1
0
Saturday 28 May 2011 17:01

امریکہ کا بدلتا ہوا معاشرہ / پہلا حصہ

امریکہ کا بدلتا ہوا معاشرہ / پہلا حصہ
تحریر: پروفیسر حمید مولانا
امریکی معاشرے کا اجتماعی سیٹ اپ تیزی سے تبدل ہو رہا ہے اور یہ تبدیلی امریکہ کی سیاست، اقتصاد اور ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کرے گی۔ امریکی حکومت کی جانب سے گذشتہ سال [2010] کی مردم شماری سے متعلق شائع ہونے والے تازہ ترین اعداد و شمار [24 مارچ 2011 کو شائع ہوئے] ظاہر کرتے ہیں کہ لاطینی، ایشیائی اور اسپینش نژاد افراد کی آبادی میں تیزی سے اضافے کے باعث اگلے 30 سالوں کے دوران سفید پوست امریکی ملک کی اقلیتی آبادی میں شمار کئے جائیں گے۔ امریکہ جو کچھ سال قبل تک سفید پوست امریکیوں کا ملک کہلاتا تھا اور سیاہ پوست افراد اقلیتی آبادی کا حصہ تصور کئے جاتے تھے اس وقت ایسی آبادی پر مشتمل ہے جہاں تشخص، زبان اور نسل کے اعتبار سے چند قومیتی اور چند ثقافتی افراد کی اکثریت ہے۔
اس وقت بھی امریکہ کی بعض ریاستوں جیسے کیلیفورنیا اور نیو میکسیکو کے اسکولوں میں ایسے امریکی بچوں کی تعداد جو لاطینی یا اسپینش زبان بولتے ہیں سفید پوست بچوں سے زیادہ ہے۔ سفید پوست امریکیوں میں پیدائش کی شرح لاطینی اور ایشیائی نژاد افراد کی نسبت بہت کم ہے۔ اس وقت امریکہ کی 30 کروڑ 90 لاکھ آبادی میں سے 5 کروڑ افراد لاطینی نژاد اور اسپینش زبان بولنے والے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہر 6 امریکیوں میں سے ایک شخص لاطینی نژاد اور اسپینش بولنے والا ہے۔ امریکہ میں ایشیائی نژاد افراد کی تعداد کل آبادی کا 5 فیصد ہے جبکہ افریقی نژاد افراد کی تعداد امریکہ کی کل آبادی کے 12 فیصد حصے پر مشتمل ہے۔
امریکی معاشرے میں تبدیلی صرف آبادی، نسل، زبان یا جغرافیہ کی حد تک نہیں ہے۔ امریکی وزارت محنت، اقتصاد اور دوسرے حکومتی اور پرائیویٹ اداروں کی جانب سے شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 10 سال کے دوران امریکی معاشرے میں طبقاتی فاصلہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں رونما ہونے والے اقتصادی بحران اور اسکے نتیجے میں دیوالیہ پن نے امریکہ میں غربت، بھوک اور بے گھر ہونے کو انتہائی واضح کر دیا ہے۔ مثال کے طور پر امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں گذشتہ 3 سال کے دوران بے گھر افراد کی تعداد میں 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ واشنگٹن کی 7 لاکھ کی آبادی میں 20 ہزار افراد ایسے ہیں جو بے گھر ہیں جن میں سے ایک تہائی تعداد بچوں کی ہے [واشنگٹن پوسٹ، 14 اپریل 2011]۔ اسی طرح واشنگٹن کے اطراف میں 4 لاکھ افراد ایسے ہیں جو کافی مقدار میں کھانے پینے کے سامان سے محروم ہیں [واشنگٹن پوسٹ، 25 مارچ 2011]۔
"یو ایس نیوٹریشن" نامی تحقیقی اور علمی پروجیکٹ جو ایک امریکی ارب پتی ہاورڈ بفٹ (Howard Buffett) اور واشنگٹن پوسٹ کے ایک منیجر نے مل کر انجام دیا ہے ظاہر کرتا ہے کہ 5 کروڑ امریکی [کل آبادی کا چھٹا حصہ] ڈیلی کھانے پینے کے خرچے سے محروم ہیں اور واشنگٹن اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں جو ملک کے امیرترین علاقے تصور کئے جاتے ہیں 6 سے 8۔15 فیصد افراد رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ اوسطا امریکی آبادی کا 6۔16 فیصد حصہ ایسے افراد پر مشتمل ہے جو ہمیشہ بھوک یا غذا کی کمی کا شکار ہیں۔ گذشتہ چند عشروں کی فضول خرچی کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والے اقتصادی بحران، امریکہ کی مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی جانب سے بجٹ میں کمی، جابز کے خاتمے اور دیوالیہ پن باعث بنے ہیں کہ امریکہ کے اکثر شہروں خاص طور پر کیلیفورنیا کی ریاست میں حکومتی کارکنوں کی آدھی تعداد کو نکال باہر کیا جائے اور باقی بچنے والے کارکنان کی پنشن ختم کر دی جائے [واشنگٹن پوسٹ، 10 مارچ 2011]۔ یہی چیز امریکی ریاستوں وسکانسن، کیلیفورنیا، اوہایو اور انڈیانا میں عوامی مظاہروں کا باعث بھی بنی ہے۔
ایک طرف امریکہ کے درمیانے اور نچلے طبقے کے افراد پر مالی دباو میں اضافہ ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ امریکہ کے بڑے بڑے ادارے اور کمپنیاں حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر سبسڈیز کی مدد سے اچھی اقتصادی صورتحال کی مالک ہونے کے باوجود اپنے منافع کی نسبت کم ٹیکس ادا کر رہی ہیں۔ امریکی روزنامے نیویورک ٹائمز نے 2 ماہ قبل یہ خبر دی تھی کہ "جنرل الیکٹرک" نامی عظیم امریکی کمپنی نے جسکی سالانہ آمدنی 2۔14 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور 1۔5 ارب ڈالر سے زیادہ منافع کماتی ہے کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا [واشنگٹن پوسٹ، 30 مارچ 2011]۔ اس خبر نے اکثر امریکی شہریوں کا بلڈ پریشر ہائی کر دیا ہے۔ امریکی ٹی وی چینل این بی سی جو اسی کمپنی سے وابستہ ہے نے اس خبر کو مکمل طور پر سنسر کر دیا تھا۔
ان دنوں امریکی میڈیا پر اچھی خبر بہت کم سننے کو ملتی ہے۔ جابز کا خاتمہ، اقتصادی بحران، افراد اور کمپنیز کا دیوالیہ پن، امریکہ کی سیاسی اور اقتصادی طاقت کا زوال، ڈالر کی قدر میں کمی، تیل اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ، جاپان میں زلزلے اور تسونامی کی خبریں، امریکہ کے اتحادی عرب ممالک میں سیاسی کشمکش اور ہنگامے، افغانستان، عراق، پاکستان اور اب لیبیا میں فوجی مداخلت کا جاری ہونا، سیاسی پارٹیوں کے درمیان طاقت کی جنگ، ان سب چیزوں نے امریکی عوام میں بے چینی اور پریشانی کی لہر دوڑا رکھی ہے۔
امریکی معاشرے میں اجتماعی اور آبادی کے تناسب میں تبدیلی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلیاں تفکر، نظریات اور کردار کی تبدیلیوں اور اسی طرح پالیسی میکرز کی جانب سے پالیسیوں میں تبدیلی کا باعث بنیں گی یا نہیں؟۔ امریکی معاشرتی ڈھانچے، آبادی اور اقتصاد میں پہلی عظیم تبدیلی انیسویں صدی کے وسط میں یعنی امریکہ میں خانہ جنگی شروع ہونے سے 10 سال قبل رونما ہوئی تھی۔ یہ تبدیلی امریکہ کی شمالی اور جنوبی ریاستون کے درمیان اختلافات کے باعث ایک بڑے سانحے کا باعث بن گئی تھی جو چار سال تک جاری رہا [1861 سے لیکر 1865 تک]۔
خبر کا کوڈ : 75157
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

So true. Honesty and everything rceognzied.
ہماری پیشکش