0
Friday 14 Sep 2018 20:51

ایام عزا اور بے چین لوگ

ایام عزا اور بے چین لوگ
تحریر: سید اسد عباس

ہمارے معاشرے میں محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی جہاں محافل عزا، نوحہ اور ماتم کا آغاز ہوتا ہے، وہیں ایک خاص طبقے میں بے چینی کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ ان کی کاوش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی انداز میں اس تمام عمل کو متنازع بنا کر روکا جائے یا اس کی اپنی سی کوشش کی جائے۔ ہم جانتے ہیں کہ نواسہ رسول اور ان کے اصحاب باوفا کا غم کسی ایک مسلک سے مخصوص نہیں ہے۔ ہر مسلک کے پیروکار اپنے اپنے انداز سے اس غم کو مناتے ہیں۔ ایک دوسرے کے طریقہ کار پر اعتراضات بھی ہوتے رہتے ہیں۔ خود مسلک تشیع جو کہ مکتب اہلبیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، میں اندرونی طور عزاداری کے طور طریقوں کے حوالے سے کافی لے دے ہوتی ہے۔ کوئی زنجیر زنی کو درست سمجھتا ہے، کسی کے خیال میں یوں خون بہانا درست نہیں، تاہم غم منانے کے حوالے سے کسی کو اختلاف نہیں ہے۔

محرم کے آغاز سے ہی عزاداری کے جلوسوں اور مراسم پر بے چین ہو جانے والا طبقہ عجیب و غریب دلائل کے ساتھ منظر عام پر آتا ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے کہ ان محافل میں صحابہ کی توہین کی جاتی ہے، کبھی ان مراسم کو امن عامہ کے لئے خطرہ قرار دیا جاتا ہے، کبھی کاروبار اور راستوں کی بندش کو سامنے رکھ کر جلوس عزا پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ گذشتہ کچھ برسوں سے یکم محرم الحرام کو یوم حضرت عمر کے عنوان سے منانے کا آغاز کیا گیا ہے اور پورے عشرے کو عشرہ فاروق و حسین کے عنوان سے منانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ عشرہ عزا میں چونکہ مسلمان حالت غم میں ہوتے ہیں، لہذا ان ایام میں نکاح یا شادی سے عموماً اجتناب برتا جاتا ہے، تاہم یہ بے چین طبقہ اس کام کی بھی مخالفت کرتا ہے اور منظم انداز میں نکاح کا بندوبست کرتا ہے۔

گزارش یہ ہے کہ عزاداری واقعہ کربلا کے وقوع پذیر ہونے کے وقت سے جاری ہے، دنیا کے مختلف علاقوں میں عزاداری کے مراسم انجام دیئے جاتے ہیں، کہیں ختم قرآن کی محافل منعقد ہوتی ہیں، کہیں سیمینار، مجالس، محافل، مسالمہ کا انعقاد کیا جاتا ہے، کسی مقام پر جلوس عزا نکلتا ہے، ان تمام تر اقدامات کا مقصد کسی کی دل آزاری قطعاً نہیں ہوتا۔ یہ مراسم خانوادہ اہل بیت سے محبت کے اظہار کا علاقائی انداز ہیں۔ پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات سے قبل یہ مراسم عزاداری بغیر کسی روک رکاوٹ کے انجام پاتے تھے۔ تمام مسالک کے لوگ ان مراسم میں شرکت کرتے تھے۔ راستے، دکانیں، کاروبار بند نہیں کئے جاتے تھے۔ اب بھی ایسا نہیں کہ کسی بھی شہر کی تمام تر سڑکیں اور کاروبار بند ہو جائیں۔ وہ راستے جہاں سے جلوس عزا کو گزرنا ہوتا ہے کو سکیورٹی ادارے بند کرتے ہیں۔

پاکستان میں تبلیغی اجتماعات، دھرنوں، ریلیوں، عید میلاد کے جلوسوں اور احتجاجات کے لئے سڑکوں پر آنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ اس مقصد کے لئے بعض شاہراہوں کو بند بھی کرنا پڑتا ہے اور یہ رکاوٹ تو بعض اوقات اس قدر اچانک اور تکلیف دہ ہوتی ہے کہ اس کو معمول پر لاتے لاتے گھنٹوں لگ جاتے ہیں اور بعض قیمتی جانیں بھی ضائع ہوتی ہیں۔ پہلے سے طے شدہ مذہبی اجتماعات کے لئے شاہراہوں اور کاروبار کے بند کئے جانے پر کبھی بھی کوئی آواز نہیں اٹھی، فقط جلوس عزا ہے جس پر منظم طور پر اعتراض کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جو یقیناً کاروبار یا راستے کی بے چینی سے ہٹ کر کسی اور بے چینی کا اظہار ہے۔ اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتا کہ سکیورٹی وجوہات کے سبب جہاں ایک یا دو روز کے لئے بعض دکانیں بند ہوتی ہیں، وہاں ملک میں لاکھوں روپے کا کاروبار بھی آتا ہے، نیاز کے لئے اشیاء کی خریداری جس قدر محرم میں کی جاتی ہے، سال بھر ایسی کوئی اور مناسبت نہیں ہے، جس سے کاروبار میں تیزی آئے۔ بہرحال اہل تشیع نے کبھی تقاضا نہیں کیا کہ جلوس عزا کے لئے راستوں یا دکانوں کو بند کیا جائے۔ تاریخ پاکستان گواہ ہے کہ یہ جلوس ہر سال نہایت امن و امان کے ساتھ اپنی منزل مقصود پر پہنچتے ہیں اور ریاستی یا نجی املاک کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا جاتا۔

گذشتہ دنوں ایک اہلسنت محقق نے یوم شہادت حضرت عمر کے حوالے سے ایک تحریر قلمبند کی، جس میں انہوں نے ثابت کیا کہ یکم محرم کو حضرت عمر کا شہید ہونا تاریخی طور پر ثابت ہی نہیں ہے۔ یہ حوالے یقیناً اہل علم کی نظر میں ہوں گے، تاہم کچھ تازہ اذہان کے لئے انہیں پیش کرنا ضروری ہے، تاکہ علم ہوسکے کہ  حضرت عمر کے روز شہادت کو محرم میں کیوں منتقل کیا جا رہا ہے اور اس کی کیا تاریخی بنیاد ہے:
1۔ علامہ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت عمر بن خطاب کو انکی خلافت کے دوران ہی میں مغیرہ کے غلام ابو لولوہ نے قتل کر دیا تھا۔ اس وقت سن ہجری کا 23۳ واں سال تھا اور بدھ کا دن تھا، جبکہ ماہ ذی الحجہ کے اختتام میں چار روز باقی تھے۔(مروج الذہب جلد۲، صفحہ ۲۴۰)
2۔ علامہ دنیوی لکھتے ہیں: ماہ ذی الحجہ 23 ہجری کی چار راتیں باقی تھیں کہ حضرت عمر بن خطاب جمعہ کے روز رحلت فرما گے۔
3۔ علامہ محب الدین طبری لکھتے ہیں: آپ نے ۲۶ ذی الحجہ کو وصال فرمایا۔ بعض نے کہا کہ اس تاریخ کو زخم آیا تھا اور وفات آخری ذی الحجہ میں ہوئی۔(ریاض النضرہ جلد ۲ صفحہ ۳۳۵)
4۔ مشہور مورخ طبری لکھتے ہیں: آپ نے چہار شنبہ کی شب کو 27 ذی الحجہ 23 ہجری کو وفات پائی۔ عثمان اخنسی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اس خبر میں سہو ہوا ہے، کیونکہ حضرت عمر نے 26 ذی الحجہ کو وفات پائی۔ ابو معشر کے نزدیک 26 اور ہشام بن محمد کے نزدیک 27 ذی الحجہ ہے۔(تاریخ طبری جلد ۳ صفحہ ۲۱۷۔۲۱۸)

5۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں: واقدی کا بیان ہے کہ حضرت عمر پر بدھ کے روز حملہ ہوا، جبکہ 23 ہجری کے ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں۔(البدایہ و النہایہ جلد ۷ صفحہ ۱۸۶)
6۔ علامہ ابو الفداء: توفی (عمر) یوم السبت سلخ ذی الحجہ روز شنبہ کو حضرت عمر نے وفات پائی۔(تاریخ ابوالفداء صفحہ ۱۲۲)
7۔ تاریخ کامل کے مصنف نے بھی یہی لکھا ہے کہ ذی الحجہ کی چار راتیں باقی تھیں کہ آپ فوت ہوگئے اور یکم محرم کو دفن ہوئے۔(الکامل جلد ۳ صفحہ ۵۲)
8۔ ابن خلدون لکھتے ہیں: زخمی ہونے کے بعد برابر ذکر اللہ کرتے رہے، یہاں تک کہ شب چہار شنبہ 27 ذی الحجہ 23 ہجری کو اپنی خلافت کے 10 برس 6 مہینے بعد جان بحق تسلیم ہوئے۔(تاریخ ابن خلدون جلد ۱ صفحہ ۳۰۷)
9۔ امام اہلسنت جلال الدین سیوطی: ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن 26 ذی الحجہ 23 ھجری کو شہید ہوئے اور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے۔(تاریخ الخلفاء صفحہ ۱۳۹)
10۔ ابن اثیر لکھتے ہیں: حضرت عمر کی وفات 26 ذی الحجہ کو ہوئی اور انتیس ذی الحجہ دو شنبہ کے دن حضرت عثمان کی بیعت کی گئی۔(اسد الغابہ جلد ۲، صفحہ ۶۶۷)

علامہ سید ابرار بخاری نے قدیم حوالوں کے علاوہ جدید علماء کے حوالے بھی دیئے، جو مضمون کی طوالت کے باعث میں چھوڑ رہا ہوں۔ بخاری صاحب مضمون کے اختتام پر جو سوال اٹھا رہے ہیں، یقیناً ہم سب کو اس سوال کے جواب کی تلاش ہے۔ سوال کچھ یوں ہے کہ واللہ اعلم اب اس تاریخ وفات کو محرم الحرام میں منتقل کرنے کے پیچھے سوائے امن و امان کی صورتحال خراب کرنے کے اور کیا وجہ ہوسکتی ہے؟؟؟ 13 ستمبر یعنی دو یا تین محرم الحرام کو جماعت اسلامی کے رفاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کی جانب سے پشاور مرکز میں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق نے نکاح پڑھا۔ شادی کے لباس میں ملبوس پچاس دولہے اور دولہنیں اپنے عزیز و اقرباء کے ہمراہ اس محفل میں موجود تھے، یقیناً یہ ان پچاس جوڑوں اور ان کے خاندانوں کے لئے خوشی کا موقع تھا، تاہم ایام عزا میں نکاح کی اس منظم تقریب نے معاشرے کو بہت برا پیغام دیا۔

میرے ایک نہایت عزیز دوست، برادر جن کا تعلق جماعت سے ہی ہے، اس تقریب کے دفاع میں فرماتے ہیں کہ جو چیزیں میں اور آپ صرف مباح یا ناپسندیدہ سمجھتے ہیں، وقت گزرنے کیساتھ آئندہ نسلیں وہ حلال اور حرام یا جائز اور عدم جواز کے زمرے میں لاکر "حکم شرعی" سمجھ بیٹھتی ہے۔ برادر سے میں نے یہی گزارش کی کہ مسئلہ احساس کا ہے، اگر شریعت کو اس معاشرتی روایت سے اتنا ہی خطرہ ہے تو پھر روز عاشور بھی ایسی ہی ایک تقریب سجائیں، تاکہ گزرتی نسلوں کے ساتھ اس روز نکاح کرنا حرام نہ ہو جائے۔ کاش ہم سب مسلمان ان ایام عزا میں ایک دوسرے سے دست و گریبان ہونے کے بجائے، ایک دوسرے کے خلاف تحریریں لکھنے اور اقدامات کرنے کے بجائے مل کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ان کے خانوادے کی شہادت کا پرسہ دیتے۔
خبر کا کوڈ : 750047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش