0
Friday 14 Sep 2018 11:46

بہت قیمتی ہیں یہ قلمکار

بہت قیمتی ہیں یہ قلمکار
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com

ظلم کے خلاف بولنے کا کلچر، ظالموں کے خلاف تحریک چلانے کی تہذیب اور کرپشن کے خلاف آواز اٹھانے کا ڈھنگ صحافت نے ہی لوگوں کو سکھایا ہے۔ ہمارے ہاں تشدد، رشوت اور دھونس کا استعمال عام ہے۔ ہر جگہ چند باشعور لوگ ظلم و ستم کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں، کوئی ریلیاں نکال رہا ہے اور کوئی سماج دشمن عناصر کے خلاف خبریں بریک کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان میں تشدد، رشوت اور دھونس کے خلاف آواز اٹھانے کا سب سے زیادہ خمیازہ صحافی حضرات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج کل یہ فیشن چل نکلا ہے کہ اب کسی بھی صحافی کو قتل کروانے کے بعد اسے ڈکیتی کی واردات کہہ کر سرد خانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ اس ظلم پر نہ معاشرہ آہ کرتا ہے، نہ پولیس تحقیق کرتی ہے اور نہ ہی پڑھے لکھے لوگ واویلا کرتے ہیں۔ پتوکی میں اے آر وائی نیوز کے نمائندے میاں رزاق اور مقدر حسین بوبی کو نامعلوم افراد نے کھڈیاں پھاٹک کے قریب گولیاں مار دی تھیں۔ اس وقت میاں رزاق موقع پر جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ مقدر حسین بوبی کو زخمی حالت میں لاہور ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ افسوس کی بات ہے کہ کسی نے اس سانحے پر قابلِ ذکر احتجاج نہیں کیا اور تاحال کسی کو خبر نہیں کہ میاں رزاق کا کیس کہاں تک پہنچا ہے۔

اسی طرح 27 مارچ کو سمبڑیال میں ذیشان اشرف بٹ کو اس وقت قتل کیا گیا تھا، جب وہ دکانداروں پر عائد کئے جانے والے ٹیکس کے حوالے سے معلومات لینے یونین کونسل بیگوالا کے دفتر پہنچنے تھے۔ ایک ذمہ دار صحافی قتل ہوگیا لیکن ڈاکووں کا یہ سماج ٹس سے مس نہیں ہوا۔ گذشتہ دنوں عبدالحکیم، کبیروالا میں صحافی محمد سعید بٹ کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا اور اسے بھی ڈکیتی کی کارروائی کہا گیا۔ اس کے بعد حالیہ دنوں میں ڈسکہ میں دو افراد نے فائرنگ کرکے مقامی صحافی کو زخمی کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق تھانہ سٹی کے علاقہ سمبڑیال روڈ کا رہائشی مقامی صحافی سعید سخی مغل اپنے بیٹے کے ہمراہ چونگی نمبر8 پر واقع مقامی بیکری پر خریداری کے لئے گیا، اس کا بیٹا حامد رضا بیکری کے اندر چلا گیا جبکہ سعید سخی مغل بیکری کے باہر موٹر سائیکل پر ہی بیٹھا رہا۔ اسی اثناء میں موٹر سائیکل پر سوار دو نامعلوم مسلح افراد نے اس پر فائرنگ کر دی اور فرار ہوگئے، اسے بھی ڈکیتی کی واردات کہہ کر ہضم کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ہاں صحافیوں کو صرف ڈرایا، دھمکایا اور قتل ہی نہیں کیا جاتا بلکہ صحافیوں پر جھوٹے مقدمے بھی درج کروائے جاتے ہیں، انہیں بلیک میل کیا جاتا ہے اور نہ بکنے اور نہ جھکنے کی صورت میں انہیں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

اس وقت پاکستان صحافیوں کے لئے ایک خطرناک ترین ملک بن چکا ہے، پاکستان میں صحافیوں کا اغوا اور لاپتہ ہو جانا بھی معمول کا حصہ ہے، جیسا کہ ایک ٹی وی پروگرام میں شرکت کے لئے جانے کے دوران صحافی سلیم شہزاد پراسرار طور پر غائب ہوگئے، پھر  دو دن بعد 30 مئی 2011ء کو ان کی نعش، جس پر جسمانی تشدّد کے واضح نشان تھے، پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کے قریب سے برآمد ہوئی۔ گذشتہ سال یعنی 2017ء میں پاکستان میں صحافیوں کے خلاف رپورٹ ہونے والے واقعات میں 35 فیصد واقعات دارالحکومت اسلام آباد میں ریکارڈ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کو صحافیوں کے لئے سب سے خطرناک جگہ قرار دیا گیا۔ جب اسلام آباد میں آزادی صحافت کا یہ حال ہے تو پھر دیگر مقامات پر آزادی صحافت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ دوسری طرف کالعدم تنظیمیں بھی پاکستانی صحافیوں کے خون کی بو سونگھتی پھرتی ہیں، فرائض منصبی کی ادائیگی کے دوران صحافیوں سے تعاون کے بجائے ان پر حملے کئے جاتے ہیں، کیمرے چھینے جاتے ہیں اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، بعض صحافی تو سماجی و معاشی حالات سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان جیسے ترقی پذیر اور عقب ماندہ ملک کے لئے صحافیوں کی سلامتی اور دیکھ بھال حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

قلم کو سماج کی آنکھ کہا جاتا ہے، دیانتدار قلم جو دیکھتا ہے، وہی لکھتا ہے، حق پرست قلم کبھی بھی ظلم کو برداشت نہی کرتا، یہی وجہ ہے کہ اندھا سماج قلم کی روشنی کے مخالف حرکت کرتا ہے، یہ ہم سب کی ملی ذمہ داری ہے کہ ہم حرمتِ قلم کی پاسبانی کریں اور قلمکاروں کو درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے آواز اٹھائیں، جس معاشرے میں قلم خاموش ہو جاتا ہے اور قلمکار دیوار کے ساتھ لگا دیئے جاتے ہیں، وہ معاشرہ اقدار کا قبرستان بن جاتا ہے۔ معاشروں کی زندگی، قوموں کا عروج اور تہذیب کا حسن یہی ہے کہ قلم چلتے رہنے چاہیئے اور قلمکار کو سچ قلمبند کرتے رہنا چاہیے، اگر یہ قلم رک گئے تو تہذیب و تمدن کا سفر رک جائے گا، قدر کیجئے ان کی! سلام کیجے ان کو!، جو قلم کے ذریعے نئی نسل کو پرانی نسلوں سے ملاتے ہیں، جو منوں مٹی تلے دفن سچائیوں کو کرید کرید کر باہر نکالتے ہیں اور جو اندھیرے میں روشنی کے جگنو بن کر جگمگاتے ہیں، بہت قیمتی ہیں یہ قلمکار جو یزیدوں کے مقابلے میں حسینیؑ بن کر جیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 749987
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش