیقت پسندانہ طریقے سے واضح کرنے کے لئے یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ امریکہ کی عدم مخالفت کی صورت میں بھی پاکستان کو آئی ایم ایف سے مالی معاونت کے لئے کئی کڑی ضمانتیں دینا ہوں گی۔ آئی ایم ایف میں نئی قانونی اصلاحات کے باعث پہلے سے مقروض ممالک کے لئے مزید مالی قرضوں کا حصول تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ اگر وزیراعظم عمران خان کڑی ترین شرائط پر آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض کے لئے تیار بھی ہو جائیں تو مزید 6.5 ارب ڈالر کے لئے پاکستان کو دیگر ذرائع سے رجوع کرنا ہی ہوگا۔

اکتوبر میں قرضوں کی فراہمی کے باعث پاکستانی روپیہ کی قدر میں مزید کمی کو روکا جاسکتا ہے۔ فی الوقت پاکستان میں ایک امریکی ڈالر کی قدر 123 روپے تک جا پہنچی ہے۔ موجودہ تشویشناک اقتصادی صورتحال کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات اور دیگر درآمدات میں 15 فیصد تک کمی کرے اور فوری طور پر برآمدات میں اضافہ کے لئے اصلاحات اور اقدامات بھی کئے جائیں۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف کے ادوار حکومت میں بجلی کی پیداوار میں کمی برآمدات کے لئے انتہائی مضر ثابت ہوئی۔ نتیجتاً درآمدات اور برآمدات کا توازن یکسر بگڑ گیا۔ مزید برآں غیر ملکی پاکستانیوں کی ترسیل زر میں بھی تقریباً 10 فیصد کمی واقع ہوئی۔ یوں نئی حکومت کے لئے نہ صرف مزید قرضوں کی فراہمی ایک بڑا چیلنج ہے بلکہ آئی ایم ایف کی تجویز کردہ اصلاحات ملک کی ناگزیر ضرورت بن چکی ہیں، چاہے عالمی مالیاتی ادارہ قرض نہ بھی فراہم کرے! پاکستان گذشتہ دہائیوں میں پرانے قرضے چکانے کے لئے مزید ادھار حاصل کرتا رہا ہے، جس کا نتیجہ قرضوں کا موجودہ حالیہ بوجھ ہے، جو نیم ساکن معیشت کا سبب بنا ہے۔

عمران خان حکومت کو نہ صرف زر کا حصول سابقہ قرضوں کی ادائیگی کے لئے درکار ہے بلکہ ملک کی معیشت کو رواں کرنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے۔ بیرونی قرضوں کی بروقت عدم ادائیگی عالمی مالیاتی نظام سے پاکستان کو خارج کرسکتی ہے۔ یوں بین الاقوامی اقتصادی نظام میں فعال رہنے کے لئے عالمی مالیاتی ادارے اور ورلڈ بینک دونوں کی تجویز کردہ اصلاحات پر عمل ناگزیر ہے، ورنہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری ممکن نہ ہوگی، کیونکہ سرمایہ کار متزلزل معیشت میں زر لگانے کا خطرہ مول لینا نہیں چاہیں گے۔ چین سے دو ارب ڈالر اور سعودی عرب سے چار ارب ڈالر قرض لینے سے پاکستان فوری طور پر نادہندہ ہونے سے محفوظ ہو جائے گا جبکہ ایک ارب ڈالر کا نرم شرائط پر اسلامی ترقیاتی بینک سے قرض دشواریوں میں کمی کا باعث ہوگا۔ نواز حکومت میں بھی چین سے آسان شرائط پر قرض حاصل کیا گیا تھا جبکہ سعودی عرب نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی گرانٹ بھی دی تھی۔ ان دونوں ہمسایہ اور دوست ممالک سے قرض بنا طویل اور تفصیلی مذاکرات کے حاصل کرنا حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے۔ ہمسایہ ملک ایران نہ صرف امریکہ کی پابندیوں کا شکار ہے بلکہ فیٹف کی بلیک لسٹ میں بھی موجود ہے۔ ایران خود گوناگوں مسائل اور قدغنوں کا شکار ہے، ایسے میں تہران حکومت کی طرف سے ایسی مالی امداد کی پیشکش نہ آئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں، البتہ اکر پاک ایران گیس پائپ لائن پر کام شروع کیا جائے تو تیل سمیت دیگر مصنوعات کی خریداری کو کم کرکے مالی وسائل پر بوجھ کم کیا جاسکتا ہے، جو ایران اور پاکستان دونوں کے فائدے میں ہے۔

ترکی اپنے اندرونی اور علاقائی مسائل خصوصاً شامی مہاجرین کی موجودگی کے باعث قرض کی فراہمی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ یوں سعودی عرب کے دورے کے دوران پاکستانی وفد جہاں طویل المدتی قلیل سودی قرض پر مذاکرات کرے گا، وہیں دنیا کے امیر اسلامی ملک سے پاکستانی برآمدات میں اضافہ پر بھی بھرپور بحث ہونی چاہیئے۔ پھل، سبزیاں اور دیگر زرعی اجناس کی سعودی عرب اور خلیجی ممالک کو برآمدات کی وسیع گنجائش موجود ہے۔ مزید برآں سعودی عرب تین لاکھ سے زائد پاکستانیوں کا گھر ہے، جو تقریباً 8 ارب ڈالر سالانہ پاکستان کو زرمبادلہ فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان اور وزیر خزانہ اسد عمر کے لئے سعودی عرب میں اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کے کوٹے میں اضافے کی کامیاب کوشش غیر ملکی زرمبادلہ کی ترسیل کو مزید تقویت دینے کا باعث ہوگی۔ حالیہ دوروں کے دوران اعلیٰ سطح کے سعودی وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے بیشتر منصوبوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں معاشی ماہرین کے مطابق سعودی عرب، چین اور اسلامی ترقیاتی بینک سے قرضوں کا حصول پاکستان کی معاشی اور اقتصادی سالمیت کے لئے ناگزیر ہے۔ دوسری جانب اس حقیقت کا بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جس مشکل کا شکار آج پاکستان ہے، اس میں سعودی عرب کا بھی ایک بڑا کردار ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت معاشی بحران کے اس جن کو کس طرح قابو کرے گی، کیا سعودی عرب کے پہلو میں جا بیٹھے گی یا پھر قومی مفادات پر مبنی کوئی تیسری راہ نکالی جائے گی، کچھ وقت بعد یہ سب واضح ہو جائے گا۔


خبر کا کوڈ: 749836

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/749836/عمران-خان-سعودی-عرب-جا-کر-کیا-کرینگے

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org