0
Thursday 13 Sep 2018 16:09

کیا تحریک عدم اعتماد کا اگلا شکار وزیراعلٰی جام کمال ہونگے۔؟

کیا تحریک عدم اعتماد کا اگلا شکار وزیراعلٰی جام کمال ہونگے۔؟
رپورٹ: نوید حیدر جعفری

صوبہ بلوچستان اپنی تشکیل سے لیکر آج تک عرصہ دراز سے دائمی امراض میں مبتلا رہا ہے۔ یہ صوبہ نہ مرکز کے حقوق پیکیچ کی چورن سے روبصحت نہ ہوا، نہ ناراض رہنماؤں کو قومی دھارے میں لانے کی کوششں بار آور ثابت ہوئیں اور نہ ہی قوم پرستوں کے تبدیلی کے دعوے حقیقت میں بدل سکے۔ پی ایس ڈی پی کی دکان میں ہر سال اربوں روپے کی نئی اسکیمات کے نام پر یہاں کے لوگوں کے آئینی حقوق سے کھلواڑ کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کے تمام مسائل کو اگر ایک کوزے میں بند کیا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ بلوچستان بدترین گورننس کی بدصورت شکل، ترقی کے ثمرات سے عام آدمی کی محرومی، میرٹ اور شفافیت کے فقدان اور بدترین کرپشن کا دیمک زدہ ایک بدنصیب صوبہ ہے۔ تمام برائیوں اور مسائل کی جڑ کرپشن کے سد ِباب سے پہلو تہی اور سیاسی رہنماؤں کی ترجیحات میں اس کے حل کرنے کے جذبے اور مضبوط عزم نہ ہونے کی وجہ سے بلوچستان آج تمام صوبوں سے پیچھے ہے۔ بلوچستان کے باسیوں کو اُنکے حقوق دلانے اور بلوچستان کے مسائل بلوچستان میں حل کرنیکا نعرہ لے کر بلوچستان عوامی پارٹی کا ظہور ہوا۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے ظہور میں کار فرما "سیاسی و خلائی مخلوقی" محرکات سے قطع نظر، پارٹی میں شامل افراد کے ظاہری عزم سے انکار اسلئے ممکن نہیں، کیونکہ الیکشن 2018ء میں اُنکی کامیابی اس بات کا مظہر ہے کہ لوگوں نے اُن کے دعوؤں اور نیت کی بنیاد پر انہیں منتخب کیا ہے۔ اب یہ وقت بتائیگا کہ وہ اپنے دعوؤں میں کس قدر سچے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف میں ایک بات مشترک ہے کہ دونوں تبدیلی کے نعرے سے مسند اقتدار تک پہنچی ہیں۔ جہاں مرکز میں تحریک انصاف کو اپنے منشور اور عوامی توقعات پر پورا اترنے کے لئے کوہ ہمالیہ سر کرنا ہے، وہی بلوچستان عوامی پارٹی کے سامنے بھی گورننس، کرپشن اور سیاسی ناراضگیاں سمیت بڑے بڑے مسائل اپنا منہ کھولے موجود ہیں۔

دھیمے لہجے میں بلوچستان کی محرومیوں کا احساس لئے محروم صوبے کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کے لئے پر عزم، جام کمال صوبہ بلوچستان کا ایک خوبصورت تعارف ہیں۔ وزیراعلٰی بلوچستان کی جانب سے نیب زدہ افسران کو کلیدی عہدے نہ دینا، سال 2018۔ 19ء کی پی ایس ڈی پی کی 1600 اسکیمات کی تحقیقات اور ملوث بیورو کریٹس کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا عزم، جعلی دوائیوں کے خلاف کریک ڈاؤن، محکمہ صحت میں اصلاحات ایک اچھی شروعات ہیں، تاہم انہیں اپنے منصب سے انصاف کرنے اور بلوچستان کو پر امن اور کرپشن سے پاک صوبہ بنانے کے لئے بڑے پاپڑ بیلنے پڑیں گے۔ یہاں یہ بات بڑی اہم ہے کہ جام کمال اس حقیقت سے واقف ہیں کہ بلوچستان میں امن و امان کی مخدوش صورتحال اور ترقیاتی عمل کے تسلسل کا نہ ہونا کن بنیادی مسائل کا پیدا کردہ ہے۔ بلوچستان کو مسائل کے گرداب سے نکالنے کے لئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، اس کے لئے انہتائی بنیادی چیزوں کو ٹھیک کرکے معاملات میں سدھار لایا جاسکتا ہے۔ سرکاری وسائل کی لوٹ مار، سزاء و جزا کے عمل سے بے خوفی، بے لگام کرپشن اور بیڈ گورننس اور میرٹ کی پامالی وہ بنیادی مسائل ہیں، جن کے بطن سے امن و امان و دیگر مسائل جنم لیتے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں صحت کی بنیادی سہولیات کا فقدان ہو، ہسپتالوں میں سرنج تک دستیاب نہ ہو، سکول ہوں تو ٹیچر نہ ہوں، ٹیچر ہوں تو سکول کی عمارت دستیاب نہ ہو، بغیر سفارش اور رشوت کے نوکری نہ ملتی ہو، سرکاری دفاتر میں جائز کام کے لئے عام آدمی کی کوئی شنوائی نہ ہو، اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے جیبوں کی نذر اور کام فائلوں کی حد تک ہو، تو پھر بلوچستان کا نوجوان کبھی اپنوں تو کبھی پرائیوں کے ایجنڈے میں استعمال تو ضرور ہوگا۔

کسی بھی ملک یا صوبے کو لاحق ایسے امراض کے علاج کیلئے سب سے پہلے اندرونی سیاسی استحکام کی ضرورت ہوتی ہیں، لیکن بلوچستان کی سیاسی فضاء گذشتہ کئی ادوار سے صحیح ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ 1972ء کو جب عطاء اللہ مینگل کی حکومت بنی تو اسے ایک سال کے اندر گورنر راج لگا کر ختم کردیا گیا، اسی طرح‌ دیگر وزرائے اعلٰی جام غلام قادر خان، محمد خان باروزئی، میر جان محمد جمالی اور نواب اسلم رئیسانی کی حکومتوں کو بھی گورنر راج کے ذریعے ختم کیا گیا۔ صرف جام کمال کے والد جام محمد یوسف بلوچستان کے ایک ایسے خوش نصیب وزیراعلٰی گزرے ہیں، جن کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنے کا موقع ملا۔ اس سے قبل ماضی کے دیگر وزرائے اعلٰی یا تو وفاق سے ناراضگی کی بناء پر ہٹا دیئے گئے یا خود بلوچستان میں ان ہاؤس تحریک عدم اعتماد کے ذریعے تبدیل کر دیئے گئے۔ جام کمال خان اس وقت بلوچستان کے سولویں وزیراعلٰی منتخب ہوکر اپنی حکومت کو آگے لے جا رہے ہیں، لیکن اپنے والد کے برعکس جام کمال کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں جمعیت علماء اسلام (ف) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اسمبلی میں اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ کر حزب مخالف کا کردار ادا کر رہی ہیں، جن کی تعداد پندرہ ارکان اسمبلی تک ہے۔ لیکن پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کی صوبائی قیادت یعنی سردار یار محمد رند موجودہ وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال سے مطمئن نہیں۔ 27 اگست کو بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کے وقت سے ہی تحریک انصاف کو کابینہ میں پارٹی کی نمائندگی اور محکموں کی الاٹمنٹ پر اختلافات تھے، لیکن صدارتی انتخابات تک ان اختلافات کو منظر عام پر نہیں لایا گیا۔

عارف علوی کے بطور صدر مملکت انتخاب کے بعد تحریک انصاف بلوچستان کی جانب سے میڈیا میں اختلافات اور تحفظات کا اعلانیہ طور پر اظہار کیا جا رہا ہیں۔ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق سردار یار محمد رند وزیراعلٰی بلوچستان سے محکمہ پی اینڈ ڈی اور محکمہ خزانہ کی وزارت کے خواہشمند ہے، لیکن جام کمال وزارت خزانہ کو اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان عوامی پارٹی کو اپنے ہی ارکان کی ناراضگیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ بلوچستان سے سینیٹ کی خالی ہونے والی نشست کے لئے پارٹی نے سرفراز بگٹی کو ٹکٹ جاری کیا تھا، جبکہ میر عبدالقدوس بزنجو اپنے قریبی ساتھی و سابق نگران وزیراعلٰی علاؤالدین مری کو ٹکٹ دلوانے میں دلچسپی رکھتے تھے، جس پر پارٹی کے اندر اختلافات نے باقاعدہ دھڑے بندی کی صورت اختیار کر لی۔ وزارتوں کے معاملے پر پہلے ہی جام کمال سے ناراض پارٹی رہنماء جان محمد جمالی اور ان کے ساتھ نصیرآباد ریجن کے دیگر ایم پی ایز نمایاں ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دھڑا پی ٹی آئی سمیت بی این پی سے بھی قربت رکھتا ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ بی اے پی کا یہی ناراض دھڑا پی ٹی آئی، بی این پی اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر جام کمال کا تختہ الٹ دیں۔ اگر ایسا ہوا تو ایک مرتبہ پھر بدقسمت صوبہ بلوچستان مشکلات سے نکلنے کی بجائے مزید بحرانوں کا شکار ہوگی، جس کا براہ راست نقصان صوبے کے عام عوام کو ہی ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 749846
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش