0
Saturday 15 Sep 2018 21:25

ادلب اور امریکہ کا واویلا

ادلب اور امریکہ کا واویلا
تحریر: ناصر رینگچن

شام اور عراق میں جیسے جیسے داعش اور ان جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کو شکست ہو رہی ہے، ان کی پشت پناہی کرنے والے ممالک میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت عالمی میڈیا پر شام کے شہر ادلب کے حوالے سے ہر روز کوئی نہ کوئی نئی خبر سامنے آرہی ہے اور سب سے زیادہ واویلا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے سامنے آرہا ہے۔ شامی شہر ادلب کو دہشت گردوں کا مرکز سمجھا جاتا ہے، جو 2011ء سے ہی دہشت گردوں کی مضبوط پناہ گاہ کے طور پر سامنے رہا ہے۔ یہاں پر مختلف دہشتگرد تنظیموں کا کنٹرول رہا ہے اور اس وقت یہ شہر احرار الشام نامی القاعدہ سے مربوط دہشتگرد تنظیم کا گڑھ ہے۔ ادلب وہ شہر ہے جہاں سے شامی حکومت کے خلاف مظاہروں کا آغاز ہوا اور آج بھی شام میں ادلب کو دہشتگردوں کی آخری پناہ گاہ تصور کیا جاتا ہے۔

شامی حکومت اپنے اتحادیوں روس، ایران اور حزب اللہ کے ساتھ مل کر ادلب سے دہشتگردوں کا صفایا کرنا چاہتی ہے، جس کے لئے حکومتی تیاریاں جاری ہیں۔ جب سے اسد حکومت نے ادلب آپریشن کا اعلان کیا ہے، امریکہ، اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں، امریکی صدر دونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ بشار الاسد کو ادلب پر حملہ نہیں کرنا چاہیے، روسی اور ایرانیوں کو انسانی اور تاریخی غلطی کا سامنا کرنا ہوگا، سینکڑوں، ہزاروں لوگ مارے جائینگے اور ہم ایسا ہونے نہیں دینگے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شامی حکومت چاہتی ہے کہ وہاں محصور شہریوں کو دہشتگردوں کی چنگل سے آزاد کرایا اور وہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو تباہ کیا جائے۔ دہشتگردوں کے حوالے سے ہم سب جانتے ہیں کہ وہ بچے، خواتین، جوانوں سب کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتے ہیں اور کسی پر کسی بھی قسم کا کوئی رحم نہیں کھاتے۔

یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہاں دہشتگرد ہیں تو امریکہ کو کیوں مشکل ہو رہی ہے؟ تو جواب یہ ہے کہ امریکی مشکلات کے بہت سے پہلو ہیں، ان میں سے کچھ یہ ہے کہ:
1۔ امریکہ نہیں چاہتا شام سے دہشتگردوں کا خاتمہ ہو، کیونکہ دہشتگرد خود امریکہ کی پیداوار ہیں اور جس جس ملک میں امریکہ نے دہشتگردی کے خلاف جنگ کی ہے، اُن ملکوں میں امن کے بجائے تشدد اور دہشتگردی میں اضافہ ہوا ہے اور دیشتگرد پہلے سے زیادہ طاقتور اور بھیانک ہو کر اُبھرے ہیں، افغانستان اور عراق کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں، جہاں پر امریکیوں کے آنے کے بعد داعش جیسے تکفیری وجود میں آئے۔
2۔ امریکہ کا دوسرے ملکوں پر حملہ کرنے اور ان کے قدرتی ذخائر پر قبضہ کرنے کا بہترین بہانہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا جھوٹا دعویٰ ہے۔
3۔ دہشتگردی کا اگر خاتمہ ہو جائے تو غاصب امریکیوں کو دوسرے ملکوں میں بیٹھنے کا موقع نہیں ملے گا، یعنی دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خلاف جنگ دوسرے ملکوں میں ناجائز قبضے جمائے رکھنے کا ذریعہ ہے۔

4۔ امریکی اقتصاد کا ایک ستون اسلحہ کی فروخت پر قائم ہے، امریکہ، کینڈا اور دوسرے مغربی ممالک جو اپنے آپ کو انسانی حقوق اور عالمی تحفظ کا علمبردار مانتے ہیں، دنیا میں جنگ، بدامنی اور غربت کے پیچھے انہی قوتوں کا ہاتھ ہے، یہی ممالک ہیں جو میڈیا پر جمہوریت اور انسانی حقوق کی بتاتیں کرتے ہیں اور پس پشت کمزور ممالک میں خانہ جنگی اور دہشتگردوں کی پرورش، منشیات اور اسلحہ کی خرید و فروخت کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔ جس دن دنیا میں امن ہوگیا، ان کے بنائے ہوئے اسلحے کسی کام کے نہیں رہنگے۔
5۔ امریکہ نہیں چاہتا کہ کوئی ملک سر اٹھا کر جیئے، وہ چاہتا ہے کہ ہر ملک اس کا محتاج بنا رہے۔
6۔ مشرق وسطیٰ کے قددرتی ذخائر پر قبضہ۔
7۔ مشرق وسطیٰ میں امریکیوں کے رہنے کی ایک سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے ناجائز وجود کی دفاع کرسکیں۔۔۔۔


لذا امریکیوں کا شور مچانا بے جا نہیں، وہ اقوام متحدہ کے ذریعے بھی شامی حکومت پر دباو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایک نیوز رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے خبردار کیا ہے کہ شام کے شمال مغربی علاقے ادلب میں فوجی کارروائی کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔ ان کا کہنا ہے کہ ادلب میں وسیع فوجی آپریشن بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کے ضیاع اور خون خرابے کا موجب بن سکتا ہے۔ دوسری طرف روس کی طرف سے بھی امریکہ کو خبردار کیا جا رہا ہے کہ وہ دہشتگردوں کی مالی و تسلیحاتی کمک روک دے اور خطے کو مزید خون خرابے کی طرف نہ لے جائے۔ امریکہ شام میں موجود فلاحی تنظیم وائٹ ہیلمیٹ اور دیگر این جی اوز کے ذریعے دہشتگردوں کی مدد کر رہا ہے، بلکہ کچھ میڈیا رپورٹس میں امریکی تیار کردہ ڈرامہ "اسد حکومت کی طرف سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال" کا بھانڈا پھوڑ دیا گیا۔ ادلب میں دہشت گردوں نے ابھی سے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی شوٹنگ شروع کر دی ہے، جس کی صداقت صرف کیمرہ کی حد تک ہے، اس مقصد کے لئے انہوں نے شام کے مختلف علاقوں سے سینکڑوں بچوں کو بھی اغواء کیا۔ اس سے پہلے بھی شام میں کیمائی اسلحہ کے استعمال کا ڈرامہ رچایا جا چکا ہے، جس میں پہلے سے تیار کردہ فیک اور جعلی تصاویر اور ویڈیوز کو پبلک کیا گیا تھا اور بعد میں اس کی حقیقت بھی سامنے آگئی تھی۔

ہمیں ان حالات میں امریکہ اور نیٹو کا منافقانہ اور مکارانہ چہرہ بھی نظر آرہا ہے، دیکھیں ۹/۱۱ کے واقعہ کے بعد جس القاعدہ کو دنیا بھر میں دہشت گرد بنا کر افغانستان پر حملہ کیا گیا، آج اسی القاعدہ کے دہشت گردوں کو بچانے کے لئے شام میں سر توڑ کوششیں کی جا رہی ہیں۔ امریکی خود اعتراف کرتے ہیں کی شام کا شہر ادلب القاعدہ کی پناہ گاہ ہے۔ ٹرمپ کے خصوصی صدارتی سفیر برٹ میک گروک کا کہنا تھا کہ "۹/۱۱ کے بعد القاعدہ کا سب سے بڑا پناہ گاہ شامی شہر ادلب ہے۔" اسی طرح وہاں موجود دہشگردوں نے بھی کئی دفعہ اس بات کا اقرار کیا ہے کہ امریکہ و نیٹو ہماری طرف ہیں اور ہمیں تیسری پارٹی کے ذریعے اسلحہ و دیگر ضروریات کی چیزیں مہیا کرتے ہیں۔

لہذا امریکی جانب سے ادلب میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا شور شرابہ بالکل ویسے ہی ہے، جیسے عراق پر حملے کے وقت کیا گیا تھا اور ہوسکتا ہے کہ یہ واویلا بھی کسی بڑے سانحے کے لئے زمینہ سازی ہو۔ لہذا ہمیں بیداری اور ہوشیاری کے ساتھ دشمنوں کے حربوں اور سازشوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ہمارے معاشرے کے اکثر افراد و نوجوان عالمی حالات اور ورلڈ پولیٹکس سے بے خبر ہیں اور ساری چیزوں کو ظاہری اور جذباتی طور پر لیتے ہیں، خصوصاً سوشل میڈیا استعمال کرنے والے اس طرح کی خبروں کا فوری شکار بن جاتے ہیں، وہ اصل اور جعلی خبروں کی تمیز نہیں کر پاتے۔ ایسے حالات میں ہم صرف سوشل میڈیا پر ہی نہیں بلکہ جب بھی، جہاں بھی کوئی حادثہ رونما ہو تو پہلے اس کے حقیقت کی تصدیق اور پھر اقدام کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جانے انجانے میں دشمنوں کی سازشوں کا حصہ بن جائیں۔
خبر کا کوڈ : 750251
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش