0
Saturday 15 Sep 2018 19:19

عراق اور شام میں امریکی سازشوں کی ناکامی

عراق اور شام میں امریکی سازشوں کی ناکامی
تحریر: امین حطیط

امریکہ نے عراق اور شام میں اسٹریٹجک شکست سے بچنے کیلئے ایک جامع سازش تیار کر رکھی تھی جس کی کامیابی اسے شکست کے نقصانات سے بچا سکتی تھی۔ یہ سازش عراق میں اپنی مرضی کی نئی حکومت برسراقتدار لانے اور شام میں حکومت کو صوبہ ادلب میں دہشت گرد عناصر کے خلاف فوجی آپریشن انجام دینے سے باز رکھنے پر مشتمل تھی۔ امریکہ نہیں چاہتا شام میں دہشت گرد عناصر کا مکمل خاتمہ ہو جائے کیونکہ اس صورت میں یہ ملک بحران سے باہر آ جائے گا اور وہاں سیاسی استحکام پیدا ہو جائے گا اور اس طرح امریکہ اور ترکی سمیت شام حکومت کی اجازت کے بغیر دہشت گردی سے مقابلے کا بہانہ بنا کر آنے والی قوتیں شام سے نکلنے پر مجبور ہو جائیں گی۔ امریکہ نے اپنی پوری توجہ شام اور عراق پر مرکوز کر رکھی ہے کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ ان دو ممالک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا کر اسلامی مزاحمتی بلاک کا ایکدوسرے سے رابطہ منقطع کر سکتا ہے۔
 
عراق میں امریکی سازش آئندہ حکومت کی تشکیل سازی پر اثرانداز ہونا ہے۔ امریکہ کو عراق میں اپنی مرضی کی حکومت تشکیل دینے کیلئے کم از کم 165 اراکین پارلیمنٹ کی حمایت کی ضرورت ہے۔ عراقی پارلیمنٹ میں اکثریت پر مبنی پارلیمانی گروہ تشکیل دینے کیلئے کم از کم پانچ جماعتوں کا متحد ہونا ضروری ہے۔ دوسری طرف امریکہ نے عراق سے متعلق امور کیلئے خصوصی نمائندہ بھی مقرر کر رکھا ہے جس کا اصل مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک کا مخالف اکثریتی پارلیمانی گروہ تشکیل دینا ہے۔ امریکہ عراق میں ایسی حکومت دیکھنا چاہتا ہے جس کا جھکاو سعودی عرب اور مغربی ممالک کی طرف ہو تاکہ عراق اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر نظرثانی کا زمینہ فراہم ہو سکے اور عراق میں امریکی اثرورسوخ بھی بڑھایا جا سکے۔
 
امریکہ نے عراق میں اپنے خصوصی نمائندے بریٹ میک گورک کو یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ تین کام انجام دے۔ ایک یہ کہ پارلیمنٹ میں موجود مختلف جماعتوں کے سربراہان کو اعتماد میں لے کر ان کی حمایت حاصل کرے۔ دوسرا یہ کہ مختلف جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کی حمایت حاصل کرے اور انہیں حشد الشعبی سے اتحاد تشکیل دینے سے باز رکھے۔ عراق کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی کو تیسرا کام یہ سونپا گیا ہے کہ وہ عراقی عوام میں ایران کے خلاف زہریلا پراپیگنڈہ شروع کرے اور انہیں اپنے بقول عراق میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے خلاف اکسائے۔ بصرہ میں ایرانی قونصل خانے اور حشد الشعبی کے مراکز پر حملہ اور توڑ پھوڑ اسی سازش کا حصہ تھی۔ اس حملے سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ عراقیوں میں ایران کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور وہ اپنے ملک میں ایرانی اثرورسوخ قبول نہیں کرتے۔
 
اب تک امریکہ کی یہ سازش مکمل ناکامی کا شکار رہی ہے۔ عراق میں ایک ایسی حکومت تشکیل پانے جا رہی ہے جو عراق کی خودمختاری، حق خود ارادیت اور قدرتی اور اسٹریٹجک ذخائر کی حفاظت کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف شام میں بھی امریکی منصوبے ناکام ہو چکے ہیں۔ صوبہ ادلب میں شام اور روس کے جنگی طیاروں نے پہلے مرحلے پر دہشت گرد عناصر کے ٹھکانوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ اس وقت شام میں امریکہ کے 9 ہزار سے زائد فوجی اور 13 فوجی اڈے موجود ہیں۔ یہ امریکی فوجی شام حکومت کی اجازت کے بغیر اس ملک میں موجود ہیں لہذا شام حکومت اب تک کئی بار ان کی موجودگی کو غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دے چکی ہے۔
 
امریکہ نے صوبہ ادلب میں شام آرمی اور اس کی اتحادی قوتوں کا آپریشن روکنے کیلئے کئی ہتھکنڈے استعمال کئے ہیں۔ سب سے پہلے اس نے شام کو ادلب میں ہر قسم کا فوجی آپریشن شروع کرنے پر فوجی حملے کی دھمکی دی ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے فوجی مشقیں منعقد کیں اور اعلان کیا ہے کہ شام پر حملے کیلئے اس کے 220 ٹوموہاک میزائل تیار ہیں۔ تیسرے مرحلے پر امریکہ نے شام، عراق اور اردن کی سرحد پر واقع اپنے فوجی اڈے التنف میں بھی مشقیں منعقد کیں۔ اسی طرح وائٹ ہاوس سے ایسی خبریں لیک کی گئیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ شام میں روسی افواج کو نشانہ بنانے کا پکا ارادہ رکھتے ہیں۔
 
امریکہ کے یہ ہتھکنڈے بھی ناکام رہے ہیں۔ شام حکومت نے دہشت گرد عناصر سے جنگ بندی اور مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا دی ہے اور اس وقت روسی اور شامی ایئرفورس بھرپور انداز میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ روس نے امریکی دھمکیوں کا جواب دینے کیلئے بحیرہ قلزم میں بہت بڑی جنگی مشقیں انجام دیں جو گذشتہ چالیس برس میں سب سے بڑی مشقیں قرار دی جا رہی ہیں۔ اسی طرح سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ کبھی بھی روس سے ٹکر لینے کا خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ خود امریکی حکومت میں موجود افراد اس حقیقت کا اعتراف کر چکے ہیں کہ روس سے ٹکر لینا امریکی مفادات کے خلاف ہے۔ لہذا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ مکمل طور پر بے بس ہو چکا ہے اور اسے بہت جلد مغربی ایشیا سے اپنی بساط لپیٹنا ہو گی۔
خبر کا کوڈ : 750198
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش