0
Saturday 15 Sep 2018 13:07

مقام معظم رہبری اور آیت اللہ العظمٰی مکارم شیرازی کی نظر میں عزاداری امام حسین علیہ السلام

مقام معظم رہبری اور آیت اللہ العظمٰی مکارم شیرازی کی نظر میں عزاداری امام حسین علیہ السلام
تحریر: سیدہ ایمن نقوی

قیام عاشورا کو باقی رکھنے کے لئے آئمہ اطہار کی تدابیر میں سے ایک موثر تدبیر امام حسین علیہ السلام پر گریہ ہے۔ امام سجاد علیہ السلام اپنی امامت کے دوران ہمیشہ واقعہ عاشورا پر عزاداری مناتے رہے اور اس مصیبت پر آپ اتنا روئے کہ "بکائین عالم"" (بہت گریہ کرنے والا ) آپ کا لقب پڑ گیا۔ آپ فرماتے تھے، "انی لم اذکر مصرع بنی فاطمة الا خنقتنی العبرة،" جب بھی مجھے اولاد فاطمہ کی قتلگاہ یاد آتی ہے تو آنسوں گلو گیر ہو جاتے ہیں۔ ہر مناسبت پر امام کا گریہ کرنا اس بات کا باعث بن گیا کہ عام لوگ بیدار ہو جائیں اور شہدائے عاشورا کو کوئی بھلانہ سکے۔ اب یہاں لوگوں کو عزاداری و گریہ کے ذریعے سے بیدار کرنے اور ان میں واقعہ کربلا کی یاد کو راسخ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ کربلا کے اصل ہدف کو نہ بھول جائیں۔ بعض اوقات ایسا ہی ہوتا ہے انسان فرعی کاموں میں پڑ کے اپنے اصل مرکز سے ہٹ جاتا ہے۔ شیعوں کے امام صرف خود ہی سید الشہداء پر گریہ نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ لوگوں کو بھی امام حسین کے اوپر رونے کے لئے شوق و رغبت دلاتے تھے۔ ایک روایت میں امام رضا علیہ السلام نے بیان کیا ہے، "فعلی مثل الحسین فلیبک الباکون، فان البکاء علیہ یحط الذنوب العظام" پس امام حسین جیسوں کے اوپر گریہ کرنے والوں کو گریہ کرنا چاہیئے کیونکہ آپ پر گریہ کرنے سے بڑے گناہ دور ہو جاتے ہیں۔

نہ صرف رونے کے متعلق روایات میں بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے، بلکہ رلانے کیلئے بھی حتی کہ "تباکی" رونے کی صورت بنانے کے متعلق بہت زیادہ ثواب بیان کیا گیا ہے۔ مظلومیت اہلبیت پر گریہ کرنے کے متعلق احادیث میں بیان ہوا ہے کہ "من بکی و ابکی واحدا فلہ الجنة و من تباکی فلہ الجنة " جو کوئی روئے اور اگر فقط ایک آدمی کو رلائے، اس کی جزا بہشت ہے اور جو رونے کی صورت بنائے اس کی جزاء بھی بہشت ہے " (بحارالانوار، ج 44، ص 287)۔ آئمہ اطہار علیہم السلام ان حالات میں اتنا گریہ کیا کرتے تھے کہ بیتاب ہو جایا کرتے تھے۔ آپ توجہ فرمائیں کہ اس مرثیہ خوانی میں زیادہ تر فکر، حرکت اور آنسو ہوتے تھے اور ماتمی دستوں، زنجیر اور نذونیاز پرکم توجہ دی جاتی تھی۔ عزاداری میں لوگوں کی بیداری، اسلامی امت کی آگاہی اور ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے کا پہلو پایا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایسا مکتب ہے جس میں انسان کی برجستہ صفات کی پرورش کی جاتی ہے، لہٰذا یہ کہنا ضروری ہے کہ عاشورا ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ہر سال کی طرح ایام عزاداری حضرت امام حسین علیہ السلام آگئے ہیں، لہٰذا یہ بہت اہم اور ضروری ہے کہ حضرت سید الشہداء علیہ السلام کے غم میں عزاداری منانے کی حقیقت کو زیادہ سے زیادہ بیان کریں، اس کے اصل ہدف اور مقصد پہ روشنی ڈالیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنی تحریر میں نہ صرف مقام معظم رہبری آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ کے فلسفہ عزاداری کو بیان کیا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ حضرت آیة اللہ العظمی مکارم شیرازی (مدظلہ) کے بیش بہا نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے اس مسئلہ کے بنیادی اصولوں اور اہداف کو پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

مقام معظم رہبری کی نظر میں عزاداری امام حسین علیہ السلام کا فلسفہ
امام حسین (ع) تاریخ انسانیت کے مستقبل ساز ولی خدا ہیں:
امام حسین علیہ السلام تاریخ اسلام اور انسانیت کی سب سے عظیم مستقبل ساز شخصیت ہیں۔ امام حسین علیہ السلام نے جو قدم اٹھایا وہ محدود جہت کا حامل نہیں تھا بلکہ ان کا پیش کیا گیا لائحہ عمل ایسا تھا جس نے پوری تاریخ انسانیت کو اپنے حصار میں لے لیا اور دنیا کے تمام مستقبل پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑ دیئے۔ انہوں نے ایسا لائحہ عمل دیا جو خداشناس اور حق طلب لوگوں کی تربیت و رہنمائی کے لئے تاابد مشعل راہ رہے گا اور امام حسین علیہ السلام نے اپنے خون سے اس شجر ہدایت کی آبیاری فرمائی، اور اب اس شجر کی جڑیں پوری دنیا میں اس طرح سے رسوخ کر چکی ہیں کہ کوئی جیسی بھی اس شجرہ طیبہ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر لے کامیاب نہیں ہو گا۔ مستقبل پر امام حسین علیہ السلام کے اثرات فقط ظاہری اور عزاداری و سوگواری کی حد تک نہیں ہیں بلکہ باطنی، معنوی، ہدایتی اور آگاہی کے حوالے سے بھی ہیں اور یہ پہلو زیادہ قوی ہے۔ عاشورا تمام انسانوں کو توحید، عبودیت اور انسانیت کی راہ دکھاتا ہے۔ مکتب امام حسین (ع) لوگوں کے دلوں میں راسخ ہو چکا ہے۔

عزاداری امام حسین (ع) کا بنیادی مقصد قرب خدا کا حصول:
عزاداری امام حسین (ع) کا بنیادی ترین مقصد خدا کا قرب حاصل کرنا ہے، رہبر آزادہ کے نزدیک عزاداری سید الشہدا (ع) کا اثر یہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے گناہ کے بخشش دیئے جاتے ہیں۔ محرم الحرام کے عشرہ اول میں پورا جہان عزادار ہوتا ہے۔ آئمہ طاہرین (ع) ان ایام میں بہت زیادہ غمزدہ ہوتے تھے اور روز عاشورا کے نزدیک ان کے غم و حزن میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا تھا۔ عزاداری سیدالشہدا (ع) کا بنیادی ترین مقصد قرب خداوندی کا حصول ہے۔ عزاداری سید الشہدا (ع) کو گناہوں سے آلودہ نہیں ہونا چاہیئے، گناہ انسان کے نیک اعمال کو بھی ختم کر دیتے ہیں۔ انسان کی زحمتیں اسوقت باثمر ہوتی ہیں کہ جب ان میں گناہ شامل نہ ہوں۔ خدا کا مقرب بندہ ہرگز گناہ کی فکر بھی نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا دنیا محل عبور اور آخرت ہمیشہ رہنے والی منزل ہے۔

عزاداری فقط جذباتی نہیں بلکہ بامعرفت ہو:
آپ فرماتے ہیں کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام کو صرف جذباتی طور پر نہیں منانا چاہیئے بلکہ اس سے معرفت خداوندی بھی حاصل کرنی چاہیئے۔ عزاداری میں جہاں جسم کی غذا کا خیال رکھنے کے لئے مختلف قسم کی نذرونیاز کا اہتمام کیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روح کی غذا کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور وہ یہ کہ ان مجالس سے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ جذباتی وابستگی کا درس لیا جاتا ہے۔ ان مجالس میں بیان ہونے والے معارف اسلامی انسان کی فکر کو پختہ کرتے ہیں اور احساسات اور جذبات کے ذریعے انسان کے دل کو پاک کرتے ہیں۔ مقام معظم رہبری کا فرمانا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے غم میں سینہ زنی اور گریہ و ماتم اچھی چیزیں ہیں لیکن ہمیں اس بات کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیئے کہ ان مجالس کے ساتھ صرف ہماری جذباتی وابستگی ہی نہ ہو کیونکہ انسان کو خدا نے احساسات و جذبات کے ساتھ ساتھ عقل کی نعمت سے بھی نوازا ہے اور عقل کو بھی غذا کی ضرورت ہے۔ لہٰذا ان مجالس میں جا کر معارف و تعلیمات اسلامی سے زیادہ سے زیادہ آگاہ ہونے کی کوشش کرنی چاہیئے۔

عزاداری حسینؑ توبہ کی قبولیت کا باعث ہے:
سید الشہداء علیہ السلام کی مصیبت کا تذکرہ انسان کی توبہ قبول ہونے کا باعث بنتا ہے۔ سید علی خامنہ ای فرماتے ہیں کہ کہ اگر کوئی امام حسین علیہ السلام سے ذرا سی بھی محبت رکھتا ہے تو ان کی عزاداری بپا کرنے سے اس کے وہ گناہ ضرور معاف ہو سکتے ہیں جو حق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں البتہ حقوق العباد والے گناہ خدا معاف نہیں کرتا۔ عزاداری امام حسین علیہ السلام انسان کے لئے توبہ کا دروازہ ہے۔ انسان اور حیوان میں یہی فرق ہے کہ انسان واحد مخلوق ہے کہ توبہ کے ذریعے اپنے اندر تبدیلی لا سکتا ہے۔ توبہ فقط استغفراللہ کہنے کا نام نہیں ہے بلکہ توبہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے تمام وجود کے ساتھ خداوند کی طرف لوٹ جائے، اپنے گناہوں پر پشیمان ہو اور مصمم ارادہ کر لے کہ آئندہ وہ گناہ انجام نہیں دے گا۔ آپ کا فرمانا ہے  کہ سید الشہداء علیہ الصلوٰۃ و والسلام کی مصیبت کا تذکرہ انسان کی توبہ قبول ہونے کا باعث بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی امام حسین علیہ السلام سے ذرا سی بھی محبت رکھتا ہے تو ان کی عزاداری بپا کرنے سے اس کے وہ گناہ ضرور معاف ہو سکتے ہیں جو حق اللہ سے تعلق رکھتے ہیں البتہ حقوق العباد والے گناہ خدا معاف نہیں کرتا۔

عزاردای امام حسین آیت اللہ العظمٰی مکارم شیرازی کے نظر میں
امام حسین (ع) کی مجلس عزاداری قائم کرنے پر روایات کی تاکید:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے مصائب پر گریہ اور عزاداری منانے کے متعلق روایات میں جس قدر تاکید اور نصیحت کی گئی ہے، اس قدر کسی بھی معصوم علیہم السلام یہاں تک کہ خود پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے متعلق بھی وارد نہیں ہوئی ہیں، گویا اس مسئلہ میں کوئی راز پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام نے اس قدر تاکید اور سفارش کی ہے (1)۔
مکتب اہل بیت علیہم السلام کی حفاظت:
امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کو قائم کرنے کے متعلق آئمہ معصومین علیہم السلام کی تاکیدات کو بیان کرتے ہوئے یہ کہنا ضروری ہے کہ دوست اور دشمن کے اعتراف کے مطابق لوگوں کو بیدار کرنے کیلئے امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاداری بہت زیادہ موثر ہیں اور یہ ایسی رسم ہے جو امام علیہ السلام نے خود اپنے ماننے والوں کو سکھائی ہے تاکہ اسلام کی بقاء کی ضامن ہو (2)۔

اسی طرح ان مجالس کو قائم کرنے کی اہمیت اور ان کو باقی رکھنے کیلئے آئمہ معصومین علیہم السلام کی تاکید اس وقت واضح ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جس وقت یہ روایات صادر ہوئی ہیں، اس وقت شیعہ بہت زیادہ فشار اور پریشانی کی حالت میں زندگی بسر کررہے تھے، اموی اور عباسی حکومت کا فشار اس قدر زیادہ تھا کہ شیعوں میں سیاسی اور اجتماعی چھوٹی سی بھی کارروائی کرنے کی طاقت نہیں تھی اور شیعوں کے منقرض ہو جانے میں کوئی کمی نہیں رہ گئی تھی لیکن امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاء نے ان کو نجات دلائی اور اس کی پناہ میں انہوں نے اپنے آپ کو بہت اچھی طریقہ سے منظم کیا اور اسلامی میدان میں پوری قدرت کے ساتھ ظاہر ہوئے اور آج تک باقی ہیں(3)۔ یہی وجہ ہے کہ روایات میں ان مجالس عزاء ''احیاء امر اہل بیت علیہم السلام'' کے نام سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امام صادق علیہ السلام اس طرح کی مجالس کے سلسلہ میں فرماتے ہیں، ''ان تلک المجالس احبھا فاحیوا امرنا''۔ میں تمہاری اس طرح کی مجالس کو پسند کرتا ہوں، اس طرح تم نے ہمارے مکتب کو زندہ رکھا ہے (4) (5)۔

اسلامی امت کا اتحاد:
یقینا عزاداری حسینی علیہ السلام کی رسومات کو منعقد کرنے کیلئے آئمہ اطہار علیہم السلام نے بہت زیادہ تاکید کی ہے اور اس کی وجہ لوگوں کے اندر اتحاد اور انسجام پیدا کرنا ہے اور آج آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے موقع پر مختلف قوم و قبیلہ اور مختلف مذاہب کے لوگ ہر گلی و کوچہ میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے جمع ہوتے ہیں اور سب مل کر عزاداری مناتے ہیں۔ ہر قوم اپنی بقا اور کامیابی کے لئے اتحاد اور اجتماع کی محتاج ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے ماننے والوں کے اتحاد کے لئے بہترین چیز عزاداری ہے جس میں بہت کم خرچ کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کو ایک جگہ جمع کیا جاسکتا ہے(6)۔

ظلم ستیزی میں امام حسین علیہ السلام کے اہداف کو زندہ کرنا:
یہ بات بھی واضح ہے کہ عزاداری منانے کا ایک ہدف، امام حسین علیہ السلام کی تاریخ اور ان کے ہدف کو باقی رکھنا ہے، آپ کا ہدف، ظلم و ذلت سے مقابلہ تھا، لہٰذا عزاداری اس طرح منانا چاہیئے کہ سب کو ان اہداف سے روشناس کرا دیا جائے کیونکہ عزاداری، ظلم سے جنگ اور ظالموں سے برائت و بیزاری کا نام ہے۔
عطوفت اور بصیرت کا رابطہ:
اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ گریہ کی بنیاد پر عزاداری کی رسومات قائم کرنا اس مکتب کے بانی سے عشق و محبت کی علامت ہے جنہوں نے ہمیں شجاعت، ایمان اور ظلم ستیزی کا درس دیا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ عشق و محبت کا رابطہ پایا جائے اور ان کے مصائب میں آنکھوں سے کوئی آنسو نہ نکلے، لہٰذا گریہ ان مصائب اور مظالم کی وجہ سے ہے جو دشمنوں نے ان کے اوپر ظلم و ستم کئے ہیں اور حقیقت میں آپ کے دشمنوں سے اعلان جنگ ہے، اس کے علاوہ کربلا کے مناظر ایسے تھے کہ جس میں ذرہ برابر بھی عطوفت پائی جاتی ہو وہ ان کو سننے کے بعد متاثر ہو جاتا ہے اور یہ وہی عطوفت اور محبت کا رابطہ ہے (7)۔

نتیجہ:
 عزاداری میں لوگوں کی بیداری، امت اسلامی کی آگاہی اور ظلم و ستم سے مقابلہ کرنے کا پہلو پایا جاتا ہے اور حقیقت میں یہ ایسا مکتب ہے جس میں انسان کی برجستہ صفات کی پرورش کی جاتی ہے، لہٰذا یہ کہنا ضروری ہے کہ عاشورا ایک ''حادثہ'' نہیں ہے بلکہ ایک ''تاریخی واقعہ'' ہے۔ حق اور باطل کی جنگ کا واقعہ ہے، یہ مقابلہ اور جنگ ہر زمانہ میں چلتی رہیگی اور عاشورائے حسینی، حق کے ماننے والوں کو باطل پر کامیاب ہونیکا درس دیتا ہے اور ''ھیھات منا الذلة'' اس جہاد کی اہمیت کو بیان کر رہا ہے اور ہم نے پوری تاریخ میں اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ (8)
 
منابع و مآخذ:
www.makarem.ir
1۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ 66۔
2۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ 70۔
3۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ 70۔
4۔  وسائل الشیعہ ، جلد ١٠ ، صفحہ ٣٩١ تا ٣٩٢ ، حدیث 2۔
5۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ 71۔
6۔  عاشورا ریشہ ھا ، انگیزہ ھا ،رویدادھا ، پیامدھا ، صفحہ 72۔
7۔  احکام عزاداری ، صفحہ 31۔
8۔  احکام عزاداری ،صفحہ 32۔
خبر کا کوڈ : 750044
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش