0
Thursday 20 Sep 2018 18:36

مقبوضہ کشمیر، محرم جلوسوں پر پابندی بدستور جاری

مقبوضہ کشمیر، محرم جلوسوں پر پابندی بدستور جاری
رپورٹ: جے اے رضوی

جدید دنیا میں جہاں سیاسی، سماجی و نظریاتی سطح پر اختلافات سے بالاتر ہوکر مذہبی آزادی کو مسلّم مان کر اس کے فروغ کی وکالت کی جارہی ہے وہیں مقبوضہ کشمیر میں اس حوالے سے اندھیر نگری کا وہ عالم بدستور موجود ہے، جو چند دہائیوں قبل یہاں شروع ہوا ہے اور ہر بار بھارتی جابر فورسز محرم الحرام کے مرکزی جلوسوں پر پابندی اور عزاداروں پر آنسو گیس اور لاٹھی چارج جاری رکھتی ہے۔ ماہ محرم الحرام شروع ہوتے ہی یہ عندیہ دیا جانے لگا تھا کہ بھارت نواز کٹھ پتلی حکومت عزاداری کے جلوس نکالنے کے متعلق مثبت انداز سے سوچ رہی ہے اور یہ اُمید پیدا ہوچکی تھی کہ معاملے کا کوئی نہ کوئی حل ضرور نکالا جائیگا۔ کل 8 محرم الحرام شہر سرینگر کے  نو تھانوں کی حدود میں آنے والے علاقوں اور خاص کر سول لائنز میں کہ جہاں روایتی طور پر 8 محرم الحرام کا جلوس عزاء برآمد ہوتا ہے، جس طرح سے قدغنیں عائد کی گئیں، عزاداروں پر دن بھر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کے گولے داغے گئے اور دسیوں عزاداروں کو دن بھر مختلف پولسی تھانوں میں مقید رکھا گیا۔ عزاداروں کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا وہ کسی بھی منصفانہ اور جمہوری نظام کا حصہ نہیں ہوسکتا۔ اس طرح سے مقبوضہ کشمیر میں قابض حکومت کی جانب سے مذہبی آزادی کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جلوس عزاء کو روکنے کے لئے جس انداز سے عزاداروں پر لاٹھیوں اور ٹیر گیس شیلوں کا استعمال کیا گیا وہ دنیا کے کسی بھی  قانون میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ آج بھارت بھر میں خواتین کے حقوق پر طول طویل مباحثے ہو رہے ہیں، خاص کر مسلم خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے بھارتی پارلیمنٹ سے لیکر بھارتی عدالت عظمٰی تک مختلف بیانیے پیش ہورہے ہیں لیکن کل جلوس عزاء میں شامل خواتین پر جس انداز سے لاٹھیاں برسائی گئیں، اُسے اگر وحشیانہ نہ گردانا جائے تو اسے کیا نام دیا جائے۔

مقبوضہ کشمیر میں سرینگر کے گورو بازار سے لیکر ڈلگیٹ تک 8 محرم الحرام کے ماتمی جلوس پر 1989ء میں عائد کی گئی۔ پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے کٹھ پتلی حکومت نے سول لائنز کے نو پولیس تھانوں کے تحت آنے والے علاقوں میں دفعہ 144 کے تحت سخت ترین حکم امتناعی نافذ کیا۔ تجارتی مرکز لالچوک کو چاروں اطراف سے سیل کر دیا گیا، جگہ جگہ پر ناکہ بندی کی گئی اور درجنوں راستوں کو مسدود کر کے رکھ دیا گیا جبکہ ضلع سرینگر میں تمام حکومتی اور غیر حکومتی تعلیمی اداروں کو مقفل کر رکھا گیا۔ اس دوران کئی جگہوں سے عزاداروں نے ماتمی جلوس نکالنے کی کئی کوششیں کیں، جنہیں پولیس نے ناکام بناتے ہوئے درجنوں عزاداروں کو حراست میں لیا جبکہ کئی جگہوں پر پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس شلنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں متعدد عزادار مضروب ہوئے۔ اس طرح 8 محرم الحرام کے تاریخی ماتمی جلوس پر مسلسل 29ویں دفعہ قدغن لگا دی گئی۔

اس دوران عزاداروں کی جانب سے ماتمی جلوس نکالنے کی کئی کوششیں کی گئیں، جنہیں پولیس لاٹھی چارج اور آنسو گیس شلنگ سے ناکام بنایا دیا۔ اس سلسلے میں ملی تفصیلات کے مطابق جہانگیر چوک میں درجنوں عزادار نمودار ہوئے جنہوں نے ڈلگیٹ کی جانب پیش قدمی کرتے ہوئے ماتمی جلوس نکالا۔ پولیس نے فوری طور پر حرکت میں آتے ہوئے لاٹھی چارج کیا اور درجنوں عزاداروں کو احتیاطی طور پر حراست میں لیا۔ اس کے بعد مزید کئی کوششیں کی گئیں، جس دوران پولیس نے آنسو گیس شلنگ کی۔ ہزاروں کی تعداد میں حسینی عزاداروں نے وقفہ وقفہ سے ان جلوسوں میں شرکت کی اور نوحہ کرتے ہوئے جہانگیر چوک کی جانب بڑھے۔ پُرامن عزاداروں پر زبردست آنسو گیس شلنگ کی اور ان پر لاٹھی چارچ کیا، جس سے درجنوں لوگ شدید زخمی ہوئے اور سینکڑوں جوانوں کو گرفتار کرکے کاکہ سرائے، بٹہ مالو، کوٹھی باغ اور شہید گنج تھانوں میں پابند سلاسل کیا گیا۔ اس کے بعد دو سرے جلوس فائر سروس کراسنگ بٹہ مالو سے نکالے گئے جن میں بھی ہزاروں عزادار ماتم اور نوحہ کرتے ہوئے شامل ہوئے اور جہانگیر چوک کی طرف بڑھے لیکن پولیس نے یہاں پر بھی ظلم و جبر اور فسطائیت کا کھلا مظاہرہ کرتے ہوئے عزاداروں پر شدید تشدد کیا، جس سے درجنوں افرادد زخمی ہوئے جن میں کچھ نابالغ بچے بھی شامل ہیں۔

نماز ظہرین کے بعد جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کے جنرل سکریٹری سید مظفر رضوی کی قیادت میں جلوس عزاء مائسمہ سے برآمد ہوکر براستہ مولانا آزاد روڑ ڈلگیٹ کی جانب بڑھا لیکن یہ بھی پولیس کی بے تحاشا شیلنگ کا شکار ہوا اور سید مظفر رضوی کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس بربریت اس حد تک تھی کہ تھانوں میں مقید افراد کو گرفتاری کی حالت میں ہی شدید مار پیٹ کی گئی۔ زخمی افراد میں سے ایک درجن سے زائد کو صدر ہسپتال اور صورہ میڈیکل انسٹچوٹ میں داخل کیا گیا، جن میں سے بعض کی حالت تاحال خطرے میں ہے۔ اس دوران جموں و کشمری اتحاد المسلمین کے ترجمان نے 8 محرم کے جلوس پر بلاجواز پابندی اور پرامن عزاداروں پر پولیس کے ذریعے تشدد ڈھانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے مداخلت فی الدین سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں کہا ہے کہ جموں و کشمیر کی بھارت نواز انتظامیہ نے محرم کے متبرک ایام کے دوران عزاداروں کو سہولیات بہم پہنچانے کے بجائے عزاداری کے جلوس پر پابندی نافذ کرکے اور عزاداروں کو زد و کوب کرکے جس بدترین فعل کا ارتکاب کیا ہے وہ اس کی فرقہ پرست ذہنیت کی عکاسی کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے اتحاد المسلمین کی قیادت کو نظربند کرکے شاید یہ گمان کیا تھا کہ اس سے جلوس رک جائے گا مگر امام حسین (ع) کے عزاداروں نے تمام تر پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود جلوس نکال کر یہ ثابت کیا کہ شیعیان کشمیر حسینیت میں کسی بے جا مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتے اور امام حسین (ع) کی عزاداری کو محدود کرنے کی کسی بھی کوشش کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت امرناتھ یاترا کے لئے جموں سے گھپا تک سکیورٹی فراہم کرتی ہے اور اس کے لئے کروڑوں کا بجٹ مختص کیا جاتا ہے لیکن جب شیعہ مسلک کے مذہبی امور کی بات آتی ہے تو حکومت کو ٹریفک اور سکیورٹی کی فکر لاحق رہتی ہے۔


ادھر مقبوضہ کشمیر کے مختلف مکتب ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے عزاداری کے مرکزی جلوسوں پر پابندی کو مداخلت فی الدین قرار دیتے ہوئے اس سلسلے میں جاری کئے گئے حکومتی احکامات کی مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان پابندیوں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کٹھ پتلی حکومت کشمیریوں کے دینی جذبات کو بھی اب پاوں تلے کچلنے کے لئے کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دے رہی ہے۔ اس سلسلے میں مختلف دینی، سماجی اور سیاسی تنظیموں کے رہنماوں نے اپنے الگ الگ تحریری بیانات میں بتایا کہ 8 اور 10 محرم کے جلوسوں پر پابند عائد کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا کیونکہ ان عزاداری کے جلوسوں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے لیکن حکومت نے ان دونوں جلوسوں کی برآمدگی پر پابندی عائد کرکے دینی جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سرینگر میں محرم الحرام کے مرکزی جلوس عزاء پر پابندی کے خلاف جموں و کشمیر اتحاد المسلمین نے 2008ء میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا تاہم وہاں سے کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ 1989ء سے قبل جہاں 8 محرم کا ماتمی جلوس سرینگر کے گروبازار علاقے سے برآمد ہوکر مولانا آزاد روڑ کے راستے سے ہوکر حیدریہ ہال ڈلگیٹ پر اختتام پذیر ہوتا تھا، وہیں 10 محرم الحرام کا جلوس لالچوک کے آبی گذر علاقے سے برآمد ہوکر امام بارگاہ جڈی بل پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ بھارت نواز کٹھ پتلی انتظامیہ گذشتہ 29 برسوں سے 8 اور 10 محرم کو سرینگر کے سول لائنز علاقوں میں کرفیو جیسی پابندیاں نافذ کرکے ماتمی جلوس نکالنے کی کوششوں کو ناکام بناتی آئی ہے۔ اگرچہ سینکڑوں عزادار ہر سال کرفیو اور پابندیوں کے باوجود ماتمی جلوس نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تاہم قابض فورسز لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کرکے انہیں منتشر کرتی ہے۔ اس کے علاوہ عزاداروں کو جیلوں یا پولیس تھانوں میں قید رکھا جاتا ہے اور بعض شیعہ علماء کو محرم جلوس کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے انہیں اپنے گھروں میں نظربند رکھا جاتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 751109
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش