1
0
Saturday 15 Sep 2018 01:30

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا معاملہ فیصلہ کن موڑ پر

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا معاملہ فیصلہ کن موڑ پر
رپورٹ: لیاقت علی انجم

گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا معاملہ فیصلہ کن موڑ میں داخل ہوگیا ہے، سپریم کورٹ آف پاکستان میں لڑی جانے والی قانونی جنگ آخری مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، سپریم کورٹ میں گلگت بلتستان کے آئینی مقدمات کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے گلگت بلتستان کے بارے میں مثبت ریمارکس کے بعد حوصلہ افزاء نتائج سامنے آرہے ہیں۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں دوسری مرتبہ آئینی حیثیت کا معاملہ پاکستان کے اعلٰی ترین عدالتی فورم پر زیرسماعت ہے۔ گلگت بلتستان بارکونسل کی جانب سے دائر آئینی پٹیشن اورگلگت بلتستان آرڈر2018ء کے خلاف درخواستوں پر اس وقت پیشرفت سامنے آئی جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان بارکونسل کی جانب سے دائر عدالت کے 1999ء کے فیصلے پر عملدرآمد کی پٹیشن بھی سماعت کے لئے مقررکردی۔ اس سے پہلے بار کونسل نے 2015ء میں گورننس آرڈر 2009ء کے خلاف بھی سپریم کورٹ کادروازہ کھٹکھٹایا تھا یہ کیس چلتا رہا، پھرنون لیگ کی حکومت نے گورننس آرڈر کی جگہ گلگت بلتستان آرڈر 2018ء جاری کیا تو اس کے خلاف بھی سپریم کورٹ میں درخواست دی گئی اب ان تمام مقدمات کی سماعت 25ستمبر کو مقرر ہے۔

دوسری جانب گلگت بلتستان بار کونسل نے پاکستان بار کونسل کے ذمہ داروں سے بھی رابطہ کیا ہے اور تعاون کی درخواست کی ہے پاکستان بارکونسل نے بھرپور تعاون کا یقین دلایا ہے۔ گزشتہ روز گلگت بلتستان بارکونسل کے وفد وائس چیئرمین جاوید احمد ایڈووکیٹ اور سابق وائس چیئرمین منظور احمد ایڈووکیٹ نے پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین کامران مرتضٰی اور معروف قانون دان اور اسی کیس میں عدالت کے معاون اعتزاز احسن سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ پاکستان بار کے وائس چیئرمین کامران مرتضٰی نے وفد کو یقین دلایا کہ وہ پاکستان بار کو اعتماد میں لے کرسپریم کورٹ میں گلگت بلتستان بار کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ اُدھر اعتزازاحسن سے ملاقات میں وفد نے آئینی حیثیت سے متعلق اپنے موقف سے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ اعتزاز احسن آئینی حیثیت کے مقدمے میں سپریم کورٹ کے خصوصی معاون ہیں۔ اعتزاز احسن نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ گلگت بلتستان کے عوام کو حقوق دلانے میں بھرپور تعاون کریں گے۔ اسلام ٹائمز نے جب گلگت بلتستان بار کونسل کے وائس چیئرمین جاوید احمد ایڈووکیٹ (جو کہ آئینی مقدمے میں گلگت بلتستان کی نمائندگی کررہے ہیں) سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ماضی کے مقابلے میں گلگت بلتستان کا کیس اس وقت بہت مضبوط ہے کیونکہ تمام اداروں کے ساتھ خود عدالت بھی تمام حقائق سے باخبر ہو چکی ہے۔ خود سپریم کورٹ کا پہلے ہی واضح فیصلہ موجود ہے اور چیف جسٹس نے یہ واضح کردیا ہے کہ عدالت اب کسی کیس کو التواء میں نہیں ڈال سکتی۔ سپریم کورٹ خود فیصلہ دے چکی ہے صرف اس پر عملدرآمد کی بات ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرانا ہے اور اس کیس کا فوری فیصلہ دینا ہے اس بارے میں دیکھیں گے کہ وفاق کو کیا کرنا ہے اور عدالت کیا کرسکتی ہے۔ سپریم کورٹ کے 1999ء کے فیصلے میں یہ واضح کر دیا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام کو پاکستان کے شہریوں کے برابرحقوق دیئے جائیں اور ہدایت کی گئی ہے کہ اگر آئین میں ترمیم کی ضرورت پیش آئے تو وہ بھی کی جائے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ عدالت میں گلگت بلتستان کا کیس کس حد تک مضبوط ہے تو جاوید احمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ سب سے زیادہ اور واضح چیز خود سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے، دوسری طرف ہم نے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کو بھی کیس کا حصہ بنا دیا ہے اور یہ سفارشات وزارت خارجہ نے تیار کی ہیں، ان کو تیار کرنے میں وزارت خارجہ کے حکام کے ساتھ عسکری حکام اور اہم اداروں کے عہدیداران شامل تھے۔ اس طرح یہ سفارشات خود پاکستان کے مقتدر حلقوں نے تیار کی ہیں، ان سفارشات میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان کو باقاعدہ عبوری آئینی صوبہ بنایا جائے۔ سفارشات میں تمام آئینی اداروں بشمول قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ جاوید احمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ جب پاکستان کے مقتدر حلقے خود یہ چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دیئے جائیں تو کیا چیز رکاوٹ ہے؟۔ بنیادی حقوق اور عدالت میں اپنے مطالبات کے سوال پرجاوید احمد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ وہی ہے جو گلگت بلتستان کے عوام ستر سالوں سے کرتے آ رہے ہیں، صرف ہم نے اپنی پٹیشنز میں ایک چیز کا اضافہ کیا ہے کہ 1999ء کے تاریخی فیصلے کی روشنی میں عبوری آئینی صوبہ،تمام آئینی اداروں میں نمائندگی کے ساتھ سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی اختیار سماعت کو گلگت بلتستان تک توسیع دینے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے لئے سپریم کورٹ کا گلگت بلتستان میں خصوصی سرکٹ بینچ قائم کرکے گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک خصوصی عبوری یونٹ کے طور پر قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔

واضح رہے کہ اس آئینی مقدمے کی سماعت 25ستمبر کو مقرر ہے، اس سماعت میں اہم پیشرفت ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت پر مکمل غور کے لئے اعلٰی ترین سطح پر سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔ کمیٹی میں اہم ترین قومی اداروں بشمول وزارت خارجہ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے حکام شامل تھے، اس کمیٹی نے اپنی سفارشات میں گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کے حل تک عبوری آئینی صوبہ بنانے اورجی بی کو پارلیمنٹ سمیت تمام آئینی اداروں میں نمائندگی کی سفارش کی تھی تاہم نوازشریف کی نااہلی کے بعد بیرسٹر ظفراللہ کی سربراہی میں ایک اور کمیٹی بنی، جس نے سابقہ کمیٹی کی سفارشات کے برعکس گورننس آرڈر میں چند ترامیم پر اکتفا کیا اور اختیارات کا منبع وزیراعظم کو بنا دیا گیا۔ بیرسٹر ظفراللہ والی کمیٹی کی سفارشات میں وزیراعلٰی حفیظ الرحمٰن کی خواہشات کے مطابق کئی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں۔ عدالتی اصلاحات کے حوالے سے کئی سفارشات کو راتوں رات تبدیل کر دیا گیا تھا اورگلگت بلتستان آرڈر 2018ء کے نام سے لاگو کر دیا گیا، جس کے خلاف پورے گلگت بلتستان میں ہڑتال اور مظاہرے ہوئے تھے۔

موجودہ صورتحال اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیر سماعت مقدمے اور اس کے نتیجے میں متوقع نتائج کو سامنے رکھا جائے تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ گلگت بلتستان کے اہم ترین کیس کا فیصلہ بہت جلد آئے گا، موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار خود گلگت بلتستان جا کر زمینی حقائق کا مشاہدہ کرچکے ہیں، اور امید ظاہر کی جارہی ہے کہ آئینی پٹیشن کا فیصلہ اکتوبر میں متوقع ہے کیونکہ رواں سال کے آخر میں موجودہ چیف جسٹس کی مدت ملازمت پوری ہونے والی ہے، چیف جسٹس اس سے پہلے کئی فورم پر اس گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے بارے میں کھل کر اظہار کرچکے ہیں کہ اس خطے کے عوام کو حقوق دینا ضروری ہے، گذشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان سے زیادہ پاکستانی ہیں وہاں کے پہاڑوں پر بھی پاکستان کے جھنڈے بنے ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے وکلاء کی جانب سے لڑی جانے والی قانونی جنگ انتہائی اہمیت اختیار کرگئی ہے، سپریم کورٹ اگر اپنے ہی فیصلے پر عملدرآمد کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرتی ہے تو یہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پاکستان کی تاریخ میں اہم موڑ ثابت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 750052
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

شمیم
Pakistan
اسٹیبلشمنٹ خود اپنی سفارشات پر عمل کرنے سے انکاری ہے, پاکستان میں ہر کام ڈنڈے سے چلتا ہے, جب تک سپریم کورٹ کا ڈنڈا نہ پڑے تب تک کوئی بھی پیشرفت ممکن نہیں۔
چیف جسٹس چونکہ گلگت بلتستان میں 6 روز تک بیٹھے ہیں، اس دوران انہوں نے عوام کی بے پناہ محبت کا خود مشاہدہ کیا ہے.... لیکن اسٹیبلشمنٹ کی یکطرفہ پالیسی کی وجہ سے گلگت بلتستان کی نوجوان نسل کا پاکستان کے بارے میں رویہ تبدیل ہو رہا ہے.... ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے.
ہماری پیشکش