0
Saturday 22 Sep 2018 13:58

یمن جنگ اور عمران خان کا دورہ سعودی عرب

یمن جنگ اور عمران خان کا دورہ سعودی عرب
تحریر: نادر بلوچ

وزیراعظم عمران خان اپنا پہلا غیر ملکی دورہ سعودی عرب مکمل کرکے وطن واپس آچکے ہیں، وزیراعظم عمران خان نے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور سعودی بادشاہ شاہ سلمان سے وفود کی سطح پر ملاقاتیں کیں۔ اس دورے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر خزانہ اسد عمر اور وزیر اطلاعات فواد چودھری بھی ساتھ تھے، دونوں ممالک کے مشترکہ بیان اور بعد میں  وزیر اطلاعات کی پریس پریس کانفرس سے بظاہر یہ بات سامنے آئی ہے کہ دوطرفہ تعلقات اور سی پیک میں شمولیت سمیت دیگر ریجنل ایشو پر بات چیت ہوئی ہے۔ پاکستان میں سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ کیا بات چیت کی ہے اور کیا معاملات طے ہوئے ہیں، کہیں پاکستان یمن تنازعہ کا حصہ تو نہیں بن رہا۔ توقع کی جا رہی ہے کہ عمران خان اپنے دورہ سعودی عرب پر قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیں گے۔

ریاض میں دوران قیام وزیراعظم نے سعودی ٹی وی چینل العربیہ کو انٹرویو بھی دیا، العربیہ ویب سائٹ پر چھپنے والے انٹرویو  کو ہمارے کچھ ٹی وی چینل نے اینگلنگ کے ساتھ پیش کیا، جو بات عمران خان نے نہیں کہی، وہ بھی ان کے منہ میں ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس انٹرویو کو یوں کوڈ کیا گیا ہے کہ پاکستان حوثیوں کے مقابلے میں سعودی عرب کا ساتھ دے گا، حالانکہ میں نے پورے انٹرویو کو تین بار پڑھا ہے لیکن یہ جملہ کہیں بھی نہیں ملا۔ البتہ سوال صراحت کے ساتھ ضرور کیا گیا ہے۔ اب تک حکمران جماعت کی طرف سے دورے کی جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں، اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ نئی حکومت سعودی عرب کو سی پیک میں تیسرا فریق بنا رہی ہے، ابتدائی طور پر جو بات سامنے آئی ہے، وہ یہ کہ سعودی عرب گوادر میں آئل سٹی بنائے گا۔ اس پر سابق وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی سوال اٹھایا ہے کہ اگر حکومت یہ کرنے جا رہی ہے تو کیا چین کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے یا نہیں، جس پر وزیر اطلاعات فواد چودھری نے اثبات میں ٹوئٹ کیا اور کہا کہ ہاں چین کو اعتماد میں لیکر ہی یہ اقدام اٹھایا گیا ہے۔

وزیراعظم عمران خان کا سعودی عرب اور آرمی چیف کا چین کا دورہ اس بات کو اور زیادہ تقویت دیتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کر رہا ہے۔ دورے کے دیگر فیوض و برکات فی الحال سامنے نہیں آسکیں، اس لئے فوری طور پر یہ رائے قائم نہیں کرسکتے کہ پاکستان یمن جنگ کا ایندھن بننے جا رہا ہے یا نہیں۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا کہ پاکستانی میڈیا نے خبر کو اینگل ضرور دیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان سے العربیہ کے اینکر نے کل 16 سوالات پوچھے، جن میں سے پانچ سعودی عرب سے مخصوص سولات ہیں، جن کا تعلق مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات، یمن مسئلہ اور حوثیوں کی جانب سے مبینہ حرمین شریفین پر حملوں کی بات شامل ہے۔ ان سوالات کے جوابات پڑھ کر ہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان مجموعی طور پر کیا کہنا چاہ رہے ہیں اور ان کی حکومت کی مشرق وسطیٰ کے حوالے سے کیا پوزیشن ہے۔

عمران خان سے سوال کیا گیا کہ جیو پولیٹیکل صورتحال کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کیا ہے؟، جس پر انہوں نے یوں جواب دیا کہ پاکستان نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں شامل ہونے سے بہت متاثر ہوا ہے، نائن الیون میں پاکستان کا کوئی کردار نہیں تھا، لیکن پاکستان امریکی جنگ کا حصہ بنا تو اسے اس کا ناقابل تلافی نقصان ہوا، جس میں 100 ارب ڈالر کا نقصان اور 88 ہزار شہداء کی قربانی دینا پڑی۔ چنانچہ اس وقت پاکستان کو امن اور استحکام کی اشد ضرورت ہے، اس کے لئے ہم افغانستان، بھارت اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا چاہتے ہیں۔ ان تعلقات کی بنیاد باہمی اعتماد ہے، لیکن بدقسمتی سے اس اعتماد میں کمی رہی ہے، پاکستان کا افغانستان کے بارے میں ایک ہی نکتہ نظر ہے، لیکن انڈیا اور افغانستان کا نکتہ نظر ایک نہیں ہے۔ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے، جس سے ہم یقیناً اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں، سعودی عرب بھی ہمارا مسلم برادر ملک ہے، مقدس مقامات کی وجہ سے ہمارا رشتہ اور بھی گہرا ہے، ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ سعودی عرب محفوظ اور خوشحال رہے، ہماری تمام تر دعائیں سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔

ایک اور سوال یوں ہوتا ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کے مستقبل کے تعلقات کو کیسے دیکھتے ہیں، پاکستان مشرق وسطیٰ اور اسلامی دنیا کے حوالے سے اپنی کیا پوزیشن رکھتا ہے، پاکستان اور سعودی عرب عالمی سطح پر کیسے دہشتگردی کے خاتمے اور امن کی خاطر کام کرسکتے ہیں۔ اس پر وزیراعظم عمران خان نے یوں جواب دیا کہ وہ سعودی عوام کو یقین لاتے ہیں کہ ہم ہر مشکل گھڑی میں سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب بھی مشکل وقت آئے گا، ہم ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امن آئے، کیونکہ مسلم امہ کو تنازعات میں دیکھتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ آپ لیبیا، صومالیا، شام، افغانستان اور پاکستان کی صورتحال دیکھ سکتے ہیں، البتہ پاکستان نے دہشتگردی کو کنٹرول کر لیا ہے، مشرق وسطیٰ میں ہماری خواہش ہے کہ ہم مسلم امہ کو جوڑنے کے لئے مصالحت کا کردار ادا کریں، یہی ہماری کوشش ہے۔

اینکر اس سے اگلا سوال یہ کرتا ہے کہ آپ کیسے سعودی عرب اور پاکستان کو اسٹریٹیجک انویسٹمنٹ اتحادی بنتا دیکھتے ہیں؟۔ وہ کونسی صورتحال ہے، جو دونوں  مممالک کو قریب کرسکتی ہے۔ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ پاکستان میں اس وقت سرمایہ کاری کے بہترین مواقع اور پوٹنشل موجود ہے، خطے میں دوسرے ممالک کی نسبت پاکستان میں زیادہ مواقع اور استعداد موجود ہے۔ اگلا سوال پاک چین اقتصادری راہداری میں سعودی شمولیت سے متعلق ہے، جس کا عمران خان نے تفصیلی جواب دیا۔ دو سوالوں کے بعد انٹرویو لینے والا پھر دوبارہ مشرق وسطیٰ سے متعلق ہی سوال کرتا ہے کہ دونوں ممالک کیسے امن و امان کے قیام، خطے کو پرتشدد اور فرقہ وارانہ جنگ سے نکال سکتے ہیں۔ اس پر عمران خان نے جواب دیا کہ مکہ اور مدینہ کی وجہ سے مسلم امہ میں سعودی عرب کا ایک خاص مقام ہے، سعودی عرب کے پاس کے تیل کے ذخائر ہیں اور وہ مالی حوالے سے بہت مضبوط ملک ہے، سعودیہ ایک بڑا کردار ادا کرسکتا ہے، ہماری خواہش ہے کہ تنازعات کے خاتمے اور لوگوں کو آپس میں جوڑنے کے لئے کردار ادا کریں۔

اینکر تفصیلی جواب لینے کے باوجود اب یمن کے حوثیوں سے متعلق سیدھا اور صراحت کے ساتھ سوال کرتا ہے کہ حوثی آئے روز سعودی عرب پر میزائل داغ رہے ہیں، حتیٰ حوثیوں نے حرم پاک پر بھی حملہ کیا ہے، آپ کی حکومت کیا رسپانس دے گی، اگر وہ ان دو مقدس مقامات والے ملک پر حملہ کرتے ہیں۔ اس پر عمران خان نے نام لئے بغیر ہی جواب دیا کہ تمام حکومتوں کی جانب سے یہ پوزیشن واضح ہے کہ ہم کسی کو سعودی عرب پر حملے کی اجات نہیں دیں گے، ہم سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہوں گے، لیکن میں ایک چیز کہنا چاہتا ہوں کہ افغان تنازعہ کو 16 سال بیت گئے ہیں، ہمیں پرو طالبان کہا گیا، حتیٰ مجھے طالبان خان تک کہا گیا، لیکن اب ہر کوئی یہی محسوس کر رہا ہے کہ افغانستان کا واحد حل سیاسی حل ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہر تنازعے کا حل سیاسی حل ہی ہے، بذات خود میں ملٹری حل پر یقین نہیں رکھتا۔

اس سے اگلا سوال یہ ہوتا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کے خلاف بننے والے اسلامی اتحاد کا تاسیسی رکن ہے، جس کا مرکز ریاض میں ہے، یہ اقدام شہزادے محمد بن سلمان نے اٹھایا تھا، پاکستان کا اس صورتحال میں کیا رول دیکھتے ہیں۔ اس سوال کا عمران خان نے جواب دیا کہ پاکستان کے مقابلے میں دنیا کا کوئی ملک دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے بارے میں زیادہ ماہرانہ مشورہ نہیں دے سکتا، ایک وقت تھا، جب پاکستان میں آئے روز خودکش دھماکے ہوا کرتے تھے، 2013ء میں پاکستان میں دہشتگردی اپنے عروج پر تھی، لیکن اب ہمارے حساس اداروں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز کی کوششوں اور قربانیوں سے اس پر کنٹرول کر لیا ہے، بہت کم ممالک ہیں، جو ایسا کرسکے ہیں، پاکستان کے پاس ایک بہترین تجربہ ہے کہ دہشتگردی کو کیسے کنٹرول کیا جاتا ہے، لیکن ساتھ میں پھر یہی کہوں گا کہ سیاسی حل پر توجہ دینی چاہیئے۔

اس پورے انٹرویو کو پڑھنے کے بعد یہی معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان مشرق وسطیٰ کے کسی پنگے میں نہیں پڑنا چاہتے اور سعودی قیادت کو بھی یہی مشورہ دیے رہے ہیں کہ پاکستان اگر کوئی کردار ادا کرسکتا ہے تو وہ مصالحت کا ہے، یہ بات عمران خان نے ریاض میں بیٹھ کر دوران انٹرویو کئی بار دہرائی ہے۔ عمران خان نے سعودی عرب سے متعلق سابقہ حکومتوں والا روایتی موقف ضرور اپنایا ہے، جس میں کہا ہے کہ اگر سعودی سالمیت کو خطرہ ہوا تو ہم ساتھ کھڑے ہیں، لیکن کسی ملک کے خلاف ساتھ دینے کی بات نہیں کی۔ اب تک کی معلومات کے مطابق پاکستان آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے سعودی عرب کو تیسرا اسٹریجیک پارٹنر بنا رہا ہے اور سی پیک میں شراکت دار بنا رہا ہے۔ اس کے ذریعے پاکستان امریکہ کی پابندیوں اور مشکلات سے بھی بچنا چاہتا ہے۔

پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ سعودی عرب امریکی اتحادی ہے اور اس کے ذریعے سے ہی کئی چیزوں کو ٹیکل کیا جاسکتا ہے، سی پیک امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا، پابندیاں اور دھمکیوں کی بنیادی وجہ ہی چین کو راہداری دینا ہے، پاکستان کا خیال ہے کہ اگر سعودی عرب کو منصوبے میں شامل کر لیا جائے تو امریکیوں کو اس منصوبے میں رکاوٹ بننے سے روکا جاسکتا ہے، خارجہ پالیسی کے حوالے سے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین تعلقات کا بیان خوش آئند بات ہے، ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں اعتدال اور توازن پیدا کرنا چاہیئے، یہی پاکستان کے مفاد میں بہتر ہے۔ اگر بادل ناخواستہ پاکستان سعودی اتحادی بن کر کسی جنگ میں شریک ہوتا ہے تو اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہوگی اور عمران خان کا سب سے بڑا یوٹرن شمار ہوگا، جس کی نا تو ملکی صورتحال اجازت دیتی ہے اور نہ ہی دین اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں ہونے والی جنگوں میں فریق بنا جائے۔ پاکستان کا ایک ہی کردار ہے، وہ ہے مصالحت کا کردار، جس کی خود عمران خان کئی بار تکرار کرچکے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 751439
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش