2
0
Friday 21 Sep 2018 10:54

حضرت امام حسین اور واقعہ کربلا غیر مسلم اہل قلم کی نظر میں

حضرت امام حسین اور واقعہ کربلا غیر مسلم اہل قلم  کی نظر میں
تحریر: ڈاکٹر جابر حسین
اسلام آباد


61 ہجری کو عراق کے کربلا/نینوا نامی صحرا میں حبیب خدا، رسولِ معظم حضرت محمد مصطفٰیِ (ص) کے نواسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان اور باوفا  72 ساتھیوں کی عظیم شہادت اسلام کی تاریخ کا بے مثال واقعہ و معرکہ ہے۔ اس پر ہر انصاف پسند اہلِ قلم اور آزاد فکر دانشور نے اظہارِ افسوس کیا ہے۔ مختلف مذاہب و نظریات کے حامل  اہلِ قلم و دانش نے اس واقعے سے اپنے لئے، اپنی تحریکوں اور اپنی اقوام کے لئے آزادی، حریتِ فکر، اصول پسندی، مذہبی بادشاہت اور استحصال پسندی کے خلاف انتہائی درجے کی مزاحمت اور سچائی کے لئے مال، جان اور ناموس کی لازوال قربانی دینے کا درس حاصل کیا ہے۔ اسلام کے کم و بیش تمام مسالک کے منصف مزاج اہلِ دانش و بینش کے نزدیک تو حضرت امام حسین کی مقدس ذات اور ان کے بے مثال گھرانے کی خاندانی و مذہبی عظمت و رفعت ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ غیر مسلم اہلِ قلم و دانش نے بھی امام حسین، ان کے اہل و عیال اور باوفا ساتھیوں کی میدان کربلا میں پیش کی گئی لازوال قربانی کو اپنے اپنے انداز میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں یہاں چند اہلِ قلم کے خیالات پیش کئے جاتے ہیں۔

معروف انگریز اہل قلم Charles John Huffam Dickens [1812-1870]اگر امام حسین کی جنگ مال و متاع اور اقتدار کے لئے تھی تو پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خواتین اور بچے ان کے ساتھ کیوں گئے تھے؟ بلا شبہ وہ ایک مقصد کے لئے کھڑے تھے اور ان کی قربانی خالصتاً اسلام کے لئے تھی۔ فارسی ادب کی تاریخ پر کتاب Literary History of Persia مصنف [1862-1926]Edward Granville Brown نے لکھا ہے کہ کربلا کا خون آلود میدان یاد دلاتا ہے کہ وہاں اللہ کے پیغمبر کا نواسہ اس حال میں شہید کیا گیا کہ بھوک اور پیاس کا عالم تھا اور اس کے ارد گرد لواحقین کی لاشیں بکھری پڑی تھیں۔ یہ بات گہرے جذبات اور دلدوز صدمے کا باعث ہے، جہاں درد، خطرہ اور موت تینوں چیزیں ایک ساتھ رونما ہو رہی ہیں۔ روس کے معروف ادیب اور دانشور ٹالسٹائی[Leo Tolstoy .1828-1910] امام حسین ان تمام انقلابیوں میں ممتاز ہیں، جو گمراہ حاکموں سے گڈ گورننس کا تقاضا کرتے تھے۔ اسی راہ میں انہیں شہادت حاصل ہوئی۔

لبنان کے عیسائی مصنف انتونی بارا[[Antoine Bara نے اپنی کتاب [Hussain in Christian Idealogy, 2008] میں نہیں مانتا کہ امام حسین صرف شیعوں یا صرف مسلمانوں کے امام ہیں، میرا ماننا ہے کہ وہ تمام عالم کے امام ہیں کیونکہ وہ تمام مذاہب کا ضمیر ہیں۔ برطانیہ کے [1819-1905]William Muir نے اپنی کتاب  Annals of the Early Caliphate,London,1883 میں لکھا ہے کہ کربلا کے حادثے نے تاریخِ محمد میں خلافت کے خاتمے کے بعد بھی اسلام کو انسانی ذہنوں میں زندہ رکھا ہے۔ واقعہ کربلا نے نہ صرف استبدادی خلافت کی تقدیر کا فیصلہ کر دیا بلکہ محمدی ریاست کے اصول و معیار بھی متعین کر دیئے، جو ابتدائی خلافتوں کے بعد کہیں کھو گئے تھے۔ فرانس کے ادیب  [1802-1885]Victor Maire Hugon امام حسین کے انقلابی اصول ہر اس حریت پسند کے لئے مشعل ِ راہ ہیں، جو کسی غاصب سے حقوق حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ چیسٹر کے ادیب Reynold Alleyne Nicholson[1868-1945] نے اپنی کتاب  Literary History of Arab میں لکھا ہے کہ جس طرح امام حسین کے ساتھی ان کے ارد گرد کٹ کر گر گئے اور آخرکار امام حسین بھی شہید ہوگئے، یہ بنو امیہ کا وہ تلخ کردار ہے، جس پر مسلمانوں کی تاریخ امام حسین کو شہید اور یزید کو ان کا قاتل قرار دیتی ہے۔

بھارت کے اولین صدر ڈاکٹر راجندر پرساد بیدی[۱۸۸۴-۱۹۶۳ء] نے کہا کہ امام حسین کی قربانی کسی ایک ریاست یا قوم تک محدود نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی عظیم میراث ہے۔ بنگال کے معروف ادیب رابندر ناتھ ٹیگور[۱۸۶۱ءتا۱۹۴۱ء] سچ اور انصاف کو زندہ رکھنے کے لئے فوجوں اور ہتھیاروں کی ضرورت نہیں، قربانیاں دے کر بھی فتح حاصل کی جا سکتی ہے، جیسے امام حسین نے کربلا میں قربانی دی۔ بلاشبہ امام حسین انسانیت کے لیڈر ہیں۔ چلی کے معروف اہل قلم رابرٹ بولانو [۱۹۵۳ءتا۲۰۰۳ء] امام حسین کو شہید کرنا بنو امیہ کی سب سے بڑی سیاسی غلطی تھی، جو ان کی ہر چیز کو نظر انداز کرنے پر مجبور کر گئی بلکہ ان کے نام و نشان اور ہر چیز پر پانی پھیر گئی۔ City Sikh Progressive Organization London دی کے بانی ممبر جسویر سنگھ کہتے ہیں کہ اس بات سے قطع نظر کہ ہم کس کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں، ہم امام حسین سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ خاص طور پر عزت اور وقار کے ساتھ جینے کا ڈھنگ۔ امام حسین عدل و انصاف کے لئے کھڑے ہوگئے تھے۔ انہوں نے جس بات کو حق سمجھا اس کے لئے اپنی جان بھی دے دی۔
خبر کا کوڈ : 751277
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

نورسیدحسن
Pakistan
امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں کرب و بلا کا امتحان دے کر اللّٰہ تعالی کے قول( وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿الصافات: ١٠٧﴾) پر میدان عمل میں عمل کرکے 61 سال بعد اس پیشن گوئی کو ثابت کیا۔
اور ہل من ناصر ینصرنا کی صدا یعنی ہے کوئی جو اللّٰہ کے دین کو بچانے میں میری مدد کرے۔ اس صدا کے ذریعے سے امام حسین علیہ السلام نے اسلام کے لبادے میں چھپے طاغوت کو آشکارا کرکے ۔۔۔
حق و باطل میں ہمیشہ کیلئے ایک لکیر کھینچ دی۔۔۔ جسے حسنیت کہتے ہیں۔
یزیدی اسلام یعنی طاغوتی اسلام ۔۔۔۔ حسینی اسلام یعنی محمدی اسلام
تو اس سے ثابت ہوا کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ جملہ ایسے ہی نہیں فرمایا تھا کہ[ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔]
کیونکہ طاغوت اسلام سے بیعت مانگ رہا تھا تو اسلام کیسے طاغوت کی بیعت کرسکتا ہے۔! اسلئے امام نے اتنی بڑی قربانی پیش کر دی۔
کیونکہ رسول اللہﷺ نے ایسے ہی نہیں فرمایا تھا [حسینُ منی وانا من الحسین] حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
یعنی حسین ؑ میرا ہے۔ حسین ؑ کا دین میرا دین ہے اور میرے دین کی بقا حسینؑ سے ہے۔
فرمان رسالت ﷺ یہ بھی ہے کہ [حسین ع چراغ ہدایت ہے] یعنی صراط مستقیم کی طرف جانے والوں کے ہادی و رہبر، یعنی مشعل بردار رہبر ہے
کیونکہ رسول کو اللہ تعالی نے قران مجید میں فرمایا ہے وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ [٣٦:٢] قرآنِ حکیم کی قسم۔
﴿٢﴾إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ [٣٦:٣] یقیناً آپ (ص) (خدا کے) رسولوں میں سے ہیں۔ ﴿٣﴾ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ [٣٦:٤] (اورآپﷺ) سیدھے راستے پر ہی ہیں۔ ﴿٤﴾ رسول اللہ ﷺ کی صراط مستقیم ثابت ہے تو اس حدیث حسین منی وانا من الحسین سے نہ صرف یہ ثابت ہے کہ حسین بھی صراط مستقیم پر ہیں، بلکہ اسی صراط مستقیم کے ہادی و محافظ رسولﷺ کے بعد امام حسین علیہ السلام ہیں۔
اور اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ [حسین ع کشتی نجات ہے] کیوں نہ ہو کیونکہ ہادی و رہبر ہی کے ذریعے تو نجات ملتی ہے۔
اور یہ بھی فرمایا ہے کہ [ حسن و حسین ع جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔] پس
امام حسین علیہ السلام ایک ایسا ہادی ہے کہ جس کے دنیا و آخرت میں امام ہونے پر رسول اللہ ﷺ کی احادیث سند ہیں۔
کربلا برپا کرکے امام حسین ع نے منافقین کی وہ تمام سازشیں خاک کربلا میں ملاکر اسلام کو ابدیت بخش دی۔
اب قیامت تک حسینت، طاغوت اور اسلامی طاغوت و منافقت کا مقابلہ کرتے ہوئے اصل دین اسلام محمدی ﷺ کا دفاع کرتی رہے گی۔
نورسیدحسن
Pakistan
کربلا، حق، ہادی اور صراط مستقیم

کربلا بھی ایک راستہ ہے حق تک پہنچنےکا
اے مؤمنو! یہ جہادِ صراط مستقیم ہے

حق اللہ ہے، صراط ہے مستقیم اس کا
کربلا سے گذر کر حق تک پہنچو

امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں کرب و بلا کا امتحان دے کر اللّٰہ تعالیٰ کے قول( وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ ﴿الصافات: ١٠٧﴾) پر میدان عمل میں عمل کرکے 61 سال بعد اس پیشن گوئی کو ثابت کیا۔
اور ہل من ناصر ینصرنا کی صدا یعنی ہے کوئی جو اللّٰہ کے دین کو بچانے میں میری مدد کرے۔ اس صدا کے ذریعے سے امام حسین علیہ السلام نے
اسلام کے لبادے میں چھپے طاغوت کو آشکارا کرکے ۔۔۔
حق و باطل میں ہمیشہ کیلئے ایک لکیر کھینچ دی۔۔۔ جسے حسنیت کہتے ہیں۔


یزیدی اسلام یعنی طاغوتی اسلام _____________________ حسینی اسلام یعنی محمدی اسلام
تو اس سے ثابت ہوا کہ امام حسین علیہ السلام نے یہ جملہ ایسے ہی نہیں فرمایا تھا کہ[ مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا۔]
کیونکہ طاغوت اسلام سے بیعت مانگ رہا تھا، تو اسلام کیسے طاغوت کی بیعت کرسکتا ہے۔! اسلئے امام نے اتنی بڑی قربانی پیش کردی۔
کیونکہ رسول اللہﷺ نے ایسے ہی نہیں فرمایا تھا [حسینُ منی وانا من الحسین] حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔
یعنی حسینؑ میرا ہے۔ حسینؑ کا دین میرا دین ہے اور میری دین کی بقا حسینؑ سے ہے۔
فرمان رسالت ﷺ یہ بھی ہے کہ [حسین ع چراغ ہدایت ہے] یعنی صراط مستقیم کی طرف جانے والوں کے ہادی و رہبر، یعنی مشعل بردار رہبر ہے۔
امام حسینؑ دنیا کے واحد رہبر و ہادی ہیں، جنہوں نے سر کٹنے کے بعد نوک نیزے پر قرآن پڑھ کر اپنے رہبرِ حق ہونے کی گواہی دی۔
مَا أَنْتَ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا فَأْتِ بِآيَةٍ إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ [٢٦:١٥٤]
(اور) تم تو بس ہمارے جیسے ایک بندہ ہو۔ اگر تم سچے ہو تو کوئی معجزہ لاؤ۔
تو إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ کی گواہی امام حسین علیہ السلام نے کٹے سر سے نوک نیزہ پر دی۔ اے ایمان والو! کیا تمہارے لئے یہ گواہی کافی نہیں!
کہ میں بھی حق پر، میرا بھائی حسنؑ مجتبیٰ بھی حق پر اور میرا باپ علی مرتضٰی بھی حق تعالیٰ کی طرف سے حقیقی سچے رہبر ہیں۔
اسلئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ـ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ ﴿التوبة: ١١٩﴾
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
کیونکہ رسول کو اللہ تعالیٰ نے قران مجید میں فرمایا ہے وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ [٣٦:٢] قرآنِ حکیم کی قسم۔
﴿٢﴾ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ [٣٦:٣] یقیناً آپ (ص) (خدا کے) رسولوں میں سے ہیں۔ ﴿٣﴾ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ [٣٦:٤] (اورآپﷺ) سیدھے راستے پر ہی ہیں۔ ﴿٤﴾ رسول اللہ ﷺ کی صراط مستقیم ثابت ہے تو اس حدیث حسین منی وانا من الحسین سے نہ صرف یہ ثابت ہے کہ حسین بھی صراط مستقیم پر ہے بلکہ اسی صراط مستقیم کے ہادی و محافظ رسولﷺ کے بعد امام حسین علیہ السلام ہیں۔
اور اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ [ حسین ع کشتی نجات ہے] کیوں نہ ہو، کیونکہ ہادی و رہبر ہی کے ذریعے تو نجات ملتی ہے۔
اور یہ بھی فرمایا ہے کہ [ حسن و حسین ع جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔] پس
امام حسین علیہ السلام ایک ایسا ہادی ہے کہ جس کے دنیا و آخرت میں امام ہونے پر رسول اللہ ﷺ کی احادیث سند ہیں۔
کربلا برپا کرکے امام حسین ع نے منافقین کی وہ تمام سازشیں خاک کربلا میں ملا کر اسلام کو ابدیت بخش دی۔
اب قیامت تک حسینت، طاغوت اور اسلامی طاغوت و منافقت کا مقابلہ کرتے ہوئے اصل دین اسلام محمدی ﷺ کا دفاع کرتی رہے گی۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ [٥:١٠٥]
اے ایمان والو! تم پر لازم ہے کہ اپنی جانوں کی فکر کرو۔ جو گمراہ ہے، وہ تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا، جبکہ تم ہدایت یافتہ ہو (راہِ راست پر ہو) تم سب کی بازگشت اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وہ تمہیں بتائے گا کہ تم دنیا میں کیا کرتے تھے۔؟
ہماری پیشکش