0
Thursday 20 Sep 2018 08:55

کربلا عالمِ انسانیت کی عظیم درسگاہ

کربلا عالمِ انسانیت کی عظیم درسگاہ
تحریر: طاہر یاسین طاہر

شہید ِ حق و صداقت ترے لہو کو سلام
اور اس لہو سے ترے آخری وضو کو سلام

انیس لکھنوی کے سلام کا شعر ہو یا میر انیس کے مرثیہ کا کوئی بند یا مصرعہ، سب امام عالی مقام علیہ السلام کی بارگاہ ذی وقار میں ہدیہ عقیدت ہیں۔ میر انیس، مرزا دبیر، ضمیر، نفیس، سمیت جدید عہد کے سینکڑوں شعراء ایسے ہیں جنھوں نے اپنے قلم و ذہن کو واقعہ کربلا کے لئے مختص کیا اور دین و دنیا میں نیک نام ہوئے۔ اگرچہ جدید عہد کے اردو شعراء میں اب مرثیہ لکھنے کا رواج نہیں رہا، اور سلام کہہ کر ہی شعراء کرام امام عالی مقام علیہ السلام سے اپنی عقیدت و مودت کا اظہار کرتے ہیں۔ اردو ادب کے شعرائے عالی کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو شعرائے کرام نے واقعہ کربلا کے حوالے سے درد ناک مناظر بیان کئے۔ بے شک ضرورت ہے کہ نئی نسل کو رثائی ادب کی تاریخ  اور اہمیت سے روشناس کرایا جائے، اللہ رب العزت نے توفیق دی تو یہ کام کسی مقالے کی شکل میں ضرور کروں گا۔ تمہید طولانی نہیں، مگر فکر کے سلسلے کو مربوط کرنے اور قاری کے ذہن کو راغب کرنے کے لئے لازم ہوتی ہے۔ کالم کاری کے فن میں ممکن ہے اسے زائد سمجھا جاتا ہو، لیکن میرا خیال یہی ہے کہ لازم ہے اور بہت سے دیگر صاحبان فن بھی یہی ضرور سمجھتے ہیں کہ مختصر تمہیدی گفتگو یا تحریر، سامع و قاری کو راغب کرنے میں مددگار ہوتی ہے۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا واقعہ کربلا نے میر انیس، مرزا دبیر، میر نفیس، میر خلیق، میر ضمیر، جوش ملیح آبادی، افتخار عارف اور جدید دور میں کراچی و اسلام آباد سے بالترتیب رباعی کے دو مستند نام فراست رضوی اور محمد نصیر زندہ سمیت صرف شعراء کرام ہی کو متاثر کیا؟ یا دیگر عام انسانوں پر بھی اس لازوال واقعہ کا اثر اسی طرح ہوا؟ میرا خیال ہے انسان جوں جوں عدل کی تلاش میں قدم بڑھاتا جائے گا اس کا ہر قدم سوئے کربلا اٹھے گا۔ اس میں مسلم و غیر مسلم اور شیعہ و سنی کی کوئی تفریق و تخصیص نہیں۔ امام حسین علیہ السلام کا فرمان کہ "مثلی لا یبایع مثلہ" مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا، اپنے اندر اس قدر بلاغت اور معانی کا جہان رکھتا ہے کہ صبح قیامت تک حق کے متلاشیوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ علمائے اسلام نے اس فرمانِ ذی شان کی کئی کئی صفحات پر مشتمل تفاسیر لکھی ہیں۔ اس امر میں کلام نہیں کہ یزید نے اسلامی تعلیمات کا مذاق اڑانا شروع کر دیا تھا۔ تاریخ ِ اسلام کا گہرا مطالعہ ہمیں اسلام پر ملوکیت کے شدید وار کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔

امام عالی مقام حضرت حسین علیہ السلام نے مکہ سے کربلا جاتے ہوئے ایک منزل پر فرزدق سے فرمایا، "ان لوگوں نے خدا کی اطاعت چھوڑ کر شیطان کی اطاعت اختیار کر لی ہے، فساد کا اظہار کرتے ہیں، حدودِ خدا کا خیال نہیں رکھتے، شراب پیتے ہیں اور مساکین کے اموال غصب کر چکے ہیں۔ اب دین، عزت و شرف کی مدد و نصرت اور کلمہ خدا کی سر بلندی کی خاطر جہاد فی سبیل اللہ کی سب سے بڑی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے۔ امام عالی مقام علیہ السلام نے ایک اور مقام پر فرمایا کہ "امام ہو نہیں سکتا مگر وہ جو کتاب ِ خدا کے مطابق حکم کرے، عدالت برپا کرے،دین ِ حق کا پابند ہو اور اپنے آپ کو ذاتِ حق کے لیے وقف کر دے"۔ عاشورہ کے دن جب آپ علیہ السلام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے،تو وہاں بھی آپ نے فرمایا" خدا کی قسم جو مجھ سے یہ چاہتے ہیں (یعنی یزید کی بیعت) وہ میں ہر گز قبول نہیں کروں گا، یہاں تک کہ خدا سے ملاقات کر لوں اس حال میں کہ میری داڑھی میرے خون سے رنگین ہو گی"۔ 

ایک نامور مصری عالم دین سید قطب لکھتے ہیں کہ "یزید کے سیاسی کارنامے، جیسے قتل ِ حسین ؑ، خانہ کعبہ کا محاصرہ، اس پر سنگ باری، خانہ کعبہ کی تخریب اور اسے جلانا اور واقعہ حرہ، سب شاہد ہیں کہ یزید کے بارے میں جو کچھ بھی کہا گیا ہے، اس میں ذرا بھر مبالغہ نہیں۔ یزید کی خلافت کے لئے نامزدگی، اسلام، اسلامی نظام اور اسلام کے اہداف و مقاصد پر بڑی کاری ضرب تھی"۔ امام غزالی لکھتے ہیں کہ "جو دھچکا اسلام کو بنی امیہ کے فتنوں سے لگا وہ اتنا زیادہ شدید تھا کہ اگر اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کو لگتا تو وہ مکمل نابود ہو جاتا اور اس کی بنیادیں تباہ ہو کر رہ جاتیں۔" حوالہ جات اور واقعہ کربلا پر تاریخی بحث کے لئے ہزاروں دفتر درکار ہیں۔ مختصر یہی کہ کل بھی انسانی وقار، شرف اور اسلام کی سربلندی کا معیار و منزل کربلا تھی، آج بھی عالم انسانیت کو وقار اور حریتِ فکر و عمل کے لئے کربلا ہی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔

امام حسین علیہ السلام اگر شہید نہ بھی ہوتے تو بھی ان کا یہی شرف کافی ہے کہ وہ رسول اللہ کے نواسے اور فاطمہ و علی علیہ السلام کے لخت جگر ہیں، جبکہ آپ علیہ السلام کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ آپ جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ آج کی دنیا بغیر کسی مسلکی و مذہبی عقیدے کے فکر ِ کربلا کا گہرا مطالعہ کرے تو دنیا کا ہر عدل پسند انسان اپنا سر کربلائے معلٰی کی طرف خم کر دے گا۔ ہمیں کل بھی کربلا کو سمجھنے کی ضرروت تھی ہمیں آج بھی کربلا کے اصل مقصد اور قیام امام حسین علیہ السلام کے اصلی اہداف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ یہی درس کربلا ہے، یہی منشائے خدا ہے۔ حسین علیہ السلام پر کسی خاص مذہب و مسلک کا اجارہ نہیں۔ دنیا کا ہر عدل پسند انسان حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی اور ظلم  و استبداد کے خلاف ڈٹ جانے کو سلام عقیدت پیش کرتا نظر آتا ہے۔ شعر کے بغیر چارہ نہیں۔۔۔۔
نکل کے روتا ہے دن، چھپ کے رات روتی ہے
 حسین ؑ  غم میں ترے کائنات روتی ہے
خبر کا کوڈ : 751144
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش