0
Wednesday 19 Sep 2018 19:13

ذبح عظیم کے مصداق، حضرت امام حسین علیہ السلام

ذبح عظیم کے مصداق، حضرت امام حسین علیہ السلام
تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان


قرآن مجید فرقانِ حمید میں خالقِ کائنات نے اپنے پیارے نبی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام (جو خود بھی نبی تھے) کے احوال میں ان پر خواب کی شکل میں نازل ہونے والی وحی اور اس کے نتیجے میں کی جانے والی قربانی کا ذکر کافی تفصیل سے فرمایا ہے۔ جہاں باپ بیٹے کی اللہ کے حکم پر اطاعت کا بیان ہے، وہاں دونوں انبیاء کے صبر و حوصلے اور استقامت کا تذکرہ بھی موجود ہے، جبکہ اس تمام واقعہ کا نتیجہ جس طرف موڑا گیا ہے اسے "وفدیناہ بذبح عظیم" کا نام دیا گیا۔ گرچہ عالم اسلام کے مختلف مفسرین نے اس کی تفسیر و تشریح اپنے علوم اور دلائل سے کی ہے، بالخصوص 61ھ میں واقعہ کربلا کے بعد ان تفاسیر و تشریحات میں مزید جدت اور تحقیق سامنے آئی ہے، لیکن ہم ان تفاصیل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے سادہ اور عام فہم انداز میں اپنے مخاطبین تک ذبح عظیم کی قرآنی مراد اور مصداق پہنچانے کی سعی کرتے ہیں۔

یہ بات عین حقیقت ہے کہ حضرت اسماعیل کی قربانی کو قرآن میں فقط ’’ذبح‘‘ کہا گیا ہے، لیکن جب ان کی جگہ پر مینڈھے یا دنبے کی قربانی ہوگئی تو اسے ’’ذبحِ عظیم‘‘ کے الفاظ سے یاد کیا گیا۔ یقیناً ایسا نہیں ہوسکتا کہ نبی کی قربانی محض ذبح ہونے کی حد تک ہو اور جانور کی قربانی ذبح عظیم قرار پائے۔ اس کا مطلب ہے کہ ذبح عظیم لازمی طور پر نبی کی قربانی سے کہیں آگے کی منزلت ہے۔ قطع نظر اس کے کہ نبی اور غیر نبی کی قربانی کا تقابل کیا جائے، لیکن عالمِ اسلام اس بات پر متفق ہے کہ جس بڑی قربانی کا اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے اس سے یقینی مراد حضرت امام حسین (ع) کی ذات ہے۔ آپ اس نبی کے فرزند ہیں، جو سردارِ انبیاء اور خاتم النبیین ہیں، اس نسبت سے آپ کا مقام بلندی کی انتہا پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس ابراہیمی نسبت بھی موجود ہے، جس کے تحت آپ کی قربانی ابراہیم و اسماعیل کی قربانی شمار ہوتی ہے۔

یہ بھی سچ ہے کہ حضرت ابراہیم و اسماعیل کو فقط صبر سے آزمایا گیا اور صبر کی بنیاد پر انہیں الہیٰ انعام سے نوازا گیا اور اسی صبر کی وجہ سے اللہ نے اسماعیل کی جگہ ایک جانور کی قربانی دے کر نبی کو محفوظ رکھا، جبکہ امام حسین ؑ کو فقط صبر سے نہیں آزمایا گیا بلکہ حقیقت میں شہادت سے سرفراز کرکے قربانی کے اصلی فلسفے اور حقیقت کو آشکار کیا گیا۔ کربلا میں امام حسین (ع) کی جگہ کسی جانور کو قربانی کے لئے منتخب نہیں کیا گیا بلکہ خود امام حسین (ع) کی ذات اپنے جملہ اقرباء و انصاران کے ساتھ قربانی کے لئے پیش ہوئی اور بالآخر ریگزار کربلا میں چھ ماہ کے صغیر سے لے کر اسّی سالہ ضعیف تک اور ایک غیر مسلم مسیحی سے لے کر فرزندِ رسول تک سب نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ نبی (ص) امام (ع) کی حیثیت سے قطع نظر کئی مقامات، کئی معاملات، کئی نسبتوں اور کئی مناصب سے حضرت امام حسین (ع) کو حضرت اسماعیل سے فوقیت حاصل ہے۔ لہذا کسی لحاظ سے نہیں کہا جاسکتا کہ ذبح عظیم کا مصداق حضرت اسماعیل یا حضرت اسحاق ہیں بلکہ حقیقت کی دنیا میں دیکھا جائے تو حضرت اسماعیل (ع) کے واقعہ سے لے کر خاتم الانبیاء کی تشریف آوری تک اور اس کے بعد واقعہ کربلا تک کسی مرحلے اور کسی دور میں ایسا کوئی واقعہ رونما نہیں ہوا، جسے ذبح عظیم کہا گیا ہو یا مراد لی گئی ہو۔

حضرت اسماعیل (ع) کی قربانی نہ ہونے کی صورت میں جو فدیہ بقایا رکھا گیا تھا، وہ دس محرم کو میدان کربلا میں امام حسین (ع) کی قربانی کی صورت ادا کر دیا گیا، اسے بھی ابراہیم کی قربانی قرار دے کر اسی تسلسل میں دیکھا جانا چاہیے، چونکہ امام حسین (ع) کی ذات ہر لحاظ سے پیغمبر اکرم (ص) کی ذات کا حصہ ہے، اس لئے ان کی قربانی کو نبی اکرم (ص) کی قربانی سے الگ اور جدا نہیں کیا جا سکتا۔ حسین (ع) کی سیرت و کردار بھی نبی (ع) کے سیرت و کردار کا تسلسل ہے، اس لئے اس قربانی کو ذبح عظیم ہی کہا جائے گا، کیونکہ کائنات میں اس قربانی کے مقابل کوئی نظیر نہیں ملتی، نہ اس سے پہلے ایسی عظیم قربانی دیکھی گئی ہے اور نہ اس کے بعد اس قدر و منزلت کی حامل قربانی سامنے آسکتی ہے۔ لہذا فرزند رسول اکرم (ص) کی قربانی ہی ذبح عظیم کہلائے گی۔ اسی حقیقت کو شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال نے اپنے اشعار میں بیان نہایت دلائل اور خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال نے پہلے امام حسین (ع) کی قربانی کے سفر کو ان کے خطبات و فرامین کے تناظر میں دیکھتے ہوئے کہا ہے کہ
مدعا ایش سلطنت بودے اگر
خود نہ کردے با چنیں ساماں سفر
تیغ بہر ِ عزتِ دین است و بس
مقصدِ او حفظ آئین است و بس
رمزِ قرآں از حسین ؑ آموختیم
آتشِ او شعلہ ہا اندوختیم
خونِ او تفسیر ایں اسرار کرد
ملتِ خوابیدہ را بیدار کرد

 
کہ اگر امام حسین ؑ کا مقصد فقط کسی حکومت یا اقتدار کا حصول ہوتا تو آپ کبھی اپنی خواتین اور خانوادے کو ساتھ نہ لے جاتے۔ ان کا مقصد صرف اور صرف دین کی عزت بحال کرانا اور انسانوں کو عدل و انصاف سے رہنے کا حق فراہم کرنے والے الہیٰ آئین کو نافذ کرنا تھا۔ ہم نے قرآنی رموز کو صرف حسین ؑ سے ہی سیکھا ہے، جس نے اس راز کو حقیقت میں تبدیل کیا کہ کسی سوئی ہوئی بلکہ مردہ ملت اور قوم کو اپنے خون سے کس طرح بیدار کیا جاتا ہے۔ شاعر مشرق کربلا اور امام حسین ؑ کے حوالے سے مزید حقائق بیانی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
بر زمینِ کربلا بارید و رفت
لالہ در ویرانہ ہا کارید و رفت
تاقیامت قطع استبداد کرد
موجِ خونِ او چمن ایجاد کرد

 
یعنی وہ انسان کربلا کی زمین پر بظاہر آیا اور چلا گیا، لیکن ایک صحرا اور ویرانے میں پھولوں کی کاشت و آبیاری کرکے چلا گیا، اس سے مراد اگلے ہی شعر میں واضح ہو جاتی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ امام حسین ؑ کے خون نے قیامت تک ہر ظلم، ہر ستم، ہر جبر اور ہر غاصب حکمران کا راستہ روک دیا اور اپنے خون کی آبیاری کرکے ایک ایسا چمن تیار کر دیا ہے، جو صبحِ قیامت تک کھلکھلاتا اور لہلہاتا رہے گا اور انسانیت اس چمن سے فیض پاتی رہے گی۔ مصورِ پاکستان نے اس آخری شعر میں ہمارے موضوع کے مطابق بات کرکے ساری بات ہی ختم کردی ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ 
اللہ اللہ بائے بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر

 
پہلے مصرعے میں وہ امام حسین ؑ کے والد گرامی اور نائب رسول ؐ حضرت علی علیہ السلام کی فضیلت کی انتہاء کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جو قرآنی رموز اور قرآنی مصادیق کا سب سے بڑا خزانہ ہیں اور پھر اسی تسلسل میں ان کے فرزند ارجمند حضرت امام حسین ؑ بھی قرآن کو اس وعدے اور دعوے کا مصداق ہیں، جو حضرت ابراہیم و اسماعیل کے واقعہ میں ذبح عظیم کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ کربلا ذبح عظیم کا مظہر ہے اور امام حسین ؑ ذبح عظیم کا حقیقی اور واحد مصداق ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ذبح عظیم کے مقاصد کو سمجھ کر اپنے مقاصد کے تعین کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
خبر کا کوڈ : 751044
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش