0
Sunday 23 Sep 2018 23:30

عشرہ محرم، گلگت میں مسلکی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا مثالی مظاہرہ

عشرہ محرم، گلگت میں مسلکی ہم آہنگی اور بھائی چارے کا مثالی مظاہرہ
رپورٹ: لیاقت علی انجم

عوام اور پاک فوج کی بے پناہ قربانیوں اور عوام میں شعور بیدار ہونے سے جہاں ایک طرف ملک میں امن کی رونقیں لوٹ آئی ہیں وہاں مختلف مسالک کے مابین مثالی ہم آہنگی دیکھنے میں آ رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں یوم عاشور انتہائی پرامن طریقے سے گزر گیا، مسلکی ہم آہنگی کی بہترین مثال گلگت میں دیکھنے کو ملی جب اہلسنت برادری اور اسماعیلی کمیونٹی نے نہ صرف عشرہ محرم کی مجالس میں شرکت کی بلکہ یوم عاشور کے جلوسوں کے انتظام و انصرام کا کام بھی سنبھالا۔ گلگت میں 80ء کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ایسا منظر نامہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اہلسنت برادری کے ساتھ اسماعیلی برادری بھی پیچھے نہ رہی، اسماعیلی بوائے سکاؤٹس نے نویں محرم اور یوم عاشور کی صبح جلوسوں کے پورے روٹس کی صفائی کردی، جبکہ پورا دن گلگت سے ہنزہ تک سبیلوں کا اہتمام کیا اور جلوسوں کے انتظامات سنبھالے، گلگت میں ڈپٹی اسپیکر جعفراللہ خان سمیت دیگر کئی اہلسنت اکابرین دن بھر انتظامات کا جائزہ لیتے رہے، اس سے پہلے نو محرم کے روز مجالس عزاء میں اہل سنت عمائدین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، پیپلزپارٹی کے سینئر نائب صدر جمیل احمد سمیت کئی اہم رہنما مجالس میں شریک ہوتے رہے۔

عاشورہ کے دن سول سوسائٹی اوشکھنداس کے اراکین، معروف ادبی شخصیت عبدالخالق تاج، جمشید خان دکھی، جی بی کونسل کے ممبر ارمان شاہ کی جانب سے سبیلیں لگائی گئیں، بھائی چارے اور مسلکی ہم آہنگی کی ایک اور مثال اس وقت سامنے آئی جب چھموگڑھ کالونی گلگت کے اہلسنت سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوانوں نے کالے کپڑوں میں ملبوس ہو کر سبیل اور لنگر حسینی کا اہتمام کیا اور دن بھر عزاداروں میں سبیل اور لنگر تقسیم کرتے رہے، سابق ڈپٹی اسپیکر جمیل احمد ساتویں محرم سے یوم عاشور تک کسی سے پیچھے نہ رہے، جمیل احمد مجالس میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ سبیل اور لنگر تقسیم کرتے رہے، استور میں بھی رواداری کی مثال قائم ہوئی، محرم کے پہلے ہفتے میں اہل سنت کے رہنما اور پیپلزپارٹی استور کے صدر عبدالحمید خان نے سبیل امام حسین کیلئے دکانداروں اور عوام سے چندہ مہم شروع کر دی تھی، ان کی اس کاوش کو خوب سراہا گیا، عاشورا کے روز اہلسنت عمائدین کی بڑی تعداد نے جلوس میں شرکت کی، امن کمیٹی کے ممبران ساتھ ساتھ رہے، عبدالحلیم مصطفوی کی جانب سے سبیل کا اہتمام کیا گیا، پیپلزپارٹی، اور تحریک انصاف کی جانب سے بھی سبیل لگائی گئی جبکہ امن کمیٹی کے ممبران محبوب علی خان، ڈاکٹر فدا اور پارلیمانی سیکرٹری برکت جمیل بھی جلوس میں شریک ہوئے اور انتظامات کا جائزہ لیتے رہے۔

معروف عالم دین سید عاشق حسین الحسینی نے عزاداروں سے خطاب کرتے ہوئے اہل سنت اکابرین کا خصوصی شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ امن اور بھائی چارے کی جو مثال استور میں قائم ہوئی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی، انہوں نے کہا کہ عزاداروں سے بھرپور تعاون کرنے پر اہلسنت برادری، حکومت اور انتظامیہ کے مشکور ہیں۔ ادھر گلگت میں مثالی امن اور بھائی چارے کی فضاء دیکھ کر آغا راحت حسین الحسینی نے یوم عاشور کے مرکزی جلوس سے خطاب کرتے ہوئے اہل سنت اور اسماعیلی اکابرین اور عوام کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ کافی عرصے بعد گلگت میں مثالی امن قائم ہوا ہے اور یکجہتی کی فضا قائم ہوئی ہے اس کو ہمیشہ قائم رکھنے کی ضرورت ہے، مقامی لوگوں کے مطابق گلگت میں یہ تبدیلی 80کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ دیکھنے کو مل رہی ہے، 1988ء کے سانحہ کے بعد گلگت شہر میں دوعشرے تک آگ اور خون کا کھیل جاری رہا، اس دوران کئی اہم شخصیات فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھ گئی، ایک چھوٹے سے شہر میں نوگوایریاز بن گئے، تاہم 2012ء-13 کے بعد سے یہ صورتحال تبدیل ہونا شروع ہوئی ہے، اہل سنت اور اہل تشیع اکابرین نے ایک دوسرے سے رابطہ کیا اور عوامی سطح پر رابطہ مہم شروع کی، اس رابطہ مہم کی سب سے اہم بنیاد عوامی ایکشن کمیٹی بنی جس نے مسلکی ہم آہنگی میں اہم کردار ادا کیا، عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان میں تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کا مشترکہ پلیٹ فارم ہے، اس پلیٹ فارم پر آج شیعہ، سنی، اسماعیلی اور نوربخشیہ مسلک کے لوگ ایک پیج پر موجود ہیں۔

خطے میں وحدت کی مثالی فضا پر عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس کا اسلام ٹائمز سے خصوصی گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ جو تبدیلی آئی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ عوامی سطح پر شعور بیدار ہونا ہے، عوام میں سنجیدگی آئی ہے عوام کو احساس ہونے لگا ہے، ماضی میں اس کے برعکس عوام بات سننے کو بھی تیار نہ تھے جس کی وجہ سے حالات خراب ہوتے رہے، لیکن 2012ء کے بعد عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا تو اس پلیٹ فارم سے گلگت بلتستان میں ایک دوسرے کے مابین دوریوں کو ختم کرنے کی کوششیں شروع ہوئیں، ہم نے بڑی کوششوں کے بعد عوام میں دوریوں کا خاتمہ کیا، جس کے حوصلہ افزاء نتائج سامنے آ رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ گلگت میں حالیہ عشرہ محرم کے دوران امن اور وحدت کی جو مثال قائم ہوئی وہ پورے ملک کیلئے مثال بن گئی ہے، اس میں عوام کے ساتھ اداروں اور حکومت نے بھی بھرپور کردار ادا کیا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا سلطان رئیس کا کہنا تھا کہ یہ امن اور بھائی چارے کی فضا صرف ایک ماہ تک محدود نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ امن ہماری مستقل ضرورت ہے، اگر ہم سال بھر ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتے جائیں اور محرم کے مہینے میں بھائی چارے کی رٹ لگائیں تو اس طرح امن قائم نہیں ہوگا ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح عوامی ایکشن کمیٹی نے رابطہ مہم کا ایک سلسلہ شروع کیا ہوا ہے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی اس طرح کی رابطہ مہم شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر آپ دیکھیں تو اس پلیٹ فارم پر تمام مسالک کے لوگ جمع ہیں اور ایکشن کمیٹی کا ہفتے میں نہ ہوا تو ہر پندرہ دن بعد ایک اجلاس ضرور ہوتا ہے، جب مختلف مسالک کے لوگ بار بار آپس میں مل جائیں گے تو دوریوں کا خاتمہ ہوگا وحدت کی فضا مستقل طور پر قائم ہو گی، اسی طرح سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ وہ مختلف مسالک کو ایک دوسرے سے ملانے کیلئے کوششیں کریں، کم از کم مسلکی ہم آہنگی کیلئے ایک کانفرنس تو ضرور کریں۔ ادھر اسلامی تحریک گلگت بلتستان کے جنرل سیکرٹری شیخ مرزا علی نے اسلام ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عوام سمجھ پائے ہیں کہ انہیں کیا کرنا ہے، 2012ء کے دلخراش سانحات کے باوجود عوام نے صبر کا مظاہرہ کیا اور دشمن کے عزائم ناکام بنا دیئے، اگر عوام اپنی ذمہ داری ادا کرے اور حکومت اپنا کردار نبھائے تو امن کو تقویت ملے گی، سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرنا ہوگا، عقائد پر تنقید سے اجتناب کرنا ہوگا، اتحاد امت کا تصور صرف تقریروں اور تحریروں تک محدود نہیں ہونا چاہیئے بلکہ عملی مظاہرہ پیش کرنا چاہیئے، کیونکہ امن تمام مسالک کے لوگوں کی ضرورت ہے، ہم نے شیعہ علماء کونسل کے پلیٹ فارم سے 2012ء میں ایک ایسے وقت میں امن کانفرنس منعقدہ کرکے بین المسلکی ہم آہنگی کیلئے کوششوں کا آغاز کیا تھا، جس وقت خطے میں کئی دلخراش سانحات رونما ہوئے تھے اس کے بعد بھی ہم عملی طور پر کوششیں کر رہے ہیں لیکن ایک بات واضح کرنا چاہتا ہوں کہ حکومت میرٹ کو فالو کرنا چھوڑ دے تو اختلافات پیدا ہونگے، عوام خصوصا نوجوانوں میں احساس محرومی بڑھتا چلا جائے گا جس کی وجہ سے حالات خراب ہو سکتے ہیں، ہر حکومت کو چاہیئے کہ وہ تعصب کی عینک اتار پھینک دے۔ بجٹ، فنڈز اور بھرتیوں میں ڈنڈی نہ مارے میرٹ کو فالو کرے۔
خبر کا کوڈ : 751736
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش