QR CodeQR Code

امریکہ کی زوال پذیر ہوتی نرم طاقت

23 Sep 2018 00:51

اسلام ٹائمز: علاقائی اور عالمی سطح پر درپیش مسائل اور بحرانوں کے حل کیلئے منعقد ہونے والے اجلاسوں میں امریکہ کی غیر حاضری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ عالمی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار ہو چکا ہے۔


تحریر: رسول سنائی راد

پہلی عالمی جنگ کے بعد امریکہ کی تیزی سے ترقی، اسٹریٹجک اور جدید ٹیکنالوجیز، جدید ثقافتی صنعت، علمی ترقی اور حتی فوجی طاقت نے اس ملک کو عالمی سطح پر ایسی طاقتور پوزیشن عطا کی کہ نہ صرف تیسری دنیا کے مغرب نواز روشن خیال حضرات بلکہ یورپ میں روشن خیالی کے دعوے دار جیسے ڈوٹو کویل امریکہ کی نرم طاقت کے گن گانے لگے۔ یہی طاقت مشرقی بلاک کے خاتمے اور امریکہ کی مرکزیت میں یونی پولر ورلڈ آرڈر کے وہم کا باعث بنی اور تاریخ کے اختتام جیسے نظریات کی بنیاد پر دنیا بھر میں امریکی اقدار کے فروغ کا زمینہ فراہم کیا گیا۔ اسی طرح امریکہ کی چوہدراہٹ میں واحد گلوبل ولیج کی باتیں سنائی دینے لگیں۔ لیکن یہ زمانہ دیگر مادی طاقتوں کی طرح امریکہ کیلئے بھی ایک عارضی دور ثابت ہوا ہے اور دنیا بھر میں میڈیا سلطنت کا مالک ہونے کے باوجود جس کے ذریعے اپنی برتری کا اظہار، اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے اور دوسروں کے اذہان پر قبضے کی بھرپور کوشش کی جاتی رہی، آج امریکی طاقت کا زوال عیاں ہوتا جا رہا ہے۔
 
حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بھی سرکاری طور پر امریکی طاقت کے اس زوال کی جانب اشارہ کیا ہے جو اگرچہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اس کے باوجود اس کا بغور جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جدید دور میں رونما ہونے والی ثقافتی اور سماجی تبدیلیوں نے ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں جن کے باعث کسی بھی علاقائی یا عالمی طاقت کے تسلط اور اثرورسوخ کا انحصار اس کی نرم طاقت پر ہو گیا ہے۔ نرم طاقت میں دوسروں کو اپنی سمت کھینچنے، دوسروں کو قانع کرنے اور دوسروں میں اپنی اقدار اور طرز زندگی کی مقبولیت میں اضافہ کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ پس کسی بھی علاقائی یا عالمی طاقت کی زوال کا اندازہ اس کی نرم طاقت کے زوال سے لگایا جا سکتا ہے۔ جب کسی کی نرم طاقت میں زوال آتا ہے تو وہ اپنی فوجی طاقت اور اقتصادی میدان میں بے تحاشہ اخراجات کرنے کے باوجود مطلوبہ سیاسی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ امریکہ کی نرم طاقت میں زوال کے آثار درج ذیل موارد کے ذریعے قابل مشاہدہ ہیں:
 
1)۔ پراکسی وار اور اپنی پٹھو طاقتوں کے ذریعے مطلوبہ اہداف کے حصول میں ناکامی جس کے نتیجے میں امریکہ علاقائی تنازعات میں براہ راست مداخلت کرنے پر مجبور ہو گیا ہے جس کی واضح مثالیں عراق اور شام میں اس کی براہ راست فوجی مداخلت ہے۔
 
2)۔ یورپی ممالک سمیت بعض امریکی اتحادیوں کا اس ملک سے منہ پھیر کر دوری اختیار کر لینا۔ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے بعض قریبی اتحادی اس کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں اور اس کی متنازعہ پالیسیوں کے سبب اس کا ساتھ جاری رکھنا اپنے لئے نقصان دہ تصور کرتے ہیں۔ نہ صرف پاکستان امریکہ سے منہ پھیر کر مشرق کی جانب جھکاو ظاہر کرتا نظر آتا ہے بلکہ بہت سی یورپی شخصیات بھی امریکہ سے ہٹ کر اپنی حیثیت اور مفادات کا دفاع کرنے پر زور دے رہی ہیں۔
 
3)۔ دنیا میں تیزی سے بڑھتے ہوئے امریکہ مخالف رجحانات۔ آج صرف انقلابی اور حریت پسند ممالک ہی امریکہ سے گریزاں نظر نہیں آتے بلکہ امریکہ سے دوری کے رجحانات یورپی ممالک تک جا پہنچے ہیں۔ آج دنیا کی مختلف قومیں نہ صرف امریکی حکام کا خیر مقدم نہیں کرتیں بلکہ ان کے دوروں کے دوران ان کے خلاف شدید احتجاج کرتی بھی نظر آتی ہیں۔ جب بھی امریکی حکام کسی ملک کا دورہ کرتے ہیں وہاں ان کے خلاف شدید احتجاجی ریلیاں روز کا معمول بن چکی ہیں۔
 
4)۔ علاقائی اور عالمی سطح پر درپیش مسائل اور بحرانوں کے حل کیلئے منعقد ہونے والے اجلاسوں میں امریکہ کی غیر حاضری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ عالمی سطح پر گوشہ نشینی کا شکار ہو چکا ہے۔ آج شام میں جاری بحران کے حل کیلئے جو سیاسی عمل جاری ہے اس میں امریکہ کا کوئی کردار نظر نہیں آتا۔
 
5)۔ آج دنیا کے مختلف ممالک کھل کر امریکی پالیسیوں اور اقدامات کی مخالفت اور مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں۔ روس، چین، میکسیکو، کینیڈا اور بعض یورپی ممالک جو امریکہ کی جانب سے تجارتی جنگ کا شکار ہوئے ہیں کھل کر میدان میں آ چکے ہیں اور امریکہ کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں مصروف ہیں۔ یہ ممالک امریکہ کی جانب سے اپنی برآمدات پر ٹیکس عائد کرنے کے بدلے میں امریکی برآمدات پر بھی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔ اسی طرح امریکہ کی جانب سے اسرائیل میں اپنا سفارتخانہ بیت المقدس منتقل کئے جانے کے اقدام کی تقریباً دنیا بھر کے ممالک نے مخالفت کی ہے۔


خبر کا کوڈ: 751571

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/article/751571/امریکہ-کی-زوال-پذیر-ہوتی-نرم-طاقت

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org